دس رمضان: یوم باب الاسلام اور محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے کے نقطۂ آغاز کی کہانی

اعجاز الحق قدوسی کی کتاب تاریخ سندھ کے مطابق جس وقت سندھ پر حملے کے لیے محمد بن قاسم کا انتخاب ہوا اس وقت ان کی عمر 17 سال تھی۔انھیں چھ ہزار فوجی، سینکڑوں گھوڑوں اور اونٹوں کے لشکر کے ساتھ سندھ روانہ کیا گیا اور وہ جمعے کے دن دیبل پہنچے جہاں سرزمین سندھ پر پہلی نماز جمعہ ادا کی۔
محمد بن قاسم
Getty Images

یہ بنو امیہ کا دور تھا جب عالم اسلام کی سرحدیں ہندوستان تک وسیع ہوئیں۔ عبدالملک بن مروان کے عہد میں اس کی سلطنت کی سرحدیں صوبہ سندھ تک پہنچ گئیں اور اس نے حجاج بن یوسف ثقفی کو مشرقی ممالک کا حاکم اعلیٰ مقرر کیا۔

حجاج بن یوسف نے سعید بن اسلم کو مکران کا گورنر بنایا۔ عبدالملک بن مروان کے بعد ولید بن عبدالملک حکمران بنا جس نے محمد بن عبدالہارون کو مکران کے علاقے میں اپنا گورنر مقرر کیا۔

اسی زمانے میں سمندری راستوں سے عالم اسلام کی سرحدیں سراندیپ (لنکا) تک وسیع ہوئی۔

لوک ورثا کی کتاب سندھ کے مطابق سراندیپ کے راجا نے بحری راستے سے آٹھ جہازوں کے ذریعے ولید بن عبدالملک کو بہت سے تحائف روانہ کیے جن میں انواع و اقسام کے جواہرات، حبشی غلام اور کنیزیں اور بہت سے نادر تحائف شامل تھے۔

ان جہازوں میں کچھ مسلمانوں عورتیں بھی تھیں جو کعبے کی زیارت کے لیے جا رہی تھیں۔ راستے میں مخالف ہواوں کے طوفان نے اس بیڑے کو سندھ میں دیبل کی بندر گاہ کے قریب پہنچا دیا۔ اس وقت دیبل سندھ کی بندرگاہ تھی اور راجا داہر علاقے کا حکمران تھا۔

مقامی قزاقوں نے ان جہازوں پر قبضہ کر کے انھیں لوٹ لیا اور جواہرات اور تحائف پر قبضہ کر کے مردوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا۔ ان مردوں اور عورتوں نے کہا کہ ہم خلیفہ وقت کے پاس جا رہے تھے مگر قزاقوں نے اس کی ذرا بھی پروا نہ کی اور انھیں گرفتار کر کے کہا کہ اگر کوئی آپ کو چھڑا سکتا ہے تو اس کے توسط سے خود کو چھڑا لیں۔

اس پر ایک عورت نے چیخ کر کہا: ’یا حجاج، یا حجاج اغثنی‘ (اے حجاج، اے حجاج، میری مدد کو پہنچ)۔

ان جہازوں کے کچھ مسافر کسی نہ کسی طرح بچ نکلے اور انھوں نے عراق پہنچ کر جہازوں کے لٹنے اور مسافروں کی قید ہونے کی اطلاع حجاج کو پہنچائی اور یہ کہا کہ اس وقت جب قزاق مسافروں کو گرفتار کر رہے تھے تو ایک عورت نے بے اختیار آپ کو پکارا۔ حجاج نے جواباً کہا: ’لبیک، لبیک‘ (میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں)۔

حجاج نے ایک خط لکھا اور اسے محمد بن ہارون کے ذریعے داہر تک بھجوایا۔ خط میں لکھا تھا کہ وہ ان تحائف کو جو سراندیپ کے راجا نے بھیجے تھے اور ان کنیزوں اور یتیموں کو اس کی خدمت میں بھیج دیں۔ حجاج نے اس خط پر خود اپنے دستخط ثبت کیے۔

محمد بن قاسم کو سندھ بھیجنے کا فیصلہ

سندھ کی مشہور تاریخ چچ نامہ (کتاب فتح نامہ سندھ) کے مطابق راجا داہر نے جواب میں لکھا کہ یہ کام بحری قزاقوں کا ہے جو ہمارے اختیار سے باہر ہیں جبکہ تاریخ فرشتہ کے مطابق راجا داہر نے لکھا کہ ’بے شک ہم نے تمھارے جہازوں کو لوٹا ہے لیکن تم ہمارا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے۔‘

