چینی لڑکی ’فاطمہ فینگ‘ کا کردار نبھانے والی ہورا بتول: ’لوگوں نے کہا تم اتنی صاف اردو کیسے بول لیتی ہو‘

بظاہر اپنے منفرد فیچرز کی وجہ سے ایک چینی لڑکی کا کردار نبھانے والی اداکارہ ہورا پُراعتماد ہیں کہ انڈسٹری میں اُنھیں ٹائپ کاسٹ نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ خود کو مختلف کرداروں میں ڈھالنے کا ہنر جانتی ہیں۔
ہورا بتول
BBC

پاکستانی اداکارہ ہورا بتول نے حال ہی میں ایک ڈرامہ سیریل ’فاطمہ فینگ‘ میں ایک چینی لڑکی کا کردار نبھایا ہے۔ ہورا نے بی بی سی اردو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ اُن کا تعلق بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے ہے اور وہ ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔

’میں پیدا ہی پاکستان میں ہوئی ہوں اور شروع سے ہی یہیں رہی ہوں۔ میرے ابا پاکستانی تھے اور مما ایرانی تھیں۔ میری سکولنگ پاکستان میں ہوئی ہے تو شروع سے اردو اور انگلش پر عبور تھا لیکن میری مادری زبان فارسی ہے۔‘

واضح رہے کہ اکتوبر میں ’فاطمہ فینگ‘ کے نشر ہوتے ہی ناظرین میں ہورا کی زندگی کے بارے میں تجسّس پایا جانے لگا کہ وہ کب پاکستان آئیں، کب اسلام قبول کیا اور وہ اتنی اچھی اردو کیسے بول لیتی ہیں۔

اس عمومی غلط فہمی کی بنیادی وجہ اُن کے نقوش اور ڈرامے میں ایک چینی لڑکی کا کردار بنا جو پاکستان اور اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہوتا ہے لیکن بعد میں اسلام قبول کر لیتا ہے۔

اس ڈرامے میں اداکارہ ہورا بتول کے ساتھ انڈسٹری کے مقبول فنکاروں نے کام کیا جن میں بابر علی، اسامہ خان، فرحان علی آغا، تارہ محمود، منزہ عارف اور مہربانو وغیرہ شامل تھے۔

ہورا نے بتایا کہ ڈرامے میں فاطمہ کے والد مسٹر فینگ کا کردار ایک چینی اداکار جیفری نے کیا، جن کے اردو بولنے کا انداز اُنھیں بہت پسند ہے۔

’چینی لوگ بہت تیزی سے چیزیں سیکھ لیتے ہیں‘

ہورا اگر پاکستانی ہیں تو انھوں نے ایک چینی لڑکی کے کردار کو اتنی بخوبی کیسے نبھایا اور اس سلسلے میں انھوں نے کس سے مدد لی۔ جواب میں انھوں نے بتایا کہ ’میرے شروع سے کافی چینی دوست ہیں اور ابھی بھی ہیں، چونکہ میں نے اُن کے ساتھ کافی وقت گزارا ہوا ہے اور مجھے پتا ہے کہ اُن کا اٹھنا بیٹھنا کس طرح ہے۔‘

انھوں نے مزید بتایاکہ اِس کردار سے اُن کی کچھ کچھ شناسائی تھی۔ ’میرے ہاتھ میں جب سکرپٹ آیا اور چینل کے ساتھ بات ہوئی تو یہی پتا چلا تھا کہ جیا نامی لڑکی بچپن میں پاکستان آئی تھی اور ہورا کے جو دوست ہیں وہ بھی بچپن سے یہاں پاکستان آئے ہوئے ہیں۔‘

واضح رہے کہ ڈرامے کے آغاز میں ہورا کے کردار کا نام جیا ہے جبکہ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ اپنے لیے فاطمہ نام چنتی ہیں۔

ہورا نے اپنے تجربے سے بتایا کہ چینیوں کے مزاج میں تجسّس ہوتا ہے اور وہ لوگ بہت تیزی سے چیزیں سیکھ لیتے ہیں اور ان ہی چیزوں کو انھوں نے اپنے کردار میں دِکھانے کی کوشش بھی کی۔

’کچھ لوگوں کے کمنٹس میں نے پڑھے کہ یہ لڑکی (فاطمہ نامی کردار) اتنی صاف اردو کیسے بول سکتی ہے۔ میں نے یہی دیکھا ہے کہ چینی لوگ تیز ہوتے ہیں۔ میرے جو چینی دوست ہیں جو یہاں پر رہ رہے ہیں وہ اتنی واضح اردو بولتے ہیں کہ آپ حیران ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یار اتنا واضح تو میں نہیں بول پا رہی ہوں جبکہ میں اِدھر پیدا ہوئی ہوں۔‘

ہورا کے بقول ’میں نے اپنے کردار میں بھی وہی چیزیں رکھی ہیں کہ زبردستی اپنا لہجہ مختلف نہیں کرنا اور نارمل بات کرنی ہے تاکہ ایک تعلق بھی رہے۔‘

’پاکستانی لوگوں کو ڈراموں میں بہت زیادہ ڈرامہ پسند ہے‘

ڈرامہ سیریل ’فاطمہ فینگ‘ کی کہانی کا آغاز مسٹر فینگ کی پاکستان میں دہشت گردی کے ایک واقعے میں ہلاکت سے ہوتا ہے، جس کی وجہ سے جیا پاکستانیوں اور مسلمانوں کو منفی انداز میں دیکھتی ہیں اور واپس چین جانے کا فیصلہ کرتی ہیں۔

