یوگینڈا کرکٹ ٹیم کے پاکستانی نژاد آل راؤنڈر ریاضت علی: ’پاکستان سے مایوس ہو کر یوگینڈا کا رخ کیا، خواہش ہے کہ بابر اعظم کی وکٹ لوں‘

تاریخ میں پہلی مرتبہ یوگینڈا نے آئندہ برس منعقد ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کر لیا ہے اور اس میں ایک پاکستانی نژاد کھلاڑی کا انتہائی اہم کردار ہے جنھیں پاکستان سے مایوس ہو کر یوگینڈا کا رخ کرنا پڑا تھا۔

افریقی ملکیوگینڈا نے تاریخ میں پہلی بار کسی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کر لیا ہے اور اس عمل میں ایک پاکستانی نژاد کھلاڑی کا کردار انتہائی اہم رہا ہے۔

یوگینڈا کی کرکٹ ٹیم کے آل راؤنڈر ریاضت علی شاہ نے ٹیم کو اگلے راؤنڈ تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے اور ان کی یوگینڈا تک پہنچنے کی کہانی انتہائی دلچسپ ہے۔

یوگینڈا کو کوالیفائی کرنے کے لیے زمبابوے کو شکست دینا ضروری تھا اور اس میچ میں ریاضت نے نہ صرف سکندر رضا کی اہم وکٹ حاصل کی بلکہ 26 گیندوں پر 42 رنز بنا کر اپنی ٹیم کو مستحکم پوزیشن پر پہنچانے میں کامیاب بھی ہوئے۔

یہ ٹورنامنٹ افریقی ملک نمیبیا میں کھیلا جا رہا تھا اور وہیں سے بی بی سی کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ریاضت کا کہنا تھا کہ ’ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے لازم تھا کہ ہم زمبابوے سے جیتیں، ہم بیٹھے اور ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم کسی بھی ٹیم کو ہرا سکتے ہیں۔

زمبابوے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والا ملک ہے اور اس نے سنہ 2022 میں آسٹریلیا میں منعقدہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کو بھی شکست دی تھی۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ عموماً ایسی غیر معروف ٹیموں کے لیے منظرِ عام پرآنے کا ایک سنہری موقع ہوتا ہے اور اس کے لیے یوگینڈا کرکٹ ٹیم کافی عرصے سے تیاری کر رہی تھی۔

پاکستانی نژاد ریاضت علی شاہ چاہتے ہیں کہ ورلڈ کپ میں ان کا مقابلہ پاکستان سے ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ ’بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ پاکستان اور انڈیا ایک ہی پول میں ہوں گے۔ اگر ہم بھی اس پول میں ہوئے تو پاکستان کے ساتھ میچ کو انجوائے کروں گا۔

’میری خواہش ہو گی کہ بابر اعظم کی وکٹ لوں اور شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ کا سامنا کر کے ان کے خلاف رنز بناؤں۔‘

ریاضت علی شاہ کون ہیں؟

ریاضت علی شاہ کا تعلق گلگت سے ہے۔ ان کے والد گلگت میں ادوایات کے کاروبار سے منسلک ہیں۔

ریاضت علی شاہ نے پندرہ سال تک کی عمر میں ٹیپ بال کے ساتھ کرکٹ کھیلی تھی اور پھر سولہ سال کی عمر میں ہارڈ بال کے ساتھ کلب کرکٹ کھیلنا شروع کی تو ان کی مقبولیت میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔

ریاضت کہتے ہیں کہ ’بنیادی طور پر پہاڑی علاقے کا رہنا والا ہوں اس وجہ سے بچپن ہی سے فِٹ ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کرکٹ کھیلنے میں مجھے والد صاحب کی طرف سے رکاوٹ نہیں تھی مگر والدہ سے ڈانٹ پڑتی تھی۔

’وہ چاہتی تھیں کہ میں پڑھائی پر توجہ دوں یہی وجہ ہے کہ مجھے گلگت بلتستان کے بہترین تعلیمی اداروں میں داخل کروایا گیا۔‘

کلب کرکٹ میں ریاضت کو تین گھنٹے کی سخت تربیت کرنی پڑتی تھی جبکہ ان کے مطابق وہ اس سے کہیں زیادہ کرتے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ٹیپ بال سے کرکٹ کا آغاز کرنے کی وجہ سے میں بیٹنگ آل راونڈر بن گیا تھا جو سلسلہ وقت بھی جاری ہے۔‘

