سرگودھا: توہین مذہب کے الزام پر مشتعل ہجوم کا حملہ، یہ واقعہ کیسے رونما ہوا؟

سرگودھا کے علاقے مجاہد کالونی میں یہ ایک معمول کی صبح تھی کہ اچانک ایک فیکٹری کے باہر زمین پر گرے مقدس اوراق کی نشاندہی پر کچھ ہی گھنٹوں میں حالات اس قدر کشیدہ ہوگئے کہ امن و امان کی صورتحال پر قابو پانے کے لیے پولیس کے ہزاروں اہلکار تعینات کیے گئے۔
سرگودھا، مشتعل ہجوم، توہین مذہب
EPA

سرگودھا کے علاقے مجاہد کالونی میں یہ ایک معمول کی صبح تھی کہ اچانک ایک فیکٹری کے باہر زمین پر گرے مقدس اوراق کی نشاندہی پر کچھ ہی گھنٹوں میں حالات اس قدر کشیدہ ہوگئے کہ امن و امان کی صورتحال پر قابو پانے کے لیے پولیس کے ہزاروں اہلکار تعینات کیے گئے۔

صوبہ پنجاب کی پولیس کے مطابق سنیچر کو ’بروقت کارروائی کی بدولت سرگودھا ایک بڑے سانحہ سے بچ گیا۔‘

سرگودھا کی پولیس نے مقامی کونسلر کی مدعیت میں توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا ہے جس میں شکایت کنندہ کا دعویٰ ہے کہ ملزم نے قرآن کے مقدس اوراق کو نذر آتش کیا۔

تاہم اس مبینہ توہین مذہب کے واقعے کے بعد کے مناظر سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں جن میں مختلف تصاویر اور ویڈیوز سے حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ایک بیان میں پولیس نے بتایا کہ توہین مذہب کے الزام پر شروع ہونے والے پُرتشدد مظاہروں میں 10 قیمتی جانوں کو بچایا گیا۔ ’مشتعل افراد کے پتھراؤ سے پولیس کے 10 سے زیادہ اہلکار زخمی بھی ہوئے۔‘

اس گراؤنڈ رپورٹ میں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ مجاہد کالونی میں ایسا کیا ہوا کہ مشتعل ہجوم نے نہ صرف ایک گھر اور فیکٹری کو نذرِ آتش کیا بلکہ ایک شخص کو پولیس کی موجودگی میں بُری طرح تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔

سرگودھا، مشتعل ہجوم، توہین مذہب
EPA

یہ واقعہ کیسے رونما ہوا؟

ہم نے یہ جاننے کے لیے متاثرہ شخص کے قریبی رشتہ داروں سمیت مختلف مقامی افراد سے بات کی ہے۔

مجاہد کالونی کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ تشدد کا نشانہ بننے والے معمر شخص اور ان کا خاندان ایک کارخانہ چلاتے ہیں جس میں آٹھ سے 10 افراد کام کرتے ہیں۔ کام کرنے والے سارے کاریگر اور مزدور مسیحی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔

کارخانے میں کام کرنے والے یوسف گلِ مسیح بتاتے ہیں کہ ’صبح سویرے مجھے کارخانے کو آگ لگنے کی اطلاع ملی۔۔۔ (مجھے معلوم ہوا کہ کارخانے کے باہر) کھمبے کے پاس ایک شاپر گرا ہوا تھا جس میں مقدس اوراق تھے۔‘

ان کے مطابق جب ہمسایوں کو معلوم ہوا کہ مقدس اوراق نیچے زمین پر گرے ہوئے ہیں تو انھوں نے ’الزام لگا دیا اور لوگوں کو جمع کرنا شروع کر دیا۔‘

یوسف گِل بتاتے ہیں کہ پہلے کارخانے کو آگ لگائی گئی اور پھر ایک شخص پر شدید تشدد کیا گیا۔ ’جیسے ہی کارخانے میں کام کرنے والے مجھ سمیت دوسرے کاریگروں کو واقعے کی اطلاع ملی تو ڈر کے مارے کسی نے اُدھر کا رُخ نہ کیا۔‘

