دہلی کے وزیراعلیٰ کی گرفتاری کے بعد عدالتی پیشی، اروند کیجریوال نے سپریم کورٹ سے درخواست واپس لے لی

انڈین ریاست دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے سپریم کورٹ میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی گرفتاری کو چیلنج کرنے کے لیے دی گئی درخواست واپس لے لی ہے۔ اب آگے کیا ہو گا؟
Kajriwal
Getty Images

انڈین ریاست دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے سپریم کورٹ میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی گرفتاری کو چیلنج کرنے کے لیے دی گئی درخواست واپس لے لی ہے۔

اروند کیجریوال کو ریاستی حکومت کی نئی ایکسائز پالیسی میں مبینہ بے ضابطگیوں کے معاملے میں جمعرات کی رات گرفتار کر لیا گیا تھا اور ان کی عام آدمی پارٹی نے رات میں ہی سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

اروند کیجریوال کے وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس سنجیو کھنہ کو بتایا کہ کیجریوال نے اپنی درخواست واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ ای ڈی کے ریمانڈ کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق سماعت شروع ہونے سے قبل ابھیشیک منو سنگھوی نے جسٹس سنجیو کھنہ سے کہا کہ کیجریوال کو پہلے نچلی عدالت میں ریمانڈ کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر ضروری ہوا تو وہ ایک اور درخواست کے ساتھ سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں۔

India
Getty Images

https://twitter.com/ANI/status/1771090710122385459?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1771090710122385459%7Ctwgr%5E8806c46f2068f80cca4cc94a971590b0f564d4ad%7Ctwcon%5Es1_&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.bbc.com%2Fhindi%2Flive%2Findia-68633822

عدالت میں کیا ہوا؟

سنگھوی نے تاریخوں کا ذکر کرتے ہوئے درخواست واپس لینے کی بات کی تو جسٹس کھنہ نے کہا کہ آپ یہاں سے جا سکتے ہیں۔

اس سے قبل دہلی شراب کیس میں سپریم کورٹ نے تلنگانہ کی سیاسی جماعت بھارت راشٹرا سمیتی (بی آر ایس) کے لیڈر کے۔ کویتا کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی گئی۔

ایسے میں اروند کیجریوال کو بھی ڈر ہے کہ ان کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے۔

اس سال فروری کے شروع میں اسی بنچ نے جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

ایسے میں کیجریوال کو سپریم کورٹ سے زیادہ امید نہیں تھی اور انہوں نے عرضی واپس لینا ہی بہتر سمجھا۔

انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ ان الزامات کی تحقیقات کر رہا ہے کہ سنہ 2022 میں دہلی حکومت کی طرف سے نافذ کردہ ’شراب پالیسی‘ جس نے دارالحکومت میں شراب کی فروخت پر حکومت کا کنٹرول ختم کر دیا تھا، مبینہ طور پر نجی خوردہ فروشوں کو ناجائز فائدہ پہنچانے کی وجہ بنی۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے حکام کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’گرفتار دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کو جمعے کو ہی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ تفتیش کے لیے ان کی تحویل کی استدعا کرے گی۔

واضح رہے کہ اس سے پہلے عام آدمی پارٹی کے اہم رہنما، دہلی کے سابق وزیر صحت ستیندر جین، دہلی کے سابق نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیا اور راجیہ سبھا کے رکن سنجے سنگھ کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔

اب جبکہ عام آدمی پارٹی کے تمام سرکردہ رہنما جیل میں ہیں تو یہ ایک بڑا سوال ہے کہ پارٹی اور دہلی حکومت کیسے چلے گی۔

اس وقت بڑا چیلنج ایک متبادل مگر قابل قیادت کی تلاش ہو گی جو کیجریوال کی غیر موجودگی میں دہلی میں پارٹی اور حکومت کو سنبھال سکے۔

بدعنوانی کے خلاف تحریک سے سرخیوں میں آنے والے اروند کیجریوال نے تقریباً 11 سال قبل سیاسی نظام کو صاف کرنے اور ترقی کا وعدہ کرتے ہوئے سیاست میں قدم رکھا تھا اور ان کی گرفتاری ایک ایسے موقع پر عمل میں آئی ہے جب عام آدمی پارٹی دہلی، پنجاب، ہریانہ اور گجرات میں اپنی انتخابی مہم شروع کرنے والی تھی اور کجریوال اس کے سرخیل تھے۔

کچھ رپورٹس میں کہا گیا کہ گرفتاری کے خوف کے درمیان قیادت کے لیے جن ناموں پر بات کی گئی ان میں اروند کیجریوال کی اہلیہ سنیتا کیجریوال، دہلی حکومت کے وزیر آتشی سنگھ اور سوربھ بھردواج شامل ہیں۔