کہا جاتا ہے کہ جب داہر کا یہ جواب حجاج کو ملا تو اس نے ولید بن عبدالملک سے سندھ پر حملہ کرنے کی اجازت طلب کی۔

شروع میں تو ولید نے اس کی اجازت نہ دی لیکن چند دن بعد حجاج نے اسے لکھا کہ اس مہم پر جو رقم شاہی خرانے سے خرچ ہوگی میں اس سے دگنی رقم شاہی خزانے میں جمع کر دوں گا۔ ولید نے اس وعدے پر حجاج کو سندھ پر حملے کی اجازت دے دی۔

ولید کی اجازت ملتے ہی حجاج نے پہلے عبیداللہ بن نبہان کی قیادت میں ایک فوج دیبل روانہ کی جو معرکے میں شہید ہوگئے۔ سندھ کے مشہور عالم ڈاکٹر عمر بن داﺅد پوتہ کا خیال ہے کہ کلفٹن کے ساحل پر جو مقبرہ عبداللہ شاہ غازی کے نام سے مشہور ہے وہ انھی عبیداللہ بن نبہان کا مقبرہ ہے۔

ان کے بعد ایک اور سالار بدیل ابن طبقہ بھی اسی جہاز میں ہلاک ہوئے۔ حجاج کو جب اپنے ان دو سالاروں کے مارے جانے کی خبر ملی تو انھوں نے اپنے ایک عزیز محمد بن قاسم کو سندھ بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

بعض مؤرخین کے مطابق، جن میں اعجاز الحق قدوسی بھی شامل ہیں، محمد بن قاسم حجاج بن یوسف کے بھتیجے اور داماد تھے لیکن سندھ کے مشہور مؤرخ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے مختلف دلائل سے ثابت کیا ہے کہ محمد بن قاسم، حجاج کے بھتیجے نہیں بلکہ ان کے چچا زاد بھائی تھے۔

جب محمد بن قاسم لشکر لے کر سندھ روانہ ہوئے

اعجاز الحق قدوسی کی کتاب تاریخ سندھ کے مطابق جس وقت اس مہم کے لیے محمد بن قاسم کا انتخاب ہوا اس وقت ان کی عمر 17 سال تھی۔ اس سے قبل وہ شیراز کے گورنر تھے جہاں انھوں نے نہایت عمدگی سے حکومت کی۔

ان کی کارکردگی سے متاثر ہو کر حجاج نے لشکر کشی کا حکم دیا۔ وہ اس کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ انھیں سندھ پر حملہ کرنے کا حکم دیا گیا۔

حجاج نے اس مقصد کے لیے چھ ہزار فوجی منتخب کیے اور انھیں گھوڑوں اور اونٹوں کے ساتھ روانہ کیا۔ محمد بن قاسم کی سرکردگی میں یہ لشکر خشکی کے راستے مکران پہنچا۔

ایک ماہ کے بعد انھوں نے دیبل کا رخ کیا۔ راستے میں انھوں نے پنجگور کا علاقہ فتح کیا اور پھر سفر کرتے ہوئے دیبل پہنچ گئے۔

اعجاز الحق قدوسی کی کتاب کے مطابق وہ دیبل پہنچے تو جمعہ کا دن تھا۔ انھوں نے سرزمین سندھ پر پہلی نماز جمعہ ادا کی۔

اتفاق سے اسی دن بحری راستے بھی حجاج کے فوجی سامان رسد اور عسکری فوجی ساز و سامان کے ساتھ دیبل پہنچ گئے۔

اس ساز و سامان میں منجنیقیں بھی تھیں۔ سب سے بڑی منجنیق کا نام عروسک تھا جسے 500 آدمی کھینچتے تھے۔ دیبل شہر میں ایک عالی شان مندر تھا جس کا گنبد بہت بڑا اور بلند تھا اور دور دور سے نظر آتا تھا۔ اس کی چوٹی پر ریشم کا سبز پرچم آویزاں تھا۔

اعجاز الحق قدوسی کا دعویٰ ہے کہ اس پرچم کے متعلق شہر والوں کا ایمان تھا کہ جب تک یہ ہوا میں لہرا رہا ہے کوئی فوج شہر فتح نہیں کرسکتی۔ مندر میں 700 پجاری تھے اور شہر کے گرد فصیل بنی ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

