کیا پاکستان میں پولنگ کے روز موبائل سروس کی بندش کا نشانہ تحریک انصاف ہے؟

یہ یقین دہانیاں دیگر ووٹرز کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں اور ووٹرز کے لیے زیادہ تسلی کا باعث بنیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں تحریک انصاف نے عام انتخابات 2024 کے لیے اپنی انتخابی مہم چلانے کے لیے ڈیجیٹل ذرائع پر زیادہ اکتفا کیا تھا اور پولنگ کے روز بھی اپنے ووٹرز کی رہنمائی کے لیے مختلف آن لائن ذرائع کا بندوبست کر رکھا تھا۔
تصویر
Getty Images

پاکستان میں عام انتخابات سے ایک دن قبل تک وزارت داخلہ اور ٹیلی کام اتھارٹی (پی ٹی اے) عوام کو یہ یقین دہانیاں کروانے میں مصروف رہے کہ پولنگ کے دن حکام کا ملک میں انٹرنیٹ اور موبائل سروسز کی معطلی کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور نہ ہی اس ضمن میں انھیں نگراں حکومت کی جانب سے کوئی احکامات موصول ہوئے ہیں۔

یہ یقین دہانیاں دیگر ووٹرز کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں اور ووٹرز کے لیے زیادہ تسلی کا باعث بنیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں تحریک انصاف نے عام انتخابات 2024 کے لیے اپنی انتخابی مہم چلانے کے لیے ڈیجیٹل ذرائع پر زیادہ اکتفا کیا تھا اور پولنگ کے روز بھی اپنے ووٹرز کی رہنمائی کے لیے مختلف آن لائن ذرائع کا بندوبست کر رکھا تھا۔

لیکن جمعرات کی صبح جیسے ہی شہری ووٹ ڈالنے کی نیت سے گھر سے نکلے تو اپنے موبائل فون کی سکرین پر سگنلز کی عدم موجودگی نے انھیں نہ صرف مایوس کیا بلکہ پولنگ سٹیشنز کی معلومات کے حوالے سے بھی مشکل میں بھی ڈال دیا۔

صورتحال اس وقت واضح ہوئی جب وفاقی وزارت داخلہ نے عوام کو آگاہ کیا کہ ’امن و امان کی صورتحال کو قائم رکھنے اور ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے حفاظتی اقدامات ناگزیر ہیں۔ اس لیے ملک بھر میں موبائل سروس کو عارضی طور پر معطل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘

اس عارضی بندش پر 12 بجے نظرثانی کرنے کی نوید سنائی گئی۔ اور نظر ثانی کے بعد معطلی کا دورانیہ دن تین بجے تک بڑھانے کا فیصلہ سنایا گیا۔ مگر اب تک حکومت کی جانب سے کچھ نہیں بتایا گیا کہ موبائل سروس کب تک بحال ہو پائے گی۔

سروس کی معطلی کے فیصلے پر سیاسی جماعتیں، ووٹرز اور صارفین تمام ہی ناخوش نظر آئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سمیت مختلف سیاسی جماعتوں، انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں اور سماجی تنظیموں کی جانب سے موبائل سروس اور انٹرنیٹ کی فوری بحالی کے مطالبے بھی کیے گئے۔

پیپلز پارٹی نے اس ضمن میں چیف الیکشن کمشنر سمیت چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی درخواستیں ارسال کیں جبکہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو نے اس معاملے پر عدالت سے رجوع کرنے کا بھی اعلان کیا۔

اس سب کے باوجود چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا موبائل سروس کی بندش الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں نہیں۔ انھوں نے واضح کیا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے سروسز کی بحالی کی درخواست نہیں دی جائے گی کیونکہ ’اگر ہم حکم دیتے ہیں اور کوئی واقعہ ہو جاتا ہے تو کون ذمہ دار ہو گا؟‘