دلی حکومت میں آتشی تعلیم، مالیات، پی ڈبلیو ڈی، محصول سمیت بیشتر محکموں کے لیے ذمہ دار ہیں۔ وہ کیجریوال کے قریبی ساتھی مانے جاتے ہیں۔

اسی طرح سوربھ بھردواج بھی دلی کابینہ کے اہم رکن ہیں اور صحت اور شہری ترقی جیسے کئی اہم محکموں کو سنبھال رہے ہیں۔

تاہم آتشی سنگھ اور سومناتھ بھارتی نے صحافیوں کو بتایا کہ اروند کیجریوال وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیں گے۔

آتشی سنگھ نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ جیل سے ہی حکومت چلائیں گے۔ کوئی قانون انھیں جیل سے حکومت چلانے سے منع نہیں کرتا کیونکہ انھیں سزا نہیں ہوئی ہے۔ کیجریوال وزیر اعلیٰ تھے، ہیں اور رہیں گے۔

کیجریوال کی گرفتاری

ای ڈی نے کیجریوال کے خلاف عدالت میں دو درخواستیں دائر کیں، جس میں کیجریوال پر نوٹس کی تعمیل نہ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

گذشتہ ہفتے کیجریوال نچلی عدالت میں پیش ہوئے تھے، جس کے بعد عدالت نے انھیں سمن کی تعمیل نہ کرنے کے معاملے پر گرفتار نہ کرنے کا مشروط حکم دیا تھا۔

جمعرات کی شام جب انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی ٹیم دہلی کے وزیراعلیٰ کی رہائش گاہ پر پہنچی تو قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ اروند کیجریوال کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

رات تقریباً 9 بجے پارٹی لیڈر آتشی نے اروند کیجریوال کی گرفتاری کی تصدیق کی اور کہا کہ پارٹی نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔ انھوں نے سپریم کورٹ سے اس معاملے میں فوری سماعت کی اپیل کی ہے۔

عام آدمی پارٹی کے رہنما سوربھ بھردواج نے کہا کہ ’وزیراعلیٰ کی رہائش گاہ کی مکمل تلاشی لی گئی۔ صرف 70,000 روپے نقد ملے، جسے ای ڈی نے واپس کر دیا۔ وزیراعلیٰ کا موبائل فون چھین کر انھیں گرفتار کر لیا گیا، پورے چھاپے میں کوئی غیر قانونی رقم، دستاویز یا ثبوت نہیں ملا۔‘

دلی پولیس نے عام آدمی پارٹی کے کئی کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کیجریوال کو ساتھ لے گئی۔

https://twitter.com/RahulGandhi/status/1770854468717863353?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1770854468717863353%7Ctwgr%5E2df18f3429e75c8c55622d62d7f8c2a215d4a643%7Ctwcon%5Es1_&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.bbc.com%2Fhindi%2Flive%2Findia-68633822

گرفتاری پر ردعمل

اس دوران عام آدمی پارٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہو گئی اور انھوں نے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ دلی پولیس نے وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ کے باہر دفعہ 144 نافذ کر دی تھی۔

کیجریوال گرفتاری کے بعد سے سرخیوں میں ہیں۔ صحافی، سیاسی پارٹیوں کے لیڈر، وکلا اور عام لوگ سوشل میڈیا پر کیجریوال اور ای ڈی کی کارروائی پر بحث کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ اس معاملے کو انتخابی بانڈز سے جوڑ کر بھی دیکھ رہے ہیں۔

نیو دہلی کے وزیر گوپال رائے نے اسے ’جمہوریت کا قتل‘ قرار دیا۔

پارٹی کے راجیہ سبھا رکن راگھو چڈھا نے کہا کہ ’ہندوستان میں ایک غیر اعلانیہ ایمرجنسی ہے۔‘

اس سے قبل انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے اروند کیجریوال کو آٹھ بار سمن جاری کیا تھا۔ گذشتہ سال نومبر اور دسمبر میں دو، اس سال جنوری میں دو، فروری میں تین اور مارچ میں ایک سمن جاری کیا گیا تھا۔ ان تمام سمن میں کیجریوال ایک بار بھی پوچھ گچھ کے لیے نہیں گئے۔

اروند کیجریوال نے گرفتاری سے عبوری ضمانت کے لیے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، جسے عدالت نے جمعرات کو مسترد کر دیا۔ اس درخواست کی سماعت بھی جمعہ کو ہونی ہے۔

بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ روی شنکر پرساد نے کہاکہ ’یہ ایک قانونی عمل ہے جو بدعنوانی کے خلاف مناسب کارروائی کرنے کے مقصد سے کیا جا رہا ہے، جس میں انہیں عدالت سے بھی کوئی راحت نہیں ملی۔ قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنے دیا جائے۔‘

دوسری جانب اپوزیشن انڈیا الائنس کے رہنماؤں نے اروند کیجریوال کی گرفتاری کی شدید مذمت کی ہے۔

کانگریس کے رہنما پون کھیڑا نے کہا کہ 'وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ہندوستانی اتحاد ہل جائے گا یا پٹڑی سے اتر جائے گا، وہ غلط ہیں۔ ان اقدامات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بی جے پی کو شکست کا سامنا ہے۔'

کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے ایکس پر لکھاکہ ’خوف زدہ ڈکٹیٹر‘ مردہ جمہوریت بنانا چاہتا ہے۔ بھارت کا اتحاد اس کا منہ توڑ جواب دے گا۔

کانگریس صدر ملکارجن کھرگے نے کیجریوال کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی مغرور ہو گئی ہے اور ہر روز لوک سبھا انتخابات میں اپنی جیت کے کھوکھلے دعوے کر رہی ہے۔ انتخابات سے پہلے وہ ہر روز غیر قانونی طریقوں سے اپوزیشن کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے کہا کہ کیجریوال کو سیاسی انتقام کے لیے گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ ملک میں بڑھتی آمریت کی علامت ہے۔

معروف صحافی رویش کمار نے سوشل میڈیا پر سوال کیا کہ کیا اس بار اپوزیشن کے بغیر الیکشن ہوں گے؟

صحافی روشن کشور نے 2013 سے 2024 تک دہلی میں کانگریس، بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے ووٹ شیئر کا ڈیٹا شیئر کرتے ہوئے لکھا، ’دہلی کے ووٹروں کی بڑی تعداد اسمبلی کی سطح پر کیجریوال کی حمایت کرتی ہے لیکن لوک سبھا کے لیے بی جے پی۔ کی حمایت میں ہے۔‘

انھوں نے سوال کیا ’اروند کیجریوال کی گرفتاری کے بعد ایک بڑا سیاسی سوال کھڑا ہو گیا ہے۔ کیا ان کی گرفتاری سے 2024 میں ووٹر بی جے پی سے ناراض ہو جائیں گے؟ یا مودی سے محبت سے یہ غصہ ختم ہو جائے گا۔

معروف سیاسی تجزیہ کار اور صحافی سوہاس پالشیکر نے لکھا، ’کیا یہ الیکشن کمیشن کے دائرہ کار میں نہیں ہے کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے اور آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کے افسران سے کہے کہ وہ انتخابات کے دوران کسی سیاسی پارٹی کے اکاؤنٹس کو منجمد نہ کریں؟‘

یوگیندر یادو عام آدمی پارٹی کے بانیوں میں سے ایک رہے ہیں لیکن اب وہ عام آدمی پارٹی میں نہیں۔ انھوں نے لکھا کہ ’سیاسی اتفاق رائے اور اختلاف اپنی جگہ ہے، لیکن جمہوری اخلاق سب سے اہم ہے، اروند کیجریوال کی گرفتاری اس نظام کو پارہ پارہ کرنے کے مترادف ہے۔ہر ہندوستانی جو جمہوریت میں یقین رکھتا ہے اسے اس کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔‘

دہلی کی سابق وزیر اعلیٰ شیلا دکشت کے بیٹے اور مشرقی دہلی لوک سبھا سیٹ سے دو بار کانگریس کے رکن پارلیمنٹ سندیپ دکشت نے کہا ’کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ یہ قدم رات کو اٹھا رہے ہیں؟ رات 9 بجے سے صبح 9 بجے کے درمیان کیا پہاڑ گر جائے گا؟‘

https://twitter.com/MehboobaMufti/status/1770861914349785525?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1770861914349785525%7Ctwgr%5E2df18f3429e75c8c55622d62d7f8c2a215d4a643%7Ctwcon%5Es1_&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.bbc.com%2Fhindi%2Flive%2Findia-68633822

کیجریوال کا دلچسپ سیاسی سفر

کیجریوال، ایک انڈین ریونیو سروس کے افسر اور آئی آئی ٹی کے طالب علم نے سنہ2011 کی انسداد بدعنوانی تحریک کے ذریعے سیاسی میدان تیار کیا تھا۔

