’کاؤ بوائے‘ پاکستانی کرکٹر: امریکی تشخص کی علامت ’سٹیٹسن ہیٹ‘ کیوں مقبول ہیں؟

جیسا دیس، ویسا بھیس کی روایت پر عمل کرتے ہوئے امریکی ریاست ٹیکساس میں موجود پاکستانی ٹیم کے متعدد کھلاڑیوں کی کاؤ بوائے ہیٹ یا سٹیٹسن ہیٹ پہنے تصاویر اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔

’جیسا دیس، ویسا بھیس‘ کی روایت پر عمل کرتے ہوئے امریکی ریاست ٹیکساس میں موجود پاکستانی کرکٹ ٹیم کے متعدد کھلاڑیوں کی ’کاؤ بوائے ہیٹ‘ یا ’سٹیٹسن ہیٹ‘ پہنے تصاویر اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔

پاکستان کرکٹ ٹیم اس وقت امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلاس میں موجود ہے جہاں وہ جمعرات کو میزبان ٹیم امریکہ کے ساتھ ٹورنامنٹ میں اپنا پہلا میچ کھیلے گی۔

گذشتہ روز جہاں ٹیم کی ٹریننگ کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہیں وہیں شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ، فخر زمان، افتخار احمد اور عماد وسیم کی کاؤ بوائے ہیٹ پہنے تصاویر اور آئی سی سی کی میڈیا ٹیم کی جانب سے بنائی گئی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔

اس کے علاوہ متعدد کھلاڑی، جن میں عباس آفریدی بھی شامل ہیں، نے بیلوں کی مشہور لڑائی دیکھتے ہوئے اپنی تصاویر شیئر کی ہیں۔ پاکستانی بلے باز افتخار احمد نے بھی ایسی ہی ایک ویڈیو شیئر کی جو بظاہر ایک مقامی روپنگ رنگ میں بنائی گئی ہے۔

اس بارے میں سوشل میڈیا پر جہاں معمول کے مطابق صارفین ان کھلاڑیوں کو ’کرکٹ پر توجہ‘ دینے کے مشورے دےرہے ہیں، اکثر صارفین کی جانب سے یہ تصاویر شیئر کرنے کے بعد ٹیکساس اور کاؤ بوائے کلچر اور ان ہیٹس کے بارے میں تجسس پایا جاتا ہے۔

آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ’کاؤ بوائے کلچر‘ ہے کیا اور کاؤ بوائز جو ہیٹ زیبِ تن کرتے ہیں وہ امریکی ثقافت میں اتنی اہمیