کراچی کو بلوچستان سے ملانے والے راستوں پر باڑ کیوں لگائی جا رہی ہے؟

image

کراچی میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کی جانب سے شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر نگرانی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ایپکس کمیٹی نے سندھ اور بلوچستان کو ملانے والے ناردرن بائی پاس پر فینسنگ (باڑ) لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔حکومت کے اس فیصلے کے بعد کراچی کے داخلی اور خارجی راستوں پر برسوں سے آباد گاؤں اور گوٹھ کے رہائشی حکومت کے اس فیصلے کو ناقابل عمل قرار دے رہے ہیں۔

کراچی گڈاپ کے رہائشی کریم بلوہی کا کہنا ہے کہ نادرن بائی پاس کے اطراف میں کئی گوٹھ برسوں سے آباد ہیں، یہاں مختلف قومیں رہتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امن و امان کی خراب صورت حال کا سب سے زیادہ نقصان ان علاقوں میں رہنے والوں کا ہوا ہے۔ یہاں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔’کچھ عرصے سے حالات بہتر ہوئے ہیں تو یہاں کچھ ہوٹل اور دکانیں کھلی ہیں جس سے یہاں رہنے والوں کے روزگار کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ اب اگر یہاں فینسنگ ہو جاتی ہے تو اس علاقے کی رونقیں ماند پڑ جائیں گی اور یہاں بسنے والوں کو ایک بار پھر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘ناردرن بائی حب ریور روڈ کے رہائشی شعیب خان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے ناردرن بائی پاس پر باڑ لگانے کی بات سامنے آئی ہے۔ ’اس حوالے سے ابھی بہت سی باتیں سامنے آنی ہیں، اگر یہ عمل یہاں رہنے والوں کو اعتماد میں لے کر کیا جائے گا تو یہ منصوبہ یہاں کے رہائشیوں کے لیے گیم چینجر ہوگا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’امن و امان کی صورت حال بہتر ہوگی تو لوگ بے خوف ہو کر اس علاقے کا سفر کریں گے، اس سے یہاں کاروبار بڑھے گا اور لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی میسر آئیں گے۔‘’ان علاقوں میں بسنے والوں کے آباؤاجداد کی قبریں یہاں موجود ہیں، ایک ہی خاندان کے لوگ ناردرن بائی پاس کے دونوں اطراف آباد ہیں۔ ان کے حوالے سے بھی حکومت کو سوچنا ہوگا۔‘واضح رہے کہ دو روز قبل کراچی میں صدر آصف علی زرداری کی سربراہی میں امن و امان کے حوالے سے اہم اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں سمیت دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی۔

پولیس کی جانب سے مجرموں کے تعاقب کے دوران صوبوں کی حدود کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اجلاس میں امن و امان کے موجودہ صورت حال پر آئی جی سندھ نے بریفنگ دی اور آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے سفارشات بھی پیش کیں۔پولیس کی جانب سے دیے گئے پروگرام میں شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر مانیٹرنگ کے نظام کو مزید موثر بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ اس اجلاس میں سندھ اور بلوچستان کو ملانے والے ناردرن بائی پاس پر باڑ لگانے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر جدید کیمرے (جن میں چہرہ شناخت کرنے کی صلاحیت موجود ہو) نصب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر سکیورٹی بڑھانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟سندھ پولیس کے مطابق شہر کے داخلی راستے بالخصوص گڈاپ، ملیر اور ناردرن بائی پاس پر گذشتہ کئی ماہ سے لُوٹ مار اور جرائم کی دیگر وارداتوں میں ہوشربا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ان راستوں پر سفر کرنے والے شہریوں سے ناصرف لُوٹ مار کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں بلکہ پولیس کی جانب سے مجرموں کے تعاقب کے دوران صوبوں کی حدود کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے۔رواں سال کے ابتدائی مہینوں کے دوران کراچی کے علاقے کورنگی سے شاہ نورانی درگاہ جانے والی کئی کوسٹرز میں سوار شہریوں کو لُوٹا گیا۔ 

