بالی وڈ کے معروف گیت 'کانٹا لگا' کی ری مکس سے مشہور ہونے والی ماڈل اور اداکارہ شیفالی جری والا کی محض 42 سال کی عمر میں اچانک موت کی وجہ تاحال معلوم نہیں ہو سکی ہے لیکن ان کے بار ے میں بہت سی باتیں کی جا رہی ہیں۔
سنہ 2002 میں بالی وڈ کے معروف گیت ’کانٹا لگا‘ کے ری مکس سے معروف ہونے والی ماڈل اور اداکارہ شیفالی زریوالا کی محض 42 سال کی عمر میں اچانک موت کی وجہ تاحال معلوم نہیں ہو سکی ہے تاہم اس کے بار ے میں بہت سی باتیں کی جا رہی ہیں۔
اُن کی موت کی تحقیقات کرنے والے کچھ پولیس افسران نے کہا ہے کہ شیفالی بہت سی دوائیں لے رہی تھیں جس میں اینٹی ایجنگ گولیاں (بڑھتی عمر کے اثرات کو کم کرنے والی ادویات) بھی شامل تھیں اور غالباً یہ دوائیں خالی پیٹ لینے کی وجہ سے ان کا بلڈ پریشر اچانک گِر گیا۔
انڈین خبر رساں ادارے ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ نے ایک پولیس افسر کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ 27 جون کی دوپہر کو شیفالی نے ایک اینٹی ایجنگ انجکشن لگوایا تھا۔
پولیس افسر نے ابتدائی تفتیش کے حوالے سے پی ٹی آئی کو بتایا کہ اِس کے بعد ’اُن کا بلڈ پریشر تیزی سے کم ہوا اور وہ کانپنے لگیں جس کے بعد اہلخانہ انھیں ہسپتال لے گئے۔‘
شیفالی کو 27 جون کو ’اندھیری‘ کے بیلیوو ملٹی سپیشلٹی ہسپتال لے جایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے انھیں مردہ قرار دیا۔ پولیس کو دیر رات ایک بجے ان کی موت کی اطلاع دی گئی اور اس کے بعد ان کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے ممبئی کے ہسپتال بھیج دیا گیا۔
پولیس کے مطابق: ’پولیس نے اب تک ان کی موت کے متعلق 10 لوگوں کے بیانات قلمبند کیے ہیں، جن میں شیفالی کے شوہر اور والدین کے ساتھ ساتھ گھر میں کام کرنے والے ملازمین بھی شامل ہیں۔ وہ سب اُس وقت گھر پر تھے۔ تاہم اب تک کچھ بھی مشتبہ نہیں ملا ہے۔ تحقیقات کے سلسلے میں پولیس کی ایک ٹیم فرانزک ماہرین کے ساتھ اُن کے گھر گئی اور بہت سی چیزوں کے نمونے اکٹھے کیے۔ اس میں شیفالی کی دوائیاں اور انجیکشن بھی شامل ہیں۔‘
اگرچہ شیفالی کی موت کا تعین ہونا ابھی باقی ہے مگر اسی کے بیچ انڈیا اور پاکستان میں یہ بحث تیز ہو گئی ہے کہ اینٹی ایجنگ ٹریٹمنٹ سے کون سے خطرات وابستہ ہو سکتے ہیں۔
معروف اداکاراؤں نے کیا کہا؟
شیفالی کی موت کے بعد شوبز انڈسٹری سے منسلک بہت سی اداکاراؤں نے صحت مند طرز زندگی کی اہمیت پر زور دیا ہےشیفالی کی موت کے بعد اداکارہ ملیکا شیراوت نے انسٹاگرام پر ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے اپنے مداحوں کو ’صحت مند طرز زندگی‘ اپنانے کا مشورہ دیا۔
انھوں نے کہا: ’میں نے کوئی فلٹر استعمال نہیں کیا، کوئی میک اپ نہیں کیا۔ میں نے اپنے بال بھی نہیں سنوارے۔ میں یہ ویڈیو آپ سب کے ساتھ شیئر کر رہی ہوں تاکہ ہم سب مل کر بوٹوکس، مصنوعی کاسمیٹک فلرز کو ناں اور ایک صحت مند طرز زندگی کو ہاں کہہ سکیں۔‘
دوسری جانب ایک انٹرویو میں اداکارہ کرینہ کپور نے کہا کہ ’میں بوٹوکس کے خلاف ہوں۔‘
