دولت کی عظیم منتقلی جو نوجوانوں کو ’کچھ کیے بغیر‘ ارب پتی بنا رہی ہے

سنہ 2009 کے بعد 30 سال سے کم عمر کے تمام ارب پتی نوجوانوں کو یہ بہت بڑی دولت وراثت میں ملی ہے۔ اس اشاعت میں 33 سال یا اس سے کم عمر کے 25 ارب پتیوں میں سے صرف سات نے اپنی دولت خود بنائی ہے۔
dollar
Getty Images

فوربز میگزین کی طرف سے حال ہی میں شائع کی گئی دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں ایک انوکھا رجحان سامنے آیا ہے اور وہ یہ کہ اس فہرست میں بہت سے نامعلوم نوجوان چہرے سامنے آئے ہیں۔

ان میں سے بہت سے نوجوانوں نے تو ابھی کوئی کام شروع بھی نہیں کیا اور نہ ہی اپنے کریئر کا انتخاب کیا ہے۔ مگر پھر بھی وہ امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔

سنہ 2009 کے بعد 30 سال سے کم عمر کے تمام ارب پتی نوجوانوں کو یہ بہت بڑی دولت وراثت میں ملی ہے۔ اس اشاعت میں 33 سال یا اس سے کم عمر کے 25 ارب پتیوں میں سے صرف سات نے اپنی دولت خود بنائی ہے۔

فوربز کی درجہ بندی میں نوجوان ورثا کی بڑے پیمانے پر موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ عالمی مالیات کی دنیا میں ایک طویل عرصے سے متوقع رجحان جاری ہے اور یہ کہ بھاری مقدار میں دولت کی اگلی نسل کو منتقلی ہونے جا رہی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق سنہ 2029 کے آخر تک 8.8 ٹریلین امریکی ڈالر سے زیادہ موجودہ ارب پتیوں سے ان کے نوجوان جانشینوں کو منتقل ہو جائیں گے۔

سوئس بینک یو بی ایس میں سٹیٹ پلاننگ ٹیم کے مینیجر وکیل یوری فریٹاس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم صرف دولت ہی کے بارے میں نہیں بلکہ کمپنیوں کے بارے میں بھی بات کر رہے ہیں۔‘

اس شعبے میں 15 برس تجربہ رکھنے والے یوری فریٹاس اس نئے بات سے متفق ہیں کہ عالمی دولت کی اگلی نسل کو منتقلی تیز رفتاری سے جاری ہے اور دنیا کے ارب پتی ہر عمر میں اپنی دولت اگلی نسل کو منتقل کر رہے ہیں۔

ارب پتی
Getty Images

نسلوں کا تصادم

اس رجحان پر گہری نظر رکھنے والے ’دی 100 ٹریلین ڈالر ویلتھ ٹرانسفر‘ کے مصنف کین کوسٹا کے خیال میں ’اس سے پہلے کبھی بھی اتنی بڑی دولت۔۔۔ رئیل سٹیٹ، لینڈ، سٹاک اور شیئرز۔۔۔ اتنے جلدی دوسری نسل کو منتقل نہیں ہوئی ہے۔‘

جنوبی افریقہ کے بینکر اور مخیر حضرات نے گذشتہ سال شائع ہونے والے ایک مضمون میں وضاحت کی کہ ’اس سے پہلے اگلی نسل نے اپنے پیشروؤں کے مقابلے میں کرۂ ارض کے مستقبل اور سرمایہ داری نظام کے بارے میں اتنے مختلف تصورات کا تجربہ نہیں کیا۔

---

وہ افراد جو 1946 سے 1965 کے عرصے میں پیدا ہوئےیعنی بومرز تیزی سے امیر ہونے کی بے لگام دوڑ کا حصہ بنے۔ کین کوسٹا کے خیال میں ’ان افراد نے اپنے تکبر اور تبدیلی کے خلاف مزاحمت کی وجہ سے حالات کو مزید خراب کیا۔‘

سنہ 1981 اور سنہ 1996 کے درمیان پیدا ہونے والے افراد کے لیے ’زلینیئلز‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور سنہ 1997 اور 2013 کے درمیان پیدا ہونے والی نسل جسے جنریشن زیڈ قرار دیا گیا ہے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو سرمائے، طاقت اور اثر و رسوخ کے وارث ہوں گے اور ٹیکنالوجی وہ آلہ ہو گا جس سے وہ اپنے فلسفے کو نافذ کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔‘

ان کے مطابق ’اس حادثے سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے اور درحقیقت، دولت کی منتقلی پہلے ہی شروع ہو چکی ہے اور تیزی سے اس میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ سب علیحدہ سے رونما نہیں ہو گا۔ یہ معیشت، ٹیکنالوجی اور ثقافت پر اثرات مرتب کرے گا۔ ان تبدیلیوں کا انحصار نئی نسل پر ہے۔‘

کین کوسٹا کا کہنا ہے کہ ’مجھے امید ہے کہ وہ ایک مستحکم اور خوشحال مالی مستقبل حاصل کریں گے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ضروری ہے کہ ہم ’بومرز‘ ایسا کرنے میں مدد کریں۔‘

پیسہ
Getty Images

عدم مساوات کی علامت

آنے والی دہائیوں میں متوقع نوجوان ارب پتی ورثا کی یہ نئی لہر تاریخ کے ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب چند خاندانوں کے ہاتھوں میں آمدنی کا ارتکاز دنیا کی اکثریت کی زندگی کو بدتر بنا رہا ہے۔