اسی علاقے کے رہائشی ملک افتخار بتاتے ہیں کہ جس شخص پر توہین مذہب کا الزام لگایا جا رہا ہے وہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو ’کسی طرح کی مذہبی فرقہ واریت کا حامل نہیں۔ یہ سادہ لوح لوگ ہیں اور اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔‘

ان کے مطابق فیکٹری کو نذرِ آتش کیے جانے کے دوران تشدد کا نشانہ بننے والے شخص کے گھر کے باہر لوگ جمع ہوتے چلے گئے۔ ’ان کا بیٹا گھر سے باہر نکلا اور اُس نے کہا کہ اگر اُس کے والد سے کوئی گستاخی ہوئی ہے تو وہ اس کی معافی مانگتے ہیں۔ مگر لوگ بہت مشتعل تھے۔‘

ملک افتخار نے بتایا کہ کارخانہ جلنے اور واقعے کے لگ بھگ بیس سے پچیس منٹ بعد پولیس آگئی۔ پولیس نے لوگوں کو سمجھانے اور منتشر کرنے کی کوشش کی مگر یہ سب بے سود رہا۔ ’پھر پولیس جب انھیں گھر سے نکال کر لے جانے لگی تو لوگوں نے حملہ کر دیا۔‘ ان کے مطابق یہ دوسرا حملہ پولیس کی موجودگی میں ہوا۔

سرگودھا، مشتعل ہجوم، توہین مذہب
EPA

’ہوسکتا ہے آندھی کی بدولت کچھ مقدس اوراق نیچے گر گئے ہوں‘

اس گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر موجود مسجد کی انتظامیہ سے وابستہ سابق یو سی چیئرمین مرزا غلام محمد بتاتے ہیں کہ وہ فجر کی نماز پڑھنے کے بعد سوئے ہوئے تھے جب مسجد کے قاری فاروق نے انھیں جگایا اور بتایا کہ ’چند لوگ مسجد آئے ہوئے ہیں‘ اور ایک شخص کے خلاف ’گستاخی پر مبنی اعلان کروانا چاہتے ہیں۔ مَیں نے قاری صاحب کو کہا کہ آپ اعلان مت کریں، مَیں آ رہا ہوں۔‘

’مَیں جب گلی میں پہنچا تو سات، آٹھ سو لوگ جمع تھے اور سب کے سب مشتعل تھے۔ اس وقت ڈی پی او سمیت پولیس موجود تھی۔ مَیں نے ڈی پی او کو بتایا کہ یہاں کا سابقہ چیئرمین ہوں اور لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر کسی نے ایک نہ سنی۔‘

مرزا غلام محمد کہتے ہیں کہ ’اُلٹا بعض نے مجھے کہا کہ آپ کیسے مسلمان ہیں، ایک مذہبی گستاخ کو بچانا چاہتے ہیں؟ مَیں نے قاری فاروق کو کہا کہ آپ تقریر کریں اور جس میں کہیں کہ قانون کو اپنا کام کرنے دیا جائے، سب لوگ گھروں کو جائیں۔

’مگر قاری فاروق کی تقریر پر بھی کسی نے کان نہ دھرے۔ اسی دوران شہر بھر سے مختلف مسالک کے علما کرام آگئے مگر ہجوم نے اُن کی بھی نہ سنی۔‘

غلام محمد مزید بتاتے ہیں کہ پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ پولیس کی موجودگی میں اس شخص پر تشدد بھی کیا گیا جس پر توہین مذہب کا الزام لگایا جا رہا تھا۔ حتی کہ اس سے قبل پولیس کئی گھنٹوں تک مظاہرین کو سمجھانے کی کوشش کرتی رہی تھی کہ ملزم کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔

غلام محمد سمیت کئی علاقہ مکین سمجھتے ہیں کہ ملزم کا تعلق ایک پڑھی لکھی اور آسودہ حال فیملی سے ہے۔