 کراچی سے چھینی اور چوری کی گئی موٹرسائیکلیں بلوچستان میں فروخت کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے (فائل فوٹو: اے پی پی)

کوسٹرز کے پیچھے چلنے والی ایک ہائی رُوف گاڑی کو بھی مسلح ملزمان نے اسلحے کے زور پر روک کر مسافروں سے لُوٹ مار کی تھی۔ مسلح ملزمان فرار ہوتے وقت تمام افراد کو ہائی رُوف سے اُتار کر گاڑی بھی ساتھ لے گئے۔ متاثرہ شہری کی جانب سے اس واقعے کی اطلاع پولیس کو دی گئی۔ اس کے بعد پولیس نے مٹی اور کیچڑ میں گاڑی کے ٹائروں کے نشانات سے ملزمان کا پیچھا کیا تو معلوم ہوا کہ مسلح ملزمان بلوچستان سے سندھ میں داخل ہوئے تھے اور واردات کرکے واپس اُسی علاقے میں چلے گئے۔دوسرے واقعے میں سندھ پولیس کے مطابق کراچی سے چھینی اور چوری کی جانے والی موٹرسائیکلیں اور دیگر سامان بلوچستان میں فروخت کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔اینٹی کار لفٹنگ سیل کراچی کی جانب سے رواں ہفتے جاری کی گئی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ شہر میں چوری اور چھینی گئی موٹرسائیکلیں بلوچستان کے علاقے اوتھل میں فروخت کی جا رہی ہیں۔’شہر سے چوری اور چھینی گئی اکثر موٹرسائیکلیں بلوچستان بھیجنے والے گروہ کے کارندے گرفتار کیے گئے ہیں جنہوں نے یہ انکشاف کیا ہے کہ سندھ سے چوری اور چھینی گئی موٹرسائیکلوں کی بلوچستان میں اچھی قیمت ملتی ہے۔‘سابق نگراں صوبائی وزیر داخلہ اور دفاعی تجزیہ کار حارث نواز نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’کراچی شہر میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے نگراں حکومت کے دور میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں کو مزید محفوظ بنایا جائے گا۔‘

حکومت نے کراچی کے داخلی اور خارجی راستوں کو محفوظ بنانے کے لیے کئی اقدامات کا فیصلہ کیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’ہمیں ایسی کئی شکایات موصول ہوئی تھیں جن میں یہ بتایا گیا تھا کہ حب سمیت دیگر مقامات سے جرائم پیشہ افراد صوبے میں داخل ہو رہے ہیں اور امن و امان کی صورت حال کو خراب کر رہے ہیں۔‘حارث نواز کے مطابق ’پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے کئی افراد کو حراست میں لیا ہے جنہوں نے دورانِ تفتیش اس بارے میں اہم معلومات فراہم کی ہیں۔‘سابق نگراں صوبائی وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ ’شہر میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے 1300 جدید کیمرے نصب کیے جا رہے ہیں۔‘

’اس پروجیکٹ سے ریلویز، ہوائی اڈے، موٹرویز اور ہائی ویز سمیت دیگر راستوں سے شہر میں آنے اور جانے والے افراد کی ناصرف نگرانی کی جا سکے گی بلکہ گاڑیوں تک کی شناخت بھی ممکن ہو سکے گی۔‘حکومت کا یہ فیصلہ کتنا قابل عمل ہے؟کراچی شہر کا جائزہ لیا جائے تو یہ فیصلہ انتہائی مشکل نظر آتا ہے، پاکستان کا سب بڑا شہر کراچی جو منی پاکستان بھی کہلاتا ہے، اپنے محلِ و قوع کی وجہ سے بھی اپنی منفرد شناخت رکھتا ہے۔اس شہر میں داخلی اور خارجی راستے بھی کئی ہیں۔ مرکزی ہائی ویز کے علاوہ ایک درجن سے زائد راستے ایسے ہیں جہاں سے باآسانی شہر میں داخل اور یہاں سے باہر جایا جا سکتا ہے۔ عام طور پر کراچی شہر میں داخل ہونے یا یہاں باہر جانے کے لیے مسافروں کے پیش نظر ایم نائن موٹروے، نیشنل ہائی وے، حب ریور روڈ، ناردرن بائی پاس یا پھر گڈاپ سٹی کے راستے ہوتے ہیں۔