تاہم وہ صرف اداکاراؤں کے لیے بڑھتی عمر کے ساتھ بڑھتے ہوئے چیلنجز پر بات کر رہی تھیں اور ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ بھی جھریوں اور بڑھاپے سے ڈرتی ہیں؟
اس کے جواب میں کرینہ نے کہا کہ ’میں بوٹوکس کے خلاف ہوں، مگر میں اپنی صحت کی حفاظت کے حق میں ہوں، جس کا مطلب ہے صحت مند رہنا، اچھا محسوس کرنا اور قدرتی علاج۔۔۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ چھٹیاں منائیں، فیملی اور دوستوں کے ساتھ وقت گزاریں، سیٹ پر آپ جو کچھ کرتے ہیں اس سے مختلف کریں نہ کہ انجیکشنوں اور سرجریوں میں الجھیں۔‘
تاہم ان دونوں اداکاراؤں نے اپنے بیان میں شیفالی کا ذکر نہیں کیا تاہم اُن کی موت کے بعد ان دونوں اداکاراؤں کے بیانات کو ان کی موت سے جوڑا جا رہا ہے۔
اینٹی ایجنگ ٹریٹمنٹ کیا ہے؟
چہرے سے بڑھتی عمر کے آثار کو کم کرنے اور نوجوان نظر آنے کے لیے اینٹی ایجنگ علاج کافی عرصے سے مقبول ہےجیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے چہرے پر ناصرف جُھریاں نمودار ہونے لگتی ہیں بلکہ چہرے کی جلد بھی آہستہ آہستہ ڈھلکنے لگتی ہے۔ لیکن بڑھتی عمر کے ان اثرات کو کم کرنے کے لیے آج کل کاسمیٹک سرجری، انجیکٹیبل فلرز، بوٹوکس وغیرہ کا رجحان بڑھ گیا ہے۔
اینٹی ایجنگ ٹریٹمنٹ کچھ ادویات یا دواؤں اور مرکبات کے امتزاج سے کیا جاتا ہے جو بڑھاپے کے اثرات کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
ان میں سب سے زیادہ مقبول بوٹوکس ہے جو کہ ایک طاقتور انجکشن ہے جو ہمارے پٹھوں کے بہت چھوٹے حصے کو ریلیکس کرتا ہے۔ بوٹوکس کا استعمال پیشانی کی لکیروں یا آنکھوں کے گرد حلقوں، ناک کے گرد جھریوں کو کم کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔
انڈیا میں فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے 20 سال سے زیادہ عرصہ پہلے ہی کاسمیٹک طریقہ کار میں اس کے استعمال کی منظوری دی تھی۔
دی ایستھیٹک کلینک کے سینیئر کاسمیٹک سرجن ڈاکٹر دیبراج شوم نے ایک ہندی نیوز ویب سائٹ ’دی للن ٹاپ‘ کو بتایا کہ ڈرمل فلرز ایسے انجیکشن ہیں جو جلد کے اندر لگائے جاتے ہیں۔ یہ اسی مادے سے بنتے ہیں جس سے ہماری جلد کے خُلیات بنتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ عمر کے ساتھ جلد میں کولیجن کم ہونے لگتا ہے لیکن فلرز کی مدد سے کولیجن واپس آ جاتا ہے اور چہرہ جوان نظر آنے لگتا ہے۔
بہت سے لوگ اینٹی ایجنگ کے لیے گلوٹاتھیون انجیکشن بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہ ایک اینٹی آکسیڈنٹ ہے جو ہمارے جسم کے خلیوں کو عمر کے ساتھ پہنچنے والے نقصان کو روکنے میں مدد کرتا ہے۔ گلوٹاتھیون اکثر نسوں کے انجیکشن اور گولیوں کے ذریعے لیا جاتا ہے۔
ڈرمیٹالوجی کی سینیئر کنسلٹنٹ ڈاکٹر انجو جھا کا کہنا ہے کہ ’گلوٹاتھیون ہمارے جسم میں پہلے سے موجود ہے، لیکن عمر کے ساتھ جسم گلوٹاتھیون کی پیداوار کو کم کرتا ہے، اس لیے اسے بیرونی ذرائع سے لیا جاتا ہے۔ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ گلوٹاتھیون لینے والوں کی جلد کی رنگت کچھ بہتر ہوتی ہے۔ لیکن اگر نس کے ذریعے اسے لیا جائے تو اس کے نتائج اور بھی بہتر ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے ضمنی اثارت بھی ہیں اور اسے ایف ڈی اے سے منظوری بھی حاصل نہیں ہے۔‘