دیبل کی فتح

محمد بن قاسم کے دیبل پہنچتے ہی راجا داہر کی فوج شہر کے دروازے بند کر کے بیٹھ گئی۔ محمد بن قاسم نے فصیل کے چاروں طرف خندقیں کھود کر منجنیقیں نصب کیں اور شہر کو محاصرے میں لے لیا۔

یہ محاصرہ سات دن جاری رہا۔ آٹھویں دن ایک مخبر کے ذریعے محمد بن قاسم کو اطلاع ملی کہ جب تک اس مندر پر لہرانے والے پرچم کو پارا پارا نہیں کیا جائے گا، شہر کے باسیوں کا حوصلہ پست نہیں ہوگا۔

محمد بن قاسم نے اپنی منجنیق عروسک کے ذریعے اس پرچم کو گرانے کا فیصلہ کیا۔ جونہی وہ پرچم نیچے گرا، مسلمانوں نے ہر طرف سے شدید حملہ شروع کردیا۔ یہ دیکھ کر داہر کی فوج کے حوصلے ٹوٹ گئے اور انھوں نے فوراً شہر پناہ کے دروازے کھول دیے۔

اعجاز الحق قدوسی ہی کی کتاب میں درج ہے کہ دیبل فتح ہونے کے بعد محمد بن قاسم نے قید خانے سے ان مسلمان قیدیوں کو آزاد کیا جن کی گرفتاری کے باعث یہ سارا قضیہ شروع ہوا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ جیل خانے کے داروغہ نے بھی حالات دیکھتے ہوئے اسلام قبول کر لیا۔ محمد بن قاسم نے حمید بن وداع بحری کو دیبل کا حکمران مقرر کیا جس نے شہر میں ایک خوب صورت مسجد تعمیر کروائی۔

جس وقت دیبل فتح ہوا اس وقت نیرون (موجودہ حیدرآباد) پہنچ چکا تھا۔ راجا داہر نے محمد بن قاسم کو ایک خط لکھا اور انھیں مختلف دھمکیاں دیں۔

محمد بن قاسم نے لکھا کہ آپ کی انھی بداعمالیوں اور تکبر کی وجہ سے ہمارا آپ کے خلاف لشکر کشی کا خیال پیدا ہوا۔

’آپ نے ہماری سمت آنے والے مسلمانوں کو قید کیا اور اب بھی سرکشی پر آمادہ ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ میرا اور آپ کا مقابلہ جہاں کہیں ہوگا میں خدا تعالیٰ کی مدد سے آپ کو مغلوب کروں گا۔‘

محمد بن قاسم اپنے لشکر سمیت نیرون کی سمت بڑھا۔ انھوں نے سہون، سیستان کے بعد نیرون کو بھی فتح کر لیا۔ اس معرکے میں راجا داہر مارا گیا۔ یہ ہندوستان میں مسلمانوں کی پہلی بڑی فتح تھی۔

لوک ورثا کی کتاب سندھ کے مطابق کہا جاتا ہے کہ یہ 10 رمضان کا دن تھا۔ 93 ہجری کے مطابق 20 جون 712 کی تاریخ تھی۔ اسی کتاب میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ محمد بن قاسم نے راجا داہر کا سر قلم کر کے حجاج بن یوسف کو روانہ کر دیا۔

اس کے بعد محمد بن قاسم نے برہمن آباد، الور اور ملتان تک کا سارا علاقہ فتح کر لیا۔ برہمن آباد میں ان کا مقابلہ داہر کے بیٹے جے سینہ سے ہوا جسے مسلمان فوج نے شکست سے ہمکنار کیا۔

انھوں نے اعلان کیا کہ کسی پر جبر نہیں ہے جو چاہے مسلمان ہو کر ہمارا بھائی بن جائے اور جو چاہے جزیہ دے کر اپنے پرانے مذہب پر قائم رہے۔

ادھر دمشق میں پہلے حجاج بن یوسف اور پھر خلیفہ ولید بن عبدالملک وفات پا گئے۔ اس کے بعد سلیمان عبدالملک تخت نشین ہوئے جس کے ساتھ ہی سیاسی منظرنامہ بدل گیا۔