کراچی شہر جو اپنے رقبے اور آبادی کے لحاظ سے کئی ممالک سے بڑا ہے، میں داخل ہونے یا باآسانی باہر جانے کے اور بھی کئی راستے ہیں۔سکیورٹی اداروں کے لیے کراچی کا بے ترتیب پھیلاؤ بڑا چیلنج ہےکراچی شہر بے ترتیب پھیلاؤ کی وجہ سے سکیورٹی اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ ملک بھر سے آنے والے افراد یہاں قانونی اور غیرقانونی دونوں طریقوں سے رہائش پذیر ہیں۔  شہر کے سرحدی علاقوں میں مختلف قومیتیں آباد ہیں، جن میں اردو سپیکنگ، بلوچ، بروہی، سندھی، پشتون، افغان اور دیگر شامل ہیں۔کراچی شہر کے سرحدی علاقوں میں ایسی قومیتیں اکثریت میں آباد ہیں جو قیامِ پاکستان سے بھی قبل ان علاقوں میں رہائش پذیر ہیں، یہاں کئی اہم تاریخی قبرستان، مشہور تفریحی مقامات اور مختلف پھلوں کے باغات ہیں۔ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں آج بھی سرداری نظام موجود ہے۔ اس کے علاوہ کچھ عرصہ قبل بنائی گئی دو بڑی ہاؤسنگ سکیمیں بھی کراچی کے داخلی راستے سے جُڑی ہیں جن کے آباد ہونے کے بعد کراچی شہر کاٹھور اور نوری آباد کے قریب تک پہنچ چکا ہے۔کراچی شہر کے زمینی ہی نہیں سمندری بھی کئی راستے ہیںاس کے علاوہ ایک راستہ سمندر کا بھی ہے جہاں سے کراچی میں داخل اور باہر جایا جاسکتا ہے، ان علاقوں میں سکیورٹی اداروں نے ایک مضبوط حفاظتی نظام بنا رکھا ہے جس کے باعث کوئی عام فرد ان علاقوں سے شہر میں داخل نہیں ہوسکتا۔

کراچی کے ساحلی علاقے میں سکیورٹی اداروں نے ایک مضبوط حفاظتی نظام بنا رکھا ہے (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)

کراچی کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے تاریخ دان اور مصنف ماجد ساٹھی کا کہنا ہے کہ کراچی شہر اپنے دامن میں بہت سی داستانیں سمویا بیٹھا ہے۔’انگریز دور میں سمندر سے جُڑے اس شہر کو اہمیت ملی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک بڑا شہر بن گیا۔ اس شہر میں امن و امان کے حوالے سے کام کرنے والوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔‘

ماجد ساٹھی کہتے ہیں کہ ’یہاں ناصرف کئی علاقوں کی قومیں آباد ہیں بلکہ ملکی اور غیرملکی سب ہی شہر میں قانونی اور غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔‘شہر کا بڑا حصہ کچی آبادی میں ڈھل چکا ہےماجی ساٹھی کا کہنا ہے کہ شہر کا ایک بڑا حصہ کچی آبادیوں پر مشتمل ہے۔ ایسے میں داخلی اور خارجی راستوں پر سکیورٹی کا نظام بہتر کرنا خوش آئند ضرور ہے لیکن حکومت کو اس سے بھی بڑھ کر کام کرنا ہوگا۔’حکومت کے لیے ویسے بہت سے چیلنجز ہیں لیکن کراچی کا امن ملک کی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ شہر میں امن ہوگا تو معیشت کا پہیہ بھی چلے گا اور اس کا فائدہ کراچی سے خیبر تک نظر آئے گا۔‘


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.