سنہ 2002 کے ابتدائی مہینوں میں کیجریوال نے انڈین ریونیو سروس سے چھٹی لے کر دہلی کے سندر نگری علاقے میں سرگرمیاں شروع کر دیں تھیں۔

یہیں پر کیجریوال نے ایک غیر سرکاری تنظیم قائم کی جس کا نام ’پریورتن‘ تھا۔

ان کی پہلی بڑی پہچان سنہ 2006 میں اس وقت ہوئی جب انہیں 'ایمرجنگ لیڈرشپ' کے لیے رامون میگسیسے ایوارڈ دیا گیا۔

سنہ 2010 میں دہلی میں منعقدہ کامن ویلتھ گیمز کے انعقاد میں مبینہ گھپلے کی خبریں میڈیا میں آنے کے بعد لوگوں میں بدعنوانی کے خلاف غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔ سوشل میڈیا پر انڈیا اگینسٹ کرپشن مہم شروع ہوئی اور کیجریوال اس کا چہرہ بن گئے۔

کجریوال نے اپنا پہلا بڑا احتجاج جولائی 2012 میں جنتر منتر پر 'انا ہزارے کی رہنمائی میں' شروع کیا۔

26 نومبر 2012 کو کیجریوال نے اپنی پارٹی کے قیام کا باقاعدہ اعلان کیا۔

کیجریوال نے کہا کہ ان کی پارٹی میں کوئی ہائی کمان نہیں ہوگا اور وہ عوامی پیسوں سے عوامی مسائل پر الیکشن لڑیں گے۔

جب کجریوال نے سیاست کا راستہ چنا تو ان کے گرو انا ہزارے نے بھی کہا کہ وہ اقتدار کی راہ پر چل پڑے ہیں۔

ابتدائی دنوں میں اروند کو جو کچھ مل رہا تھا، وہ اسے پارٹی سے جوڑ رہے تھے۔ ان کی یہی تنظیمی صلاحیت بعد میں ان کی سب سے بڑی طاقت بن گئی۔ کیجریوال نے ایسے رضاکاروں کو بھرتی کیا جو بھوکے رہتے ہوئے بھی ان کے لیے کام کرنے کے لیے تیار تھے۔ لاٹھیاں کھانے کے لیے تیار تھے۔

ان رضاکاروں کے زور پر کیجریوال نے 2013 میں دہلی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ سیاست میں قدم رکھنے والی ان کی پارٹی نے 28 نشستیں حاصل کیں۔

خود کجریوال نے نئی دہلی سیٹ سے اس وقت کی وزیر اعلیٰ شیلا دکشت کو پچیس ہزار سے زیادہ ووٹوں سے شکست دی۔ لیکن انہیں شیلا دکشت کی کانگریس پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانا پڑی۔

کیجریوال جنالکوپال بل کو جلد از جلد پاس کروانا چاہتے تھے۔ لیکن مخلوط حکومت میں شراکت دار کانگریس تیار نہیں تھی۔ بالآخر 14 فروری 2014 کو کیجریوال نے دہلی کے وزیراعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور دوبارہ سڑکوں پر آگئے۔

لوک سبھا کے انتخابات چند ماہ بعد ہی ہونے تھے۔ کیجریوال بنارس پہنچے لیکن بنارس میں کیجریوال تین لاکھ ستر ہزار سے زیادہ ووٹوں سے ہار گئے۔

لیکن اگلے ہی سال، کیجریوال نے دہلی کے اسمبلی انتخابات میں 70 میں سے 67 ووٹ حاصل کرکے تاریخ رقم کی اور 14 فروری 2015 کو دوبارہ دہلی کے وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لیا۔

اس دوران قومی سیاست میں عام آدمی پارٹی کا قد بڑھ گیا ہے اور اس کے ساتھ کیجریوال کا بھی۔

پنجاب میں ان کی حکومت ہے۔ دہلی کے ایم سی ڈی انتخابات میں جہاں پارٹی کو اکثریت ملی، وہیں یوپی کے میونسپل انتخابات میں پارٹی کے تقریباً 100 امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔

گجرات اسمبلی انتخابات میں بھی ان کی پارٹی کو گذشتہ بار نصف درجن سے زیادہ سیٹوں پر کامیابی ملی تھی اور اس کے امیدواروں کو کئی جگہوں پر اچھی حمایت ملی تھی۔

گذشتہ سال ہی الیکشن کمیشن نے عام آدمی پارٹی کو قومی پارٹی کا درجہ دیا تھا۔

انڈیا اتحاد میں شامل ہو کر، عام آدمی پارٹی اب قومی سطح پر اپنا قد بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔

 اروند کیجریوال
Getty Images

News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.