کباب بنانے اور چوکیدار کی نوکری سے ایوارڈ یافتہ ماہرِ نفسیات بننے کا سفر: ’میرے پاس رہنے کی جگہ بھی نہیں تھی‘

پروفیسر ہانکر اپنی شناخت ایسے شخص کے طور کرتے ہیں جن کو ذہنی مسائل کا سامنا ہے لیکن انھوں نے اس کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے

آج سے اٹھارہ سال پہلے، پروفیسر احمد ہانکر بے گھر تھے اور ان کو کئی ذہنی مسائل کا بھی سامنا تھا لیکن آج وہ ایک ایوارڈ یافتہ ماہرِ نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا کے صوبے اونٹاریو میں کام کرتے ہیں۔ وہ اعزازی حیثیت میں برطانیہ کی کارڈف یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی ہیں۔

سوشل میڈیا پر ان کے ہزاروں فالوورز ہیں جن سے وہ ذہنی مسائل کے ساتھ زندگی گزارنے کے اپنے ذاتی تجربات شیئر کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ لوگوں سے اپنے تجربات کا اشتراک کرنے سے سکون کا احساس ہوتا ہے۔

پروفیسر ہانکر کہتے ہیں اگر آپ اپنے تجربات لوگوں سے بانٹتے ہیں تو اس سے آپ دوسروں کی تنہائی اور ان کی شرمندگی کا احساس کم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔

پروفیسر ہانکر بیلفاسٹ میں پیدا ہوئے جبکہ ان کی پرورش ڈبلن اور انگلینڈ میں ہوئی۔ 12 سال کی عمر میں وہ لبنان چلے گئے۔

1996 میں قنا کے محاصرے کے دوران وہ لبنان میں تھے۔ اس محاصرے کے دوران 100 سے زیادہ افراد ہلاک جبکہ تقریباً اتنے ہی افراد زخمی بھی ہوئے تھے- یہ ایک تکلیف دہ واقعہ تھا جس نے ان کے ذہن پر ان مٹ نقوش چھوڑے۔

انھیں آج بھی وہ منظر یاد ہے جب انھوں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کا گھر ملبے کا ڈھیر بن گیا تھا اور خاندان کے سارے افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

’وہ شخص اپنے بچے کی لاش کو ہاتھوں میں اٹھائے ہوا تھا۔‘

’مجھے یاد ہے کہ وہ شخص کیسے رو رہا تھا۔ یہ یادیں مجھے اب بھی پریشان کرتی ہیں۔‘

جب ہانکر 17 سال کے تھے تو اپنے والدین کو چھوڑ کر برطانیہ واپس آ گئے۔ ان کے جڑواں بھائی بھی ان کے ساتھ تھے۔

پروفیسر ہانکر کے میڈیکل کی تعلیم کا خواب اس وقت چکنا چور ہو گیا جب انھیں احساس ہوا کہ لبنان میں حاصل کردہ ان کی قابلیت پر انھیں برطانیہ کی یونیورسٹی میں داخلہ نہیں مل سکتا۔

اس کے علاوہ انھیں یہ بھی معلوم پڑا کہ برطانیہ میں بین الاقوامی طالب علم ہونے کہ وجہ سے ان کی یونیورسٹی کی ٹیوشن فیس مقامی طالب علموں کی نسبت کہیں زیادہ ہو گی۔

اس کے بعد انھوں نے کباب وین میں کام کرنا شروع کر دیا لیکن یہاں بھی ان کے سامنے ایک اور تکلیف دہ واقعہ پیش آیا جب کچھ افراد نے ان کے سامنے ایک نوجوان کو مار مار کر ہلاک کر دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’وہ لوگ وین سے محض 20 میٹر دور تھے، یہ بہت دردناک تجربہ تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ کسی نے مداخلت نہیں کی، کسی نے کچھ نہیں کیا، سب لوگ تماشائی بنے دیکھتے رہے جب تک پولیس نہ آگئی۔

اس موقع پر، ان کو لگا کہ وہ اپنی زندگی میں جو کچھ حاصل کرنا چاہتے تھے وہ ان کی پہنچ سے بہت دور ہے۔

’میں ڈاکٹر بننا چاہتا تھا اور میں یہاں کباب بنا رہا تھا، میرے سامنے ایک قتل ہو گیا اور لوگ مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ کیا میں انگریزی بول سکتا ہوں؟‘

اس کے بعد انھوں نے صبح کے اوقات میں چوکیدار کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا جبکہ رات کو ایک دکان پر کام کرتے۔ وہ ہفتے میں 70 گھنٹے تک کم از کم اجرت پر کام کرتے تھے۔

