مولا جٹ کی طرح گنڈاسا اٹھانے والے ’ارجن ویلی‘ جن کا ذکر رنبیر کی نئی فلم ’اینیمل‘ میں ہوا

’ارجن ویلی نے پیر جوڑ کے گنڈاسی ماری۔۔۔‘ جب بھی لوک داستان کے یہ الفاظ ڈھول کی تھاپ پر گونجتے ہیں تو پنجابیوں کی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں۔

’ارجن ویلی نے پیر جوڑ کے گنڈاسی ماری۔۔۔‘ جب بھی لوک داستان کے یہ الفاظ ڈھول کی تھاپ پر گونجتے ہیں تو پنجابیوں کی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں۔

رنبیر کپور کی فلم ’اینیمل‘ کے اس گانے نے ایک بار پھر پنجاب سے تعلق رکھنے والے ارجن ویلی کی یاد تازہ کر دی ہے۔

اب یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ گلوکار بھوپندر ببل کے اس گانے میں ارجن ویلی آخر ہیں کون؟

اس سے پہلے بھی ارجن ویلی کا ذکر 1982 کی پنجابی فلم ’پُت جٹاں دے‘ کے ایک گانے میں آیا تھا۔

بی بی سی نے ارجن ویلی کے بارے میں حقائق جاننے کی کوشش کی ہے۔

بھائی کے قتل پر ارجن ویلی کی بغاوت

پہلا دعویٰ یہ ہے کہ ارجن ویلی کا تعلق ضلع موگا کے گاؤں دودھر سے تھا۔ ارجن ویلی اپنے بڑے بھائی بچن سنگھ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے باغی ہوگئے تھے۔

دودھر کے سابق سرپنچ جگراج سنگھ دودھر کے مطابق ارجن ولی اپنے ساتھی روپ سنگھ کے ہمراہ ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت کے دوران ایک مبینہ پولیس مقابلے میں مارے گئے تھے۔

گاؤں کے بزرگوں نے بتایا کہ ارجن ویلی کا تعلق سدھو خاندان کے شوبھا سنگھ اور چندا سنگھ کی نسل سے تھا۔ ان کی یاد میں ایک مقبرہ بھی تعمیر کیا گیا۔

گاؤں کے 82 سالہ نمبردار جے سنگھ کو وہ دن یاد ہیں جب ان کے والد اور دادا گھر میں ارجن ویلی کا ذکر کیا کرتے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ گاؤں میں ایک بارات آئی تھی جب ارجن کے گھر والوں کا گاؤں کے لوگوں سے کسی بات پر جھگڑا ہو رہا تھا۔ ’شادی میں لڑائی ہو گئی اور ارجن ویلی کے بڑے بھائی بچن سنگھ کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔‘

’اس واقعے کے بعد ہی ارجن ویلی نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ وہ بہت بہادر آدمی تھا۔‘

گاؤں کے لوگوں نے بتایا کہ جب ارجن ویلی گھر سے بھاگ گئے تو اسی دوران گاؤں میں پولیس سٹیشن قائم کیا گیا۔

سابق سرپنچ جگراج سنگھ دودھر کہتے ہیں کہ ’ارجن ویلی ان کے خاندان سے تھے۔ جب بارات کی لڑائی ہوئی تو ارجن ویلی کے دھڑے کی گنڈوں اور ڈانگوں سے لڑائی ہوئی۔ بابا ارجن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے پاؤں زمین پر رکھتے تھے اور گنڈاسے سے لڑتے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہیں سے لوک داستان بنی کہ ارجن ویلی نے پیر جوڑ کے گنڈاسی ماری۔ ہمارے بابا ارجن جسمانی طور پر بہت مضبوط تھے اور ذہنی طور پر بھی بہت تیز۔‘

گاؤں والوں کو ارجن ویلی پر فخر

ارجن ویلی کے خاندان کے علاوہ گاؤں کے عام لوگ بھی فلم ’اینیمل‘ میں ارجن ویلی کے نام کو دیکھ کر خوش ہیں۔

بلوندر سنگھ کا کہنا ہے کہ ارجن ان کے چچا جیسے لگتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم فلم میں اپنے چچا کا نام سن کر بہت خوش ہیں۔ لوگ ان کی زندگی کے بارے میں جاننے کے لیے ہمارے گھر آ رہے ہیں۔‘

’میرے والد نے مجھے بتایا کہ انگریزوں کے دور میں ان کا گھر دو بار گرایا گیا تھا۔ ہاں، ارجن ویلی کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ انھوں نے علاقے کی بیٹیوں اور بہنوں کی عزت کی حفاظت کی۔‘

ارجن غریب لوگوں کی بیٹیوں کی شادیوں میں پیسوں سے مدد کرنے کے لیے بھی مشہور ہوئے۔

بلوندر سنگھ کے مطابق برطانوی حکومت ان دنوں ڈاکوؤں اور ویلیوں کو مارنے میں مصروف تھی۔

بزرگوں کا کہنا تھا کہ اس زمانے میں ویلی برداری کی معاشرے میں بہت عزت تھی کیونکہ وہ امیروں کو لوٹتے تھے لیکن پیسے غریبوں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کرتے تھے۔

بلوندر
BBC
بلوندر سنگھ ارجن ویلی کو اپنا انکل کہتے ہیں

مبینہ انکاؤنٹر

گاؤں کے نوجوان گرپریت سنگھ نے بھی خود کو ارجن ویلی کے خاندان سے بتایا۔ انھوں نے کہا کہ برطانوی پولیس نے اپنے مخبر کو ارجن ویلی کو مارنے کے لیے متحرک کر دیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پھر ایک سازش رچائی گئی۔ ارجن ویلی اور ان کا ساتھی روپ سنگھ دالا گاؤں کے قریب ایک جھونپڑی میں رات کے لیے رکے۔‘

