ہولی: گائے کے پیشاب سے بننے والا پیلا رنگ جو ہندوستان سے پوری دنیا میں پھیل گیا

نایاب نیلے معدنیات، حنوط شدہ لاشوں کے باقیات اور گائے کا پیشاب۔ یہ تینوں چیزیں ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں مگر ایک زمانے میں انھی تینوں کی مدد سے مختلف رنگ بنائے جاتے تھے۔

نایاب نیلے معدنیات، حنوط شدہ لاشوں کے باقیات اور گائے کا پیشاب۔ یہ تینوں چیزیں ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں مگر ایک زمانے میں انھی تینوں کی مدد سے مختلف رنگ بنائے جاتے تھے۔

یہ ماننا مشکل ہے کہ دنیا کی بعض مشہور پینٹنگز کو انھی عجیب رنگوں سے بنایا گیا۔

پرانے وقتوں میں رنگ بنانا اتنا آسان نہیں تھا جتنا آج ہے۔ اس وقت مصنوعی طور پر رنگ بنانے کی کوئی ٹیکنالوجی موجود نہیں تھی مگر اس وقت بھی رنگ لوگوں کے زیرِ استعمال رہتے تھے۔

اجنتا کے غاروں کی قدیم آرٹ، مغل دور کی مصوری اور قدیم یورپی پینٹنگز، سبھی میں رنگوں کا استعمال کیا گیا۔

مگر یہ جاننا دلچسپ ہے کہ اُس دور میں یہ رنگ کیسے بنائے گئے تھے۔

ہندوستانی پیلا رنگ جو گائیں کے پیشاب سے بنتا ہے

’انڈین ییلو‘ نامی اس خاص رنگ کو سنہری پینٹگز میں استعمال کیا جاتا تھا۔ اس رنگ کا استعمال 15ویں صدی میں شروع ہوا اور وہاں سے وہ یورپ پہنچ گیا۔

مغل دور کی کئی پینٹنگز میں یہ رنگ پایا جاتا ہے۔ یورپ میں دیواروں پر مصوری، آئل پینٹنگز اور واٹر کلرز میں بھی یہ رنگ شامل ہے۔

معروف مصور وین گوف کی پینٹنگ (دی سٹاری نائٹ) میں پیلا چاند اور انگلش مصور ٹرنر کی پینٹنگ میں سورج کی کرنیں ’انڈین ییلو‘ نامی رنگ کی وجہ سے ہی ایسی دکھائی دیتی ہیں۔

مگر یہ رنگ وجود میں کیسے آیا؟ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسے گائے کے پیشاب سے بنایا جاتا تھا مگر گائے کا پیشاب عام طور پر اس مقصد کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔

یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ گائے کو بھوکا رکھا جاتا تھا اور صرف آم کے پتے کھلائے جاتے تھے تاکہ اس کا پیشاب زرد رنگ کا ہو۔

گائے کا پیشاب جمع کر کے اسے ابالا جاتا تھا، پھر فلٹر اور خشک کرنے کے بعد اس کے حصے بنتے تھے۔ پینٹر اسے پانی یا تیل کے ساتھ ملا کر اپنی مصوری میں استعمال کرتے تھے۔

اس رنگ کو بنانے کے طریقۂ کار پر ایک رپورٹ 1883 میں لندن کی سوسائٹی آف آرٹس میں پیش کی گئی تھی۔

رپورٹ کے مصنف تریلوکناتھ موکھوپادھیے منگر (موجودہ بہار) گئے جہاں انھوں نے رنگ بنانے کے طریقے پر تحقیق کی۔ اس دوران انھوں نے گائے کے ساتھ ظلم کی بھی تفصیلات لکھیں۔

1908 میں اس رنگ پر پابندی عائد ہوئی جس کے بعد جدید کیمیکلز سے تیار کردہ پیلا رنگ استعمال کیا جانے لگا۔

یہ بھی پڑھیے

اجنتا کے غاروں کی تصاویر

اجنتا کی آئل پینٹنگز سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان میں قدیم وقتوں میں بھی مصوری کی جاتی تھی۔ ان پینٹنگز میں سرخ اور پیلا رنگ واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ انھیں سرخ زرد رنگ، لال گیرو (اوچر) اور پیلے گیرو سے بنایا جاتا تھا۔

دیوالی پر رنگولی بنانے سے قبل گیرو سے بنائے گئے رنگوں کو زمین پر پھیلا دیا جاتا ہے۔ دراصل گیرو سرخ اور پیلی پٹی کا نام ہے جس میں آئرن آکسائیڈ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ آئرن اور دیگر معدنیات کی مقدار کے مطابق اس کا رنگ الگ ہوسکتا ہے۔