یہ علاج کتنا محفوظ ہے؟
ماہرین کی نگرانی میں اس علاج کا مشورہ دیا جاتا ہےکیا یہ فلرز یا گلوٹاتھیون انجیکشن اتنے خطرناک ہو سکتے ہیں کہ کسی کی جان لے سکتے ہیں؟
’انڈین ایکسپریس‘ سے بات کرتے ہوئے دہلی کے سر گنگا رام ہسپتال میں جلد کے امراض کے شعبے کے چیئرمین ڈاکٹر رشی پراشر کہتے ہیں کہ ’کچھ مستثنیات کو چھوڑ کر، ایسے انجیکشن اب تک محفوظ ثابت ہوئے ہیں۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھیں رجسٹرڈ ڈرمیٹولوجسٹ کی تشخیص اور نگرانی میں لیا جانا چاہیے۔‘
اس کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بوٹوکس کے خطرات پر بحث اپریل 2024 میں اس وقت تیز ہوئی جب یو ایس سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن (سی ڈی سی) نے ایک وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا کہ 25 سے 59 سال کی عمر کی 22 خواتین میں بوٹوکس کے نقصان دہ رد عمل دیکھے گئے جن میں سے 11 کو ہسپتال میں داخل کرانا پڑا اور چھ افراد میں یہ دیکھا گیا کہ بوٹوکس کے لیے دیے گئے ٹاکسنز پھیل کر ان کے نروس سسٹم تک پہنچ گئے۔ یہ ایسی حالت ہے جو موت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
اس پر ڈاکٹر پراشر نے کہا کہ بعدازاں یہ ثابت ہوا کہ ان تمام خواتین نے بغیر لائسنس یا غیر تربیت یافتہ لوگوں سے انجکشن ایسے مقامات پر لگوائے جہاں صحت کے مراکز تک نہیں تھے۔
ان ادویات کے خطرات پر ڈاکٹر انجو جھا کہتی ہیں کہ ’ایف ڈی اے نے گلوٹاتھیون کو اس لیے منظور نہیں کیا کیونکہ اس کے کچھ مضر اثرات دیکھے گئے ہیں۔ کچھ مریض اس کی وجہ سے انفیلیکشن کا شکار ہو سکتے ہیں۔ انجیکشن لگانے والی دوائیں سٹیون جانسن جیسی بیماریاں پیدا کر سکتی ہیں۔ یہ ایسی حالتیں ہیں جو دواؤں کے ردعمل سے پیدا ہوتی ہیں، جن میں موت کا خدشہ تو ہے لیکن یہ شاذو نادر کے زمرے میں آتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ جو لوگ جلد کو چمکدار بنانے یا جلد کو صاف ستھرا بنانے کے لیے ان ادویات کا استعمال کرتے ہیں، ان پر اس کا اثر تب ہی پڑتا ہے جب تک وہ اسے لے رہے ہوں۔ اس کا اثر ہمیشہ نہیں رہتا۔
ڈاکٹر انجو کہتی ہیں: ’یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ آپ کتنی دوائیاں لے رہے ہیں، آپ کو اسے لینا چاہیے یا نہیں۔ کیا آپ کو کوئی موجودہ مسئلہ ہے جو ان دوائیوں سے بڑھ سکتا ہے؟ اس سب کے لیے کسی اچھے ماہر امراضِ جلد کے مشورے کی ضرورت ہے۔‘
تاہم وہ کہتی ہیں کہ ایسے شواہد فی الحال نہیں ہیں کہ ’یہ (دوائیاں) ہارٹ اٹیک (دل کے دورے) کا باعث نہیں بن سکتیں۔ لیکن بعض اوقات زیادہ خوراک لینے سے جگر اور گردے متاثر ہو سکتے ہیں، اور اس طرح کے دیگر بالواسطہ اثرات ہوتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ یہ علاج کسی ماہر ڈاکٹر کی نگرانی میں کروایا جائے جو یہ جانتا ہو کہ کس پٹھے میں انجیکشن لگانا ہے اور کتنی مقدار میں۔ یہ خود نہ کریں، پارلر میں نہ کروائیں، اور کسی ایسے ڈاکٹر سے بھی نہ کروائيں جو اس طریقہ علاج کا ماہر نہ ہو۔‘