اس کے اگلے سال انھوں کالج میں داخلہ لیا لیکن ساتھ کام کرنا جاری رکھا۔

یہ بھی پڑھیے

پروفیسر ہانکر کہتے ہیں کہ جب انھوں نے کالج کے عملے کے ایک رکن کو بتایا کہ وہ ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں تو وہ ان پر ہنسنے لگے۔

’اس نے مجھے ایسا محسوس کروایا جیسے میں کسی بہت عظیم منزل کے فریب میں مبتلا ایک معمولی سا تارکینِ وطن ہوں۔‘

پروفیسر کہتے ہیں کہ عملے کی رکن باقاعدہ ہنسیں اور بولیں کہ آپ کا میڈیکل سکول میں داخلہ بہت مشکل ہے، بہتر ہوگا کسی اور کورس کا انتخاب کر لیں۔

بالآخر ان کو مانچسٹر کے میڈیکل سکول میں داخلہ مل گیا لیکن ان کو اپنے والدین کی بہت یاد آتی تھی اور انھیں پڑھائی میں توازن قائم کرنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔

اس کے بعد، ان کو ماضی کے واقعات یاد آنے شروع ہو گئے اور بالآخر وہ بریکنگ پوائنٹ پر پہنچ گئے۔

اس وقت کو یاد کرتے ہوئے پروفیسر ہانکر کہتے ہیں کہ ان کا مسلسل طور پر موڈ خراب رہنے لگا اور ناامیدی اور بے وقعتی کا احساس پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا۔ وہ کسی چیز پر توجہ مرکوز نہیں کر پاتے تھے۔

’آپ بستر سے باہر بھی نہیں نکل پاتے، آپ کو کسی چیز کی خواہش نہیں رہتی اور آپ کو خود کشی کے خیالات آنے لگتے ہیں۔ میری حالت واقعی بہت بری تھی لیکن میں نفسیاتی ہسپتال میں داخل کیے جانے سے گھبراتا تھا۔‘

وہ کسی سے مدد بھی نہیں لے پا رہے تھے۔

پروفیسر ہانکر کہتے ہیں کہ ذہنی صحت اور دماغی بیماری کے بارے میں ان کے تصورات ان کے ثقافتی پس منظر سے متاثر تھے۔ ’مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں ہم ذہنی صحت کے بارے میں بات نہیں کرتے، یہ ایک ممنوعہ موضوع ہے۔‘

2006 میں انھوں نے میڈیکل سکول بھی چھوڑ دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میں غریب تھا اور میرے پاس رہنے کی جگہ بھی نہیں تھی۔‘

وہ کبھی کبھار ایک دوست کے صوفے پر سو جاتے تھا اور کچھ وقت کے لیے ایک فلیٹ پر رہے جہاں ایک دن انھوں نے اپنے ایک فلیٹ میٹ کو منشیات کی زیادتی کی وجہ سے مردہ پایا۔

’یہ یکے بعد دیگرے ملنے والے صدموں کی طرح تھا۔‘

آخر کار انھوں نے مدد حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ایک ماہرِ نفسیات کے زیرِ علاج تھے اور رفتہ رفتہ وہ یونیورسٹی واپس جانے کے قابل ہو گئے۔

’یہ بحالی کی جانب ایک سست اور تکلیف دہ عمل تھا۔‘

اب پروفیسر ہانکر اپنی شناخت ایسے شخص کے طور کرتے ہیں جن کو ذہنی مسائل کا سامنا ہے لیکن انھوں نے اس کے ساتھ جینا سیکھ لیا۔

گزشتہ سال انھیں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ لیڈرز ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

اسی سال انھیں ’کیرولین فلیک مینٹل ہیلتھ ہیرو‘ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ ایوارڈ ایسے افراد کو دیا جاتا ہے جو ذہنی مسائل کے ساتھ اپنی جدوجہد کو لوگوں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔

پروفیسر ہانکر کہتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انھوں نے اپنی ذہنی صحت کا خیال نہیں رکھا تو انھیں دوبارہ مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اپریل میں ان کی کتاب شائع ہو گی۔ پروفیسر ہانکر کے خیال میں دماغی صحت سے جڑی شرم کو ختم کرنے کا واحد طریقہ اس کے متعلق بات کرنا ہے۔

وہ امید کرتے ہیں کہ دیگر نفسیاتی ماہرین بھی ذہنی صحت کے بارے میں اپنے ذاتی تجربات کا اشتراک کریں گے۔

’ذہنی مسائل کے شکار نفسیاتی ماہرین کو شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے، انھیں اپنے تجربات کے بارے میں ایماندار، کھلے اور شفاف طریقے سے بات کرتے ہوئے خود کو بااختیار محسوس کرنا چاہیے۔‘

پروفیسر ہانکر کہتے ہیں کہ جب آپ لوگوں سے سے اپنے تجربات بانٹتے ہیں تواس سے انھیں ہمت ملتی ہے کہ وہ اس مشکل میں اکیلے نہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.