سلیمان بن عبدالملک نے حجاج کے مقرر کردہ افسروں کو معزول یا قتل کر کے انھیں راستے سے ہٹا دیا۔ ان افسروں میں قتیبہ بن مسلم، موسیٰ بن نصیر اور محمد بن قاسم کے نام سرفہرست تھے۔ انھوں نے محمد بن قاسم کی جگہ یزید بن کبشہ کو سندھ کا گورنر مقرر کیا جس نے محمد بن قاسم کو ٹاٹ کے کپڑے پہنا کر اور ہتھکڑی بیڑی ڈال کر عراق بھجوا دیا۔

اعجاز الحق قدوسی کی کتاب میں درج ہے کہ کہا جاتا ہے کہ جب محمد بن قاسم سندھ سے رخصت ہو رہے تھے تو انھوں نے یہ شعر پڑھا:

انھوں نے مجھے ضائع کر دیا اور کیسے جوان کو ضائع کیا

جو مرد نبرد آزما اور سرحد کا محافظ تھا

محمد بن قاسم کی وفات کا معمہ

محمد بن قاسم عراق پہنچے تو خلیفہ نے انھیں واسط کے جیل خانے میں بھجوا دیا جہاں انھیں زنجیروں سے باندھ کر رکھا گیا۔ اس قید خانے میں وہ صرف 22 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔

ان کی وفات کی خبر سندھ پہنچی تو یہاں ان کا بڑا سوگ منایا گیا اور شہر کیرج کے ہندوﺅں اور بودھوں نے اپنے شہر میں اس کا ایک مجسمہ نصب کروا کے اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔

یہ تو تھی ایک روایت،ایک اور دوسری روایت، جو سندھ کی مشہور تاریخ چچ نامہ میں نقل ہوئی، میں بتایا گیا ہے کہ محمد بن قاسم نے راجا داہر کی دو بیٹیاں پرمل دیو اور سورج دیو کو خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کی خدمت میں روانہ کیا۔

’خلیفہ نے ان کا حسن دیکھ کر انھیں اپنے لیے پسند کیا، ان لڑکیوں نے خلیفہ سے کہا کہ ہم آپ کے لائق نہیں کیوںکہ محمد بن قاسم ہمیں اپنے استعمال میں لاچکا ہے۔ یہ سن کر خلیفہ آگ بگولہ ہوگیا اور اپنے ہاتھوں سے حکم تحریر کیا کہ محمد بن قاسم یہ حکم ملتے ہی خود کو کچے چمڑے میں بند کروا کے ہمارے حضور میں حاضر ہو۔‘

اسی روایت کے مطابق محمد بن قاسم کو یہ حکم ادھے پور میں ملا۔ انھوں نے حکم کی تعمیل کی اور خود کو چمڑے میں بند کروا کے روانہ ہوئے۔ تین دن بعد وہ راستے میں فوت ہوگئے۔

محمد بن قاسم کی لاش کو صندوق میں بند کر کے خلیفہ کے سامنے پیش کیا گیا جس نے فوراً ان دونوں بہنوں کو بلا کر لاش دکھائی اور کہا میرا حکم دیکھو۔

اس روایت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دونوں بہنیں یہ سن کر بے اختیار ہنس پڑیں اور کہنے لگیں خلیفہ کا حکم عدل اور عقل سے ماورا ہے۔

’آپ کو چاہئے تھا کہ ہماری بات کی صداقت کی تحقیق کرتے، حقیقت یہ ہے کہ محمد بن قاسم ہمارے لیے بھائی اور باپ کے برابر تھا۔ انھوں نے کبھی ہمیں ہاتھ نہیں لگایا لیکن چوںکہ اس نے ہمارے خاندان کے راج کو اجاڑا اور ہمارے باپ اور بھائی کو قتل کیا، ہمیں غلام بنایا اس لیے ہم نے محض انتقام لینے کے لیے یہ واقعہ گھڑ کر آپ کو بیان کیا۔ ہمارا مقصد صرف اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینا تھا۔‘

سلیمان بن عبدالملک نے یہ سن کر ’دونوں بہنوں کو دیوار میں زندہ چنوا دیا۔‘

ایک اور تاریخی روایت کے مطابق دونوں بہنوں کو ہاتھی کے پاﺅں سے ساتھ گھسیٹا گیا اور بازاروں میں پھرانے کے بعد انھیں زندہ جلا دیا گیا۔ یہ واقعہ چچ نامہ میں نقل ہوا ہے لیکن مسلمان مؤرخین اس کی صحت سے انکار کرتے ہیں۔