بعض محققین کے مطابق گیرو انسانوں کی طرف سے استعمال کیے جانے والے پہلے رنگ تھے چونکہ اسے غاروں میں کی جانے والی مصوری میں پایا گیا لہذا اس کی تاریخ قریب ایک لاکھ سال پرانی ہے۔

آج بھی بعض قبائلی علاقوں میں لوگ اسے جسم پر لگاتے ہیں۔

سنگ لاجورد کا نیلا رنگ

اجنتا کے غاروں کی مصوری میں نیلے سمندر جیسا رنگ بھی پایا جاتا ہے۔ اس بلیو شیڈ کو آج الٹرا میرین کہا جاتا ہے مگر اس کا تعلق افغانستان سے ہے۔

افغانستان کے شمالی حصے کی کانوں میں سنگ لاجورد نامی معدنیات پائے جاتے ہیں۔

اسے وادی سندھ کی تہذیب میں ہڑپہ کے لوگ استعمال کرتے ہیں جبکہ اس سے بنے موتی بین النہرین (میزوپوٹیمیا) میں بھی پائے گئے ہیں۔

قدم مصری دریائے نیل کی وجہ سے نیلے رنگ کو پسند کرتے تھے مگر وہ اس رنگ کا دور سے لانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔

اس لیے مصری فنکاروں نے سیلیکا، لائم، کاپر اور الکلی کا استعمال کر کے کیمیکل رنگ بنائے۔ مصریوں کے اس رنگ کو دنیا کے پہلے کیمیکل پگمنٹس میں شمار کیا جاتا ہے۔

چین میں بیریئم، کاپر اور سیلیکیٹ پگمنٹس استعمال کر کے نیلے اور جامنی رنگ بنائے جاتے تھے جنھیں ہان بلیو اور ہان پرپل کہا جاتا تھا۔

ہندوستان میں نیلے رنگ کے کپڑے بنانے میں نیل استعمال ہوتا تھا مگر سنگ لاجورد کا رنگ زیادہ پُرکشش تھا۔ اس لیے نیلے معدنیات کو پگھلی ہوئی ویکس، تیل اور صنوبر کی گوند کے ساتھ ملا کر پگمنٹ بنایا جانے لگا۔

یہ معدنیات بہت نایاب تھے ور صرف افغانستان میں پائے جاتے تھے۔ اسی لیے مغرب میں نیلا رنگ اتنا استعمال نہیں کیا جا سکا تھا۔ کچھ زبانوں میں نیلے رنگ کے لیے کوئی لفظ بھی نہیں تھا۔

مگر ہزار سال قبل عرب تاجر سنگ لاجورد کو یورپ لے گئے جس نے منظرنامہ بدل دیا۔ اس وقت یہ یورپ میں سونے سے بھی مہنگا تھا اور اس کا استعمال صرف کچھ جگہوں تک محدود رہا۔

اس رنگ کو شاہی خاندان کی اہم شخصیات، حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم کی پینٹنگز میں استعمال کیا جاتا تھا۔

مائیکل اینجلو اور رافیل جیسے فنکار اسے خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ ڈچ آرٹسٹ جوہانس ویمیئر نے کھل کر یہ رنگ استعمال کیا اور اس کے قرض میں دب کر رہ گئیں۔

کیمیکل بلیو رنگ 19ویں صدی سے استعمال ہونا شروع ہوا مگر آج بھی سنگ لاجورد کو پسند کیا جاتا ہے۔

شنگرفی کا لال رنگ

پارہ کی قسم شنگرف کو یوں تو زہریلا سمجھا جاتا ہے مگر اس سے نارنجی مائل سرخ یا قرمزی رنگ حاصل ہوتا ہے۔

آتش فشاں سے جڑے ان معدنیات کو قدیم وقتوں میں سُرخ رنگ بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس رنگ کو سندوری سرخ بھی کہتے ہیں۔

چین، انڈیا اور مایا (میکسیکو-امریکن) تہذیبوں کے لوگ اسی طریقے سے اس رنگ کو بناتے تھے۔

حنوط شدہ لاشوں سے براؤن رنگ کا حصول

16ویں اور 17ویں صدی کے دوران مصر میں حنوط شدہ لاشوں (ممی) سے حاصل ہونے والا براؤن پگمنٹ مقبول ہوا۔

آرٹ کی محقق وکٹوریا فنلے نے اپنی کتاب میں بھی اس حوالے سے بتایا ہے۔

چونکہ یہ رنگ کچھ حد تک جھلک دار ہے، اس لیے پینٹنگز میں انسانی رنگ اور سائے بنانے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا ہے۔

اس براؤن رنگ کو قدیم دور کی حنوط شدہ لاشوں کے باقیات سے بنایا جاتا تھا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.