’مخبر کسی طرح ان دونوں کو زہر دینے میں کامیاب ہو گیا۔ اپنی موت دیکھ کر دونوں نے ایک دوسرے کو گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔‘

جگراج سنگھ داؤدھر کہتے ہیں کہ ’جب یہ اطلاع پولیس تک پہنچی تو پولیس نے گولیاں چلا کر یہ ظاہر کیا کہ ارجن ویلی اور ان کے ساتھی کا پولیس مقابلہ ہوا ہے۔‘

’اس کے بعد آس پاس کے دیہاتوں میں لوگوں کو مارا پیٹا گیا اور اکٹھا کیا گیا۔ ارجن ویلی کی لاش پر بھنگڑے ڈالے گئے۔ پولیس نے یہ کام برطانوی حکومت کی طرف سے ارجن ویلی کے سر پر رکھا ہوا انعام حاصل کرنے کے لیے کیا۔‘

’لیکن پولیس کی یہ چال کامیاب نہ ہوئی کیونکہ جب فیروز پور میں پوسٹ مارٹم رپورٹ آئی تو یہ واضح ہوا کہ ارجن ولی کی موت زہر کھانے سے ہوئی۔‘

وہ نوجوان جو ارجن ویلی کے بارے میں نہیں جانتے تھے وہ بھی فلم میں ارجن ویلی کا نام دیکھ کر خوش ہیں۔

گاؤں کے نوجوان بوٹا سنگھ مکینیکل انجینیئر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ خوشی کی بات ہے کہ ارجن ویلی کی وجہ سے ان کا گاؤں آج زیرِ بحث ہے۔

ارجن ویلی
BBC
گاؤں والوں کو فخر ہے کہ ارجن ویلی کا تعلق یہاں سے ہے

’ارجن ویلی نے مسلمانوں کی مدد کی تھی‘

اینیمل میں ارجن ویلی کے ذکر کے بعد ضلع لدھیانہ کے گاؤں روڑکا کے ایک خاندان نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ارجن ویلی ان کے پردادا ہیں۔

بی بی سی نے کینیڈا میں رہنے والے جوگندرپال سنگھ ورک سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ روڑکا میں پیدا ہونے والے ارجن ویلی کے پڑپوتے ہیں۔ جوگندرپال سنگھ ورک نے بتایا کہ ان کا کزن پریت پال سنگھ ورک روڑکا میں رہتا ہے۔

ورک کے مطابق ارجن ویلی ساڑھے چھ فٹ لمبے نوجوان تھے اور وہ کسی کی عزت نہیں کرتے تھے۔

جوگندرپال سنگھ ورک نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں بتایا ہے کہ ارجن ویلی کو ہاتھ میں گنڈاسا رکھنے کا شوق تھا۔

’انھوں نے ایک پولیس والے کا بازو توڑ دیا تھا۔ ان عادتوں کی وجہ سے لوگ انھیں ویلی کہنے لگے اور وہ ارجن سے ارجن ویلی بن گیا لیکن ان کا کبھی کسی بڑے شخص سے پالا نہیں پڑا تھا۔‘

روڑکا کے ارجن ویلی کے مبینہ ورثا نے بتایا کہ ارجن ویلی نے 1947 میں تقسیمِ ہند کے دوران کئی مسلمانوں کی مدد کی تھی اور بعض کو وہ مالیر کوٹلہ چھوڑ کر آئے تھے۔

ورک نے کہا کہ ’ان میں سے ایک ان کا مسلمان دوست رلا تیلی تھا جنھیں وہ باحفاظت مالیرکوٹلہ لایا، ان کا سونا، چاندی اور زیورات بطور امانت اس کے پاس محفوظ رکھے گئے جو بعد میں ان کے بیٹے سردار خان نے لوٹائے۔‘

اس خاندان کا دعویٰ ہے کہ ارجن ویلی بعد میں ’امرت دھاری‘ یعنی کٹر سکھ بن گئے اور انھوں نے ’پنجابی سبھا مورچے‘ کے دوران فیروز پور میں جیل بھی کاٹی۔

جوگندرپال سنگھ ورک کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت نے ارجن کو ان کی خدمات پر تمر پترا اعزاز سے بھی نوازا تھا۔

ان کے مطابق ارجن نے 1968 میں پٹیالہ کے راجندر ہسپتال میں آخری سانسیں لیں جہاں پِتے کی پتھری کے آپریشن کے بعد ان کا علاج کیا جا رہا تھا۔

تاہم کسی بھی کتاب یا تحریر میں کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ملا کہ جو ارجن ویلی سے جڑے ان دعوؤں کی تصدیق کر سکے۔

ارجن کا تذکرہ نسل در نسل تقریروں اور گانوں کے ذریعے منتقل ہو رہا ہے۔

گلوکار بھوپندر ببل نے میڈیا سے بات چیت کے دوران کہا کہ ’ارجن ویلی کوئی ایک شخص نہیں تھا۔ درحقیقت یہ پنجاب کے دیہاتوں کے کردار ہیں جو کسی بھی ظلم کے خلاف ڈٹ جاتے تھے۔ یہ کردار دیہی جنگوں میں بھی استعمال ہوتے تھے۔ تو یہ بہت سے ہو سکتے ہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.