طلعت حسین: پاکستانی ٹیلی ویژن کے ’دلیپ کمار‘ جن کی ڈائیلاگ کے بعد خاموشی بہت کچھ کہہ جاتی

ڈراموں، فلموں، ریڈیو اور تھیٹر کے معروف ایوارڈ یافتہ سینئر اداکار طلعت حسین کراچی میں وفات پا گئے ہیں۔ ان کی وفات پر بی بی سی نے ان کے پرانے دوستوں اور رفقا سے ان کی زندگی، طبیعت اور اداکاری کے متعلق بات کی ہے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب معروف اداکار طلعت حسین اداکاری کی اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن میں تھے۔ انھیں بی بی سی میں تو کام ملنا شروع ہو گیا تھا لیکن تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کام سے گزر بسر ممکن نہیں تھی۔

’یہ ہیں ہمارے طلعت حسین‘ کے نام سے لکھی گئی ڈاکٹر ہما میر کی کتاب میں شامل چند اقتسابات کے مطابق یہی وجہ تھی کہ طلعت حسین نے ویٹر کی جزوقتی ملازمت کا فیصلہ کیا۔

طلعت اداکار کے طور پر پہچان بنا چکے تھے اِس لیے یہ فیصلہ مشکل تھا، لیکن اس میں مشکل کیا تھی؟

کتاب میں ہما سے بات کرتے ہوئے طلعت حسین نے بتایا تھا کہ ’مشکل اُس وقت ہوتی تھی جب کوئی پاکستانی فیملی ہوٹل میں کھانا کھانے آتی۔ مجھے دیکھتے ہی پہچان لیتی۔ مجھے آرڈر دیتے ہوئے انھیں جھجک ہوتی۔

’میں ان سے کہتا کہ وہ بے چین نہ ہوں اور اطمینان سے اپنا آرڈر لکھوا دیں۔ اس کے بعد صورتِ حال اُس وقت اور پیچیدہ ہو جاتی جب انھیں بل کے ساتھ ٹپ دینا ہوتی۔ پاکستانی مجھے ٹپ دیتے ہوئے شرماتے تھے۔‘

ڈراموں، فلموں، ریڈیو اور تھیٹر کے معروف ایوارڈ یافتہ سینئر اداکار طلعت حسین کراچی میں وفات پا گئے ہیں۔

سنہ 1940 میں انڈیا میں پیدا ہونے والے طلعت حسین کی عمر 80 سال سے زائد تھی اور انھوں نے فنونِ لطیفہ کو نصف صدی دی ہے، یعنی انھوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ اداکاری، صداکاری، آرٹ اور فن کے لیے وقف کر دیا۔

اداکار طلعت حسین گذشتہ کچھ عرصے سے علیل تھے، ان کے قریبی رفقا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں ڈیمنشیا کا مرض لاحق تھا۔

طلعت حسین کے سوگواروں میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔

طلعت حسین کو شہرت سنہ 1970 کے دور سے ملنا شروع ہوئی۔ طلعت حسین نے چند فلموں میں بھی کام کیا جبکہ سٹیج تھیٹرز پر بھی اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ طلعت حسین کے مقبول ڈراموں میں پرچھائیاں، ہوائیں، کشکول، طارق بن زیاد اور دیگر شامل ہیں۔ سینئر اداکار کو 2021 میں ستارہ امتیاز (اسٹار آف ایکسیلنس) اور 1982 میں حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا گیا۔

ان کی وفات پر بی بی سی نے ان کے پرانے دوستوں اور رفقا سے ان کی زندگی، شخصیت اور اداکاری سے متعلق بات کی ہے۔

پاکستان ٹیلی ویژن کے سابق ایم ڈی اور طلعت حسین کے پرانے رفقا میں سے ایک اختر وقار عظیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ طلعت حسین نے بچپن سے ہی ریڈیو میں کام کرنا شروع کر دیا تھا اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کی والدہ بھی ریڈیو آرٹسٹ تھیں۔

وہ کہتے ہیں کہ جب پاکستان میں ریڈیو اور ٹی وی کی شروعات ہوئی تو طلعت حسین ان چند اداکاروں اور صداکاروں میں سے ایک تھے جن کو ’پولشڈ آواز‘ کہا جاتا تھا۔ انھیں ڈائیلاگ ڈیلیوری پر عبور حاصل تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ٹیلی ویژن کے آغاز میں ایک ڈرامہ سیریز ’انسان اور آدمی‘ شروع ہوئی تو اس کے مرکزی پرفارمر طلعت حسین ہی تھے۔