مقامی وکیل سیف خان بتاتے ہیں کہ مجاہد کالونی میں موجود ایک بجلی کے کھمبے پر ٹین کا ڈبہ لٹکا ہوا تھا جس میں مقدس اوراق ڈالے جاتے تھے۔ ’یہ ہوسکتا ہے کہ رات آنے والی شدید آندھی کی بدولت کچھ مقدس اوراق نیچے گر گئے ہوں۔‘

اس واقعے کو رپورٹ کرنے والے صحافی آصف حنیف بھی ایسا ہی کچھ خیال ظاہر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رات آندھی کی وجہ سے ممکن ہے کہ مقدس اوراق گر گئے ہوں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’مَیں نے بعض مقامی رہائشیوں سے یہ بھی سنا کہ ۔۔۔ (ملزم نے) فیکٹری کی صفائی کے دوران شاپر گرا ہوا دیکھا جس میں مقدس اوراق تھے اور کچھ جلے ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنے ہمسائے کو بتایا کہ یہاں کچھ اوراق گرے پڑے ہیں۔‘

ایسا ہی کچھ خیال مقامی صحافی محمد بلال کا بھی ہے۔ محمد بلال کہتے ہیں کہ واقعے کی حساسیت اور پولیس کی موجودگی میں کوئی شخص بھی ایسی معلومات دینے کو تیار دکھائی نہیں دیتا جس سے واقعے کی حقیقت کو سمجھا جاسکے۔‘

متاثرہ شخص کے اہل خانہ نے ہمیں بتایا کہ انھیں ’شدید زخمی حالت میں سی ایم ایچ سرگودھا لے جایا گیا۔ کسی سرکاری یا نجی ہسپتال میں اس لیے نہ لے جایا گیا کہ وہاں ان پر مزید حملہ ہوسکتا تھا۔‘

سرگودھا سے تعلق رکھنے والے فادر ڈیوڈ جان کہتے ہیں کہ انھیں واقعے کی اطلاع صبح سات بجے کے قریب ملی اور بتایا گیا کہ متاثرہ شخص پر تشدد کے علاوہ ان کا کارخانہ بھی جلا دیا گیا ہے۔

سرگودھا، مشتعل ہجوم، توہین مذہب
EPA

پولیس نے اب تک کیا کارروائی کی ہے؟

پنجاب پولیس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مجاہد کالونی میں مبینہ توہینِ مذہب کے الزام پر ہونے والے پُرتشدد احتجاجی مظاہروں پر قابو پا لیا ہے جبکہ مشتعل ہجوم کو منتشر کر کے وقوعہ میں ملوث ملزم کو حراست میں لے لیا ہے۔

اگرچہ پولیس نے سرگودھا کے واقعے پر توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا ہے تاہم حکام کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی ’شفاف تحقیقات کر کے ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ سرگودھا میں مبینہ توہین مذہب کے معاملے میں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا تاہم ’مشتعل افراد کے پتھراؤ سے پولیس کے 10 سے زائد افسران اور جوان زخمی ہوئے ہیں۔‘

آئی جی پنجاب کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’آر پی سرگودھا شارق کمال اور ڈی پی او سرگودھا ڈاکٹر اسد اعجاز ملہی، ایس پیز سمیت سینیئر افسران کی سپرویژن میں سرگودھا پولیس نے وقوعہ کی اطلاع ملتے ہی بروقت ریسپانڈ کیا۔

’(انھوں نے) موقع پر پہنچ کر نہ صرف 10 قیمتی جانوں کو بچا لیا بلکہ حالات پر بھی قابو پا لیا۔ کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔ مشتعل افراد کے پتھراؤ سے پولیس کے 10 سے زائد افسران اور جوان زخمی بھی ہوئے۔‘

اس بیان کے مطابق سرگودھا پولیس نے ’اپنی جان داؤ پر لگا کر فیملیز کو ریسکیو کر کے ہجوم سے نکالا۔ پولیس کی بروقت کارروائی کی بدولت سرگودھا بڑے سانحہ سے بچ گیا۔‘

پولیس نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’تمام مسیحی افراد کو پولیس اور انتظامی اداروں نے بخوبی انداز میں ریسکیو کر کے محفوظ مقام پر منتقل کیا۔ شہری افواہوں پر کان نہ دھریں اور پُرامن رہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.