اس سال کے شروع میں آکسفیم کی طرف سے شائع ہونے والی عدم مساوات کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2020 کے بعد دنیا کے پانچ سب سے بڑے ارب پتیوں کی دولت میں دوگنا اضافہ ہوا ہے، جبکہ اسی عرصے میں دنیا کی 60 فیصد آبادی یعنی تقریباً پانچ ارب افراد کی دولت میں کمی آئی ہے۔

جب کہ دنیا کی دس بڑی کمپنیوں میں سے سات میں ارب پتی بطور سی ای او یا بڑے شیئر ہولڈرز ہیں، دنیا کی 1,600 سے زیادہ بڑی اور بااثر کمپنیوں میں سے صرف 0.4 فیصد نے اپنے کارکنوں کو معقول اجرت دینے کا عوامی طور پر عہد کیا ہے۔

اس طرح کی آمدنی کی عدم مساوات کا اثر بہت زیادہ ہے۔

دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ’2020 کی دہائی، جس کا آغاز کورونا وائرس کی وبائی مرض سے ہوا اور اس کے بعد تنازعات میں اضافہ، آب و ہوا کے بحران میں تیزی اور زندگی کی بڑھتی ہوئی لاگت۔۔۔ یوں یہ تقسیم کی دہائی بنتی دکھائی دے رہی ہے۔‘

اس رپورٹ کے متن میں متنبہ کیا گیا ہے کہ ’کم آمدنی والے ممالک میں غربت سنہ 2019 کے مقابلے میں بھی زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں قیمتیں اجرتوں سے زیادہ ہیں اور کروڑوں لوگ مشکلات کا شکار ہیں۔‘

برازیلی انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس کے اپلائیڈ اکنامکس کے شعبے کے محقق ڈینیئل ڈیوک بتاتے ہیں کہ اپنے ورثے کو آنے والی نسلوں تک پہنچانے کی انتہائی امیروں کی یہ کوشش حالیہ اقدامات کا ردعمل ہو سکتی ہے۔ کئی ممالک ارب پتیوں کے لیے کئی دہائیوں کی فراخ دلی کے بعد اب مزید ترقی پسند ٹیکس ماڈلز پر بحث کریں گے۔

عدم مساوات
Getty Images

نوجوان ورثا کا کیا خیال ہے؟

کسی بھی نسلی بحث کی طرح تمام شعبوں کے پیشہ ور افراد نے ان نوجوان وارثوں کے رویے اور کاروباری دنیا میں ان کی وجہ سے ہونے والی تبدیلیوں کا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے۔

خاص طور پر بینک، جو ان صارفین کو کھونے کا خطرہ رکھتے ہیں جن کی دولت انھوں نے دہائیوں سے بنانے اور شیئر کرنے میں مدد کی ہے۔

ارب پتیوں کی نئی نسل سماجی طور پر زیادہ جڑی ہوئی ہے، زیادہ ڈیجیٹل ہے اور کم از کم اپنی باتوں میں اپنے والدین سے زیادہ اس بات کی پرواہ کرتی ہے کہ ان کی سرمایہ کاری سے کرہ ارض پر موسمی اور سماجی دونوں طرح کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

80 اور 90 کی دہائی میں پیدا ہونے والوں میں سے 17 فیصد کا کہنا ہے کہ وہ ایسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں جو اعلیٰ معیار کے ای ایس جی (ماحولیاتی، سماجی اور گورننس) کے طریقوں کو اپناتی ہیں، جبکہ دیگر جنریشن میں یہ شرح محض نو فیصد ہے۔

برابری
Getty Images

کیا ہم ارب پتیوں سے دنیا کے لیے مثبت تبدیلیوں کی توقع کر سکتے ہیں جو کہ چند خاندانوں کے ہاتھوں میں آمدنی کے بے پناہ ارتکاز سے دیگر مسائل کا شکار ہے؟

یو بی ایس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ ارب پتی تاجروں کے کئی اعلیٰ درجے کے کیسز ہیں جو اپنی دولت کا ایک بڑا حصہ انسان دوستی کے لیے عطیہ کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں مگر یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ ان کے ورثا اس پر صحیح عملدرآمد کریں گے یا نہیں۔

’جبکہ پہلی نسل کے ارب پتیوں میں سے دو تہائی سے زیادہ یعنی 68 فیصد نے کہا کہ اپنے انسان دوستی کے اہداف کو حاصل کرنا اور دنیا پر اس کا مثبت اثر ڈالنا ان کی میراث کا بنیادی ہدف تھا مگر ورثا میں سے ایک تہائی سے بھی کم یعنی 32 فیصد نے اس طرح کی نیت ظاہر کی ہے۔

یو بی ایس کے تجربے میں جانشین نسلیں اکثر اس رقم کو عطیہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوتی ہیں جو انھوں نے کمایا ہی نہیں ہے اور بعض صورتوں میں بس پہلے سے ہی موجود خاندانی فاؤنڈیشن کی حد تک ہی خرچ کر سکتے ہیں۔

تاہم ماحولیاتی اور سماجی امور پر بھی خرچ کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اب یہ تجارتی مقاصد کے لیے بھی خرچ ہو سکتا ہے اور خیراتی مقاصد سے بھی۔

یہ خبر بی بی سی نیوز برازیل کے لیے لیگیا گیمارئیس کی رپورٹ پر مبنی ہے


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.