بنو امیہ کی حکومت کا خاتمہ اور عباس عہد کا آغاز

گذشتہ چار پانچ برس سے سوشل میڈیا پر ایک تصویر کو راجا داہر کی تصویر بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر راجا داہر کی ایک پینٹنگ بھی گردش میں ہے جس کے بارے میں بی بی سی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ تصویر راجا داہر کی نہیں بلکہ جے پور کے راجا مادھو سنگھ دوم کی ہے۔

محمد بن قاسم کی وطن واپسی کے بعد بھی سندھ پر عربوں کی حکومت قائم رہی۔ عہد بنوامیہ میں یہ علاقہ سلیمان عبدالملک، حضرت عمر بن عبدالعزیز، یزید بن عبدالملک، ہشام بن عبدالملک اور ولید ثانی بن یزید بن عبدالملک کے زیر نگیں رہا۔ اس عہد میں جو 132 ہجری مطابق 749 تک جاری رہا، سندھ پر 10گورنروں نے حکومت کی۔

132 ہجری یعنی 749 میں بنو امیہ کی حکومت ختم ہوئی اور عباس عہد کا آغاز ہوا۔ بنو عباس کے پہلے خلیفہ ابوالعباس، عبداللہ بن محمد سفاح تھے۔ انھوں نے اپنے کمانڈر ابو مسلم خراسانی کو اختیار دیا کہ وہ عباسی حکومت کی طرف سے تمام مشرقی ممالک کا انتظام سنبھال لیں۔

ابو مسلم خراسانی نے ہر جگہ اپنے آدمی بھیج کر حکومت مضبوط کر لی۔ اس عہد میں سندھ کا پہلا گورنر موسیٰ بن کعب تمیمی کو مقرر کیا گیا۔ یہ سلسلہ متوکل علی اللہ جعفر بن معتصم کے دور حکومت تک جاری رہا۔

اس کے عہد میں سندھ میں بنو عباس کے آخری گورنر ہارون بن ابی خالد مروزی تھا۔

ہارون جو بنو عباس کے عہد کے 29 ویں گورنر تھے،عمر بن عبدالعزیز ہباری کے ہاتھوں مارے گئے۔ عمر بن عبدالعزیز نے سندھ کے مرکز منصورہ پر قبضہ کر لیا تاہم انھوں نے متوکل علی اللہ کو لکھا کہ میں آپ کا وفادار ہوں۔ متوکل علی اللہ سندھ کی آئے دن کی بغاوتوں اور شورشوں سے بڑا پریشان تھے، انھوں نے عمر بن عبدالعزیز ہباری کی درخواست منظور کر لی اور انھیں سندھ کا گورنر مقرر کر دیا۔

عمر بن عبدالعزیز ہباری نے سندھ میں اپنے خاندان کی خود مختار حکومت کی بنیاد رکھی۔ نھوں نے تمام سندھ کو اپنا باج گزار بنایا لیکن اپنی خودمختاری کو کبھی خلیفہ پر ظاہر ہونے نہیں دیا اور خطبے میں عباسی خلیفہ ہی کا نام لیا جاتا رہا۔

عمر بن عبدالعزیز کے بعد ان کا بیٹا عبداللہ بن عمر ہباری سندھ کا حکمران بنا۔ اعجاز الحق قدوسی کی کتاب کے مطابق ان کے عہد کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن مجید کا پہلا سندھی ترجمہ تھا۔

265 ہجری یعنی 879 میں سندھ میں ملتان اور منصورہ کی دو وسیع اور خود مختار ریاستیں قائم ہوچکی تھیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی چھوٹی چھوٹی ریاستیں سندھ میں قائم تھیں جن میں بعض ہندو ریاستیں بھی شامل تھیں۔ ان ریاستوں کے نام مکران، مشکی، طوران، وبھند، قنوج اور بدھ تھے۔

یہ سندھ کی وہ خود مختار ریاستیں تھیں جو مرکز کی کمزوری کے بعد وجود میں آئی تھیں۔ اس کے بعد سندھ میں قرامطہ، اسماعیلیہ اور ملاحدہ فرقوں نے مختلف علاقوں میں اپنا اپنا اقتدار قائم کیا۔ ان تین فرقوں میں جو فرقہ ملتان میں برسراقتدار آیا وہ اسماعیلی تھے۔

11ویں صدی میں ہندوستان میں غزنویوں کا اقتدار مستحکم ہوا جنھوں نے سندھ کو عرب کے مرکز سے منقطع کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا اور یہاں اپنے گورنر مقرر کر دیے۔ اس کے بعد یہ علاقہ مستقل دہلی حکومت کا حصہ رہا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.