اختر وقار عظیم کے مطابق طلعت حسین کو اداکاری کے ساتھ ساتھ مطالعہ کا بھی بے حد شوق تھا۔ انگریزی ادب اور اردو ادب سے خاص لگاؤ تھا۔

’وہ اس دور میں چند ان افراد میں سے تھے جن کے ہاتھ میں ہمیشہ کتاب رہتی تھی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ طلعت حسین اداکاری پر ہی نہیں ادب، فلسفے، مذہب، تصوف، مصوری اور سیاست سمیت ہر موضوع پر گھنٹوں گفتگو کر سکتے تھے اور ہر وقت ان شعبوں کی قدیم و جدید کتابوں کی تلاش میں رہتے تھے۔ وہ ایک پڑھے لکھے اداکار تھے اور اسی وجہ سے انھوں نے نہ صرف ڈرامہ کیا بلکہ پی ٹی وی کے آغاز میں انھوں نے کمپیئرنگ بھی کی۔

اختر وقار عظیم کا کہنا تھا کہ وہ ایک انتہائی سادہ طبعیت اور سلجھی شخصیت کے مالک تھے۔

سٹوڈیو نائن کا ہیرو

اداکار طلعت حسین کے پرانے دوستوں میں سے ایک ظہیر خان بھی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میرا طلعت سے تعلق کم و بیش 50 برس سے زائد کا ہے اور میری ان سے ملاقات پاکستان میں ٹیلی ویژن سے پہلے کی ہے۔‘

ظہیر خان جو پہلے ریڈیو پاکستان اور بعدازاں پاکستان ٹیلی ویژن میں نہ صرف طلعت حسین کے ساتھ بطور پروڈیوسر کام کرتے رہے ہیں بلکہ ان کی دوستی اسلامیہ کالج کے دور سے ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’طلعت حسین اس دور میں ریڈیو پاکستان پر بطور ڈرامہ آرٹسٹ پرفارم کرتے تھے اور اس دور میں ایس ایم سلیم بہت مشہور ریڈیو کے ڈراموں رومانوی ہیرو ہوا کرتے تھے لیکن طلعت کی آواز اور ڈائیلاگ پر گرفت نے انھیں بھی اس صف میں لا کر کھڑا کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک دور تھا جب طلعت حسین سٹوڈیو نائن کے مقبول ترین ہیرو تھے۔‘

واضح رہے کہ سٹوڈیو نائن ریڈیو کا وہ سٹوڈیو تھا جہاں سامعین کے لیے رات نو بجے ریڈیو ڈرامے پیش کیے جاتے تھے۔

ظہیر خان کا کہنا ہے کہ یہ وہ دور تھا جب لوگ دن بھر کے کام کاج کر کے رات نو بجے سٹوڈیو نائن سے نشر ہونے والے ڈراموں کا بے صبری سے انتظار کرتے تھے کیونکہ اس وقت ابھی پاکستان میں ٹی وی کا دور شروع نہیں ہوا تھا۔

ظہیر خان بھی اس بات سے متفق ہیں کہ طلعت حسین کو مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں، نذیر بیگ (اداکار ندیم) طلعت حسین، سلیم ہم سب اسلامیہ کالج میں اکٹھے پڑھتے تھے، اس دور میں بھی اس کے پاس ہر وقت ادب یا تاریخ کی کتاب ہوتی تھی۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’طلعت اور میں نے ٹی وی ایک ساتھ ٹی وی پروگرام ’دیس بدیس‘ میں ایک ساتھ کام کیا جس میں غیر ملکی فلموں پر تبصرہ کرنا ہوتا تھا۔ ان کے انگریزی مطالعے کی وجہ سے طلعت حسین اس پروگرام کے تبصرہ نگار بنے۔‘

ظہیر خان کا کہنا ہے کہ پھر وہ انگلستان اداکاری اور تھیٹر کی تعلیم حاصل کرنے چلے گئے اور واپس آئے تو پاکستان ٹی وی پر بطور ڈرامہ آرٹسٹ چھا گئے۔ ان کے مطابق ان کی مقبولیت کی شروعات ’پرچھایاں‘ ڈرامے سے ہوا۔