یوگینڈا ٹیم کی جانب سے ریاضت چوتھے نمبر پر بیٹنگ کرتے ہیں اور انھیں نئی گیند سے بولنگ کا موقع بھی ملتا ہے اور وہ ایک میڈیم پیسر ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب ہارڈ بال کے ساتھ آغاز کیا تو کلب کرکٹ سے میری شہرت میں اضافہ ہونے لگا۔ جس کے بعد مجھے گلگت بلتستان کی انڈر 19 ٹیم میں منتخب کیا گیا، میں نے اس میں بھی اچھی کارگردگی دکھائی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’اس کے بعد مجھے اسلام آباد انڈر 19 کھیلنے کا موقع ملا تھا۔ میں نے میچوں میں اچھی کارکردگی دکھائی۔ مگر یہاں پر مجھے مواقع نہیں ملے۔‘

’مایوس ہو کر یوگینڈا کا رخ کیا‘

ریاضت علی شاہ کہتے ہیں کہ وہ اسلام آباد کی ٹیم میں دو سال تک رہے لیکن اس دوران انھیں دو سالوں میں صرف تین میچز کھیلنے کا موقع ملا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے لگتا تھا کہ مجھے اپنی کارگردگی دکھانے کا موقع نہیں مل رہا۔ یہ مایوسی کا وقت ہوتا تھا حالانکہ میری کارگردگی جو بھی میچ ملے تھے ان میں اچھی ہوتی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس دوران وہ کرکٹ کھیلنے دبئی گئے اور وہاں پر انھیں غلام ہنزہ نامی شخص ملے جو یوگینڈا میں رہتے تھے۔

انھوں نے ریاضت کو دعوت دی کہ وہ یوگینڈا میں کلب کی جانب سے کھیلیں اور یہاں انھیں زیادہ مواقع مل سکتے ہیں۔

اس آفر پر پہلے تو ریاضت کو ان کے والدین نے اجازت نہیں دی لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ مجھے پاکستان میں مواقع نہیں مل رہے اور یوگینڈا میں اپنی صلاحیتیں منوانے کا اچھا موقع ہے تو انھوں نے اجازت دے دی۔‘

ریاضت علی شاہ کہتے ہیں کہ ’میں جب یوگنڈا گیا تو انھوں نے مجھے کہا کہ کلب کرکٹ میں اگر میری کارگردگی اچھی ہو گئی تو پہلے مجھے یوگینڈا کی قومی ٹیم کے ساتھ پریکٹس اور تربیت کا موقع ملے گا اور اس میں بھی کارگردگی اچھی ہوئی تو مجھے قومی ٹیم میں شامل کر لیا جائے گا۔‘

ریاضت نے کلب کرکٹ میں اچھی کارگردگی کا مظاہرہ کیا اور اس کے بعد انھیں قومی ٹیم کے ساتھ پریکٹس اور تربیت کا موقع ملا۔

انھیں کینیا کے قومی سٹار سٹیو ٹکولو کی کوچنگ میسر ہوئی جس نے ان کی تکنیک کو بہتر کیا اور اس کا انھیں بیٹنگ میں بہت فائدہ ہوا۔

ریاضت علی شاہ کا کہنا تھا کہ کوالیفائنگ راؤنڈ میں انھوں نے چھ میچز کھیلے جس میں چار اننگز میں بیٹنگ کے دوران ایک مرتبہ ناٹ آوٹ رہے۔ مجموعی طور پر 44 کی اوسط132رنز بنائے۔

انھو ںے چھ اننگز میں بو لنگ کی جس میں مجموعی طور پر اٹھارہ اوور کروائے 94 رنز دیے، سات وکٹ حاصل کیں۔ ان کا اکانمی ریٹ 5.22 جبکہ بہترین بولنگ چودہ رنز دے کر دو وکٹیں حاصل کرنا رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ بیٹنگ اور بولنگ میں ہمیشہ اہم مواقع پر ٹیم کے لیے اہم کردار ادا کرنے کا موقع ملا ہے۔

’پاکستان کے ساتھ کھیل کر مزہ آئے گا‘

ریاضت علی شاہ کہتے ہیں کہ اب ان کا مستقبل یوگینڈا کی کرکٹ ٹیم ہی کے ساتھ منسلک ہے۔ یوگینڈا میں کرکٹ مقبول ہو رہی ہے اور اب اس کامیابی کے بعد تو مزید مقبولیت ملے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ورلڈ کپ کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ محنت کا آغاز کر رہے ہیں۔ ہم کسی بھی ٹیم کے لیے آسان ہدف نہیں ہوں گے۔ ہماری ٹیم میں بہت ٹیلنٹ ہے۔‘

ریاضت علی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر ان کا پاکستان کے ساتھ میچ ہوا تو بہت مزہ آئے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان بڑی ٹیم ہے اور یہ الگ بات ہے کہ مجھے موقع نہیں ملا اگر موقع ملتا تو میرا بھی وہ ہی معیار ہوتا جو دنیا کے بڑے آلراونڈرز کا ہے۔

’مگر جب ہم پاکستان سمیت بڑی ٹیموں کے خلاف کھیلیں گے تو اس سے ہمیں سیکھنے کا موقع ملے گا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.