البتہ اگلی کچھ اقساط میں جیا پر آشکار ہوتا ہے کہ اُن کے والد نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ پھر وہ بھی دینِ اسلام پر کافی تحقیق اور بحث و مباحثے کے بعد اسلام قبول کرتی ہیں۔

یہاں تک تو یہ ایک دلچسپ کہانی تھی لیکن اُس کے بعد ’فاطمہ فینگ‘ جیسا منفرد ڈرامہ بھی فارمولا ڈرامے میں تبدیل ہوگیا جہاں چند کردار انتہائی مثبت اور چند منفی کردار نظرآئے اور یوں یہ ڈرامہ اپنی انفرادیت کھو گیا۔

ہورا بتول نے بھی اس بات کو تسلیم کیا لیکن انھوں نے اس بات کی منطق اور وضاحت اپنے انداز میں دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر میں اسےفروخت کے نقطہ نظر سے بتاؤں تو ہمارے پاکستانی لوگوں کو ڈراموں میں بہت زیادہ ڈرامہ پسند ہے۔ ہمارے ڈراموں میں سب سے زیادہ ڈرامہ کدھر ہوتا ہے؟ فیملیز میں! تو ایک مطابقت بھی رکھی ہے شاید سکرپٹ رائٹر نے کہ گھروں میں یہ چیز ہوتی ہے تو چلو یہ پہلو بھی لے آئیں۔‘

ہورا بتول
BBC

’آپ نے اپنی بیٹی کو اس انڈسٹری میں کیوں بھیجا‘

بظاہر اپنے منفرد فیچرز کی وجہ سے ایک چینی لڑکی کا کردار نبھانے والی اداکارہ ہورا پُراعتماد ہیں کہ انڈسٹری میں اُنھیں ٹائپ کاسٹ نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ خود کو مختلف کرداروں میں ڈھالنے کا ہنر جانتی ہیں۔

’میں نے اس سے پہلے بھی جتنے کردار کیے اُن میں سے کوئی بھی فاطمہ فینگ نہیں لگتا۔ اُن میں میرا لہجہ مختلف ہے، میری چال ڈھال اور بات چیت کا انداز مختلف ہے۔ اگر میں ایک ہی چیز کرتی رہوں گی تو میں ٹائپ کاسٹ ہو جاؤں گی اور لوگ کہیں گے کہ یہ یہی کرتی ہے اس کی یہی کرنے دو۔‘

اس بارے میں اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نہیں سمجھتی کہ میرے جیسے فیچرز ہماری انڈسٹری میں موجود ہیں۔ جب آپ خود مختلف ہوں تو آپ مختلف چیزیں بھی کرسکتے ہو۔‘

ہورا کا تعلق پاکستان کی ایک پسماندہ کمیونٹی ہزارہ سے ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ شروع میں اُن کی والدہ کو سننے کو ملتا تھا کہ ’کیوں آپ نے اپنی بیٹی کو انڈسٹری میں بھیجا، آپ کو پتا تو ہے کس طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ میری ماما ہروقت جائے نماز پر ہوتی ہیں کہ دعا کرو اس کے لیے یہ کامیاب ہوجائے۔‘

ہورا نے مزید بتایا کہ ’ابتدا میں وہ (والدہ) تنگ ہوتی تھیں کہ فلاں نے مجھے یہ کہہ دیا تو تم دیکھ لو بیٹا۔ تو میں کہتی تھی کہ مجھ پر یقین کریں۔ تھوڑا صبر کریں۔ اب میری ماں کہتی ہیں کہ اب کوئی آکے مجھے کچھ بول کے تو دِکھائے کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ کچھ غلط نہیں کررہی میں۔‘

’میں صرف والدین کو یہی بولنا چاہتی ہوں کہ اپنی اولاد پر یقین کریں۔ میرے والدین نے مجھے یہی دیا اور ہر موقع پر سپورٹ کیا۔‘

نیشنل کالج آف آرٹس لاہور سے فائن آرٹس کی ڈگری لینے والی ہورا بتول ایک تھیٹر آرٹسٹ ہیں جو چار سال نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں جبکہ دو سال کمرشل تھیٹر بھی کرچکی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’دوسال کمرشل تھیٹر کیا۔ پھر اُس کے بعد کورونا آیا اور عوامی جگہیں بند ہو گئیں اور اس طرح کی تمام تھیٹر کی سرگرمیاں بند ہو گئیں تو میں نے سکرین ایکٹنگ شروع کی۔ میں نے یہی سوچا کہ اگر تھیٹر سے کما نہیں پارہی تو یہ ہی چیز میں کیمرے پر لے جاؤں۔‘

’فاطمہ فینگ‘ ہورا بتول کا پہلا ڈرامہ سیریل تھا البتہ وہ کچھ شارٹ فلمیں اور دو فیچر فلمیں بھی کر چکی ہیں۔

ان کی فیچر فلموں میں سے ایک فلم ’چھکڑ‘ ہے جس میں اداکار عثمان مختار اور عشنا شاہ نے مرکزی کردار نبھائے ہیں اور اسے 22 دسمبر سے سنیما گھروں میں پیش کیا جائے گا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.