پاکستان ٹیلی ویژن کے ’دلیپ کمار‘

ظہیر خان کہتے ہیں کہ طلعت نے انگلینڈ سے واپس آنے کے بعد بہت کام کیا۔ اس کی ڈائیلاگ ڈیلوری، سٹریس اور پاز اور باڈی لینگوئج نے ان کی اداکاری خصوصاً رومانوی اداکاری کو ناظرین کے دلوں کو چھو لیا۔ وہ ایک مقبول ہیرو کے طور پر ابھرے اور انھیں پاکستان ٹیلی ویژن کا ’دلیپ کمار‘ کہا جانے لگا۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے ان کے آرٹس کونسل پاکستان کے سربراہ اور طلعت حسین کے پرانے ساتھیوں میں سے ایک احمد شاہ کہتے ہیں کہ ’یہ بات شروع سے ہی طلعت کے بارے میں کہی جاتی تھی۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ تقسیم سے قبل کے ہندوستان میں اداکار دلیپ کمار نے اداکاری کے لیے باڈی لینگوئج کا استعمال شروع کیا تھا، کیونکہ وہ فلم کے آدمی تھے اس لیے وہ سین میں چل کر ، رک کر اور بیچ بیچ میں ڈائیلاگ ادا کرتے تھے مگر یہ ان کا انداز تھا۔

’طلعت نے جو اندازِ اداکاری اپنایا وہ ان سے متاثر تو ہو سکتا ہے لیکن وہ جدا تھا، ان کے اپنے پازز اور سٹریس تھے۔‘

احمد شاہ کہتے ہیں کہ طلعت حسین یہ سمجھتے تھے کہ ریڈیو، ٹی وی اور فلم تینوں میں اداکاری کی مختلف ڈیمانڈ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ طلعت حسین کہا کرتے تھے کہ ’ریڈیو میں صرف ڈائیلاگ سے کام بنتا ہے لیکن ٹی وی یا فلم میں جذبات کے اظہار کے لیے باڈی لینگوئج ضروری ہے۔‘

احمد شاہ کہتے ہیں کہ طلعت حسین کم سے کم ڈائیلاگ ڈیلیوری پر یقین رکھتے تھے اسی لیے مکالموں کے دوران ان کے سٹریس اور پازز نے انھیں ایک منفرد مقام دیا۔

انتہائی سادہ اور نفیس شخصیت کے مالک

احمد شاہ کہتے ہیں کہ وہ نہ صرف ایک بڑے اداکار ہیں بلکہ بہت اچھے انسان بھی ہیں۔

ظہیر خان کہتے ہیں کہ طلعت حسین ایک سادہ لوح، اپنے کام کے ساتھ انتہائی مخلص اور اچھا انسان تھا۔ پاکستان میں ٹیلی وژن اور ریڈیو کی تاریخ لکھی گئی تو اس میں طلعت کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔

احمد شاہ کہتے ہیں کہ بلاشبہ طلعت حسین پاکستان کے چوٹی کے اداکار تھے۔ وہ نہ صرف اچھے اداکار بلکہ ایک نفیس استاد بھی تھے۔ وہ گذشتہ 24 سال سے آرٹس کونسل آف پاکستان کی نہ صرف گورننگ باڈی کے رکن تھے بلکہ آرٹس کونسل کے مختلف شعبوں کے سربراہ بھی تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’طلعت حسین کو لوگ پسند تھے۔ وہ سب سے کھلے دل سے ملتے۔ تاہم بے تکلفی کے باوجود انھوں نے کبھی کسی بھی قسم کی حد عبور نہیں کی۔

احمد شاہ کہتے ہیں کہ ’طلعت حسین اپنے سماج، ادب، تہذیب کے ساتھ جڑے اور عاجز انسان تھے۔‘

احمد شاہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے جونیئر آرٹسٹوں کی ہمیشہ مدد کی، انھیں کردار کو نبھانے میں معاونت کی۔ وہ انتہائی شفقت لے ساتھ اپنے سے چھوٹوں سے پیش آتے۔

ظہیر خان کہتے ہیں کہ ’طلعت آج خاموش ہو گیا لیکن اس کے کام کی بازگشت ہمیشہ گونجتی رہے گی۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.