گوہر اعجاز
EPA
نگران وفاقی وزرا نے چھ فروری کو عندیہ دیا تھا کہ اُن کی جانب سے الیکشن کے روز موبائل اور انٹرنیٹ سروسز کی بندش کے کوئی احکامات جاری نہیں کیے گئے

تحریک انصاف کا کیا کہنا ہے؟

دوسری جانب تحریک انصاف نے موبائل سروسز کی بندش پر ایک مذمتی بیان جاری کیا جس میں یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ یہ ’ووٹرز کا ٹرن آؤن کم رکھنے کی سازش‘ کا حصہ ہے۔

پی ٹی آئی نے موبائل سروسز کی فوری بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’الیکشن کمیشن صاف و شفاف انتخابات کروانے میں ناکام رہا ہے۔

تحریک انصاف نے اپنے ایک بیان میں مزید الزام عائد کیا گیا کہ ’موبائل اور انٹرنیٹ سروسز کی بندش کا مقصد پولنگ سٹیشنز پر دھاندلی کو چھپانا ہے۔‘

تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ موبائل سروس کی معطلی اُن کی پارٹی کو نقصان پہنچانے کی ایک اور کڑی ہے کیونکہ وہ اپنی انتخابی مہم کے لیے انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس پر انحصار کر رہی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے لیے فوکل پرسن اظہر مشوانی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ سہولت فراہم کی گئی تھی کہ ووٹر 8300 پر ایس ایم ایس کر کے اپنے پولنگ سٹیشن سے متعلق معلومات حاصل کر سکتے ہیں لیکن موبائل سروسز کی معطلی کے بعد یہ ممکن نہیں رہا۔

اظہر مشوانی کا کہنا ہے ان کی جماعت کے تمام امیدوار آزاد حیثیت میں مختلف انتخابی نشانات کے ساتھ الیکشن لڑ رہے ہیں اور اسی لیے اپنے ووٹرز کی درست رہنمائی کے لیے پی ٹی آئی کی انتخابی مہم کا مکمل انحصار ’موبائل ایپس، ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پر تھا۔‘

مشوانی نے کہا کہ ’پہلے ہمارے آن لائن جلسوں کے دوران انٹرنیٹ کو بند کیا گیا، پھر امیدواروں کے انتخابی نشان سے متعلق ہماری دو ویب سائٹس کو بلاک کیا گیا۔ آج پورے ملک میں موبائل سروس اور موبائل انٹرنیٹ کو بند کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے ووٹر نے ہمت نہیں ہاری اور وہ پولنگ سٹیشن ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنا ووٹ ڈالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔‘

کیا موبائل سروس کی بندش کا بڑا نقصان تحریک انصاف کو ہوا؟

تصویر
Getty Images

ایک طرف تحریک انصاف کا الزام ہے کہ اس اقدام کا مقصد اُن کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچانا ہے تو دوسری طرف نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے واضح کیا کہ ’موبائل سروسز کی بندش کے فیصلے کو سکیورٹی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے۔‘

خیال رہے کہ گذشتہ روز بلوچستان میں انتخابی امیدواروں کے دفاتر کے باہر ہونے والے دو بم دھماکوں میں کم از کم 28 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔

عالمی سائبر سکیورٹی اور ڈیجیٹل گورننس کی تنظیم نیٹ بلاکس کا کہنا ہے کہ ریئل ٹائم نیٹ ورک ڈیٹا کے مطابق موبائل نیٹ ورک کی معطلی کے ساتھ ساتھ کئی علاقوں میں انٹرنیٹ بلیک آؤٹ بھی ہوا ہے۔ اپنے بیان میں نیٹ بلاکس نے کہا کہ ’ایسا الیکشن کے روز ہوا اور گذشتہ مہینوں کے دوران سیاسی اپوزیشن کو ڈیجیٹل سینسرشپ کا سامنا رہا ہے۔‘

نیٹ بلاکس کی ریسرچ ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ ملک میں جیسے کی پولنگ کا عمل شروع ہوا، اسی وقت ٹیلی کام نیٹ ورکس کو بند کر دیا گیا۔ ’(اسی دوران ملک میں) سیٹلائٹ انٹرنیٹ آپریٹر یاہ سات کی کنیکٹیویٹی کی شرح میں بڑا اضافہ ہوا۔ یہ مخصوص سروس کس کو دی جا رہی ہے، یہ ہمیں معلوم نہیں۔‘

شہریوں کے ڈیجیٹل حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ’بولو بھی‘ کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی کا کہنا ہے کہ موبائل و انٹرنیٹ سروسز کی معطلی اب پاکستانی ریاست کی حکمت عملی کا حصہ بن چکی ہے۔

اسامہ اس خیال سے متفق نظر آئے کہ موبائل سروس کی بندش کا مبینہ بڑا نشانہ تحریک انصاف ہی بنی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی کے ورچوئل جلسوں کے دوران تین بار سوشل میڈیا کی بندش ہوئی۔ پی ٹی آئی سے بلے کا انتخابی نشان چھینا گیا جس کے بعد ان کی ویب سائٹ بند کی گئی تاکہ کوئی امیدواروں کے انتخابی نشان نہ دیکھ سکیں۔ اور اب الیکشن کے روز موبائل نیٹ ورکس بند کر دیے گئے ہیں۔‘

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے ملک میں ان سروسز کی فوری بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’جس نے یہ حکم دیا، اس کی نشاندہی ضروری ہے تاکہ انھیں ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے۔‘

ایچ آر سی پی کا کہنا تھا کہ سندھ ہائیکورٹ نے نگران حکومت کو واضح ہدایت دی تھی کہ پولنگ کے روز انٹرنیٹ سروسز میں خلل پیدا نہ کیا جائے۔ ’عدم شفافیت پریشان کن ہے کہ کہاں، کب اور کتنی دیر کے لیے معطلی جاری رہے گی۔ اس سے ووٹروں کے حقوق متاثر ہوئے ہیں اور ممکنہ طور پر الیکشن کے نتائج میں بھی رکاوٹ آ سکتی ہے۔‘

شفاف صحافت کی فروغ کے لیے کام کرنے والے ادارے ’آئی بی اے سنٹر فار ایکسیلینس اِن جرنلزم‘ کی ڈائریکٹر امبر شمسی کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جن کے پاس ووٹر کو متحرک کرنے اور الیکشن والے دن پولنگ بوتھ تک لانے کا منظم نظام موجود ہے جس کے لیے وہ موبائل سروس یا انٹرنیٹ پر زیادہ انحصار نہیں کرتے۔

انھوں نے کہا کہ ’جبکہ دوسری طرف اس وقت پی ٹی آئی کے بہت سے سیاسی رہنما یا تو جیل میں ہیں یا پارٹی چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ یہ وہ سیاستدان تھے جو جانتے تھے کہ پاکستان میں ووٹر کو الیکشن بوتھ تک لانے کا کیا طریقہ ہوتا ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی کے امیدوار نوجوان ہیں یا وکیل ہیں اور بہت سے تو پہلی بار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جن کا انحصار زیادہ تر انٹرنیٹ کے ذریعے معلومات کی رسائی پر تھا۔‘

امبر شمسی کہتی ہیں کہ ’پی ٹی آئی نے امیدواروں کے انتخابی نشان کی معلومات کے لیے ویب سائٹ اور ایپس کا اجرا کیا جس کے لیے انٹرنیٹ لازم تھا۔ اس لیے انٹرنیٹ کی بندش کا نقصان یقینا٭ پی ٹی آئی کو زیادہ ہوا ہے لیکن اس کے دیگر جماعتیں بھی اس سے متاثر ہوئیں۔‘

امبر سمجھتی ہیں کہ موبائل سروس کی بندش ووٹرز کو دبانے کی ایک کوشش ہے اور اس کا بڑا نقصان تحریک انصاف کو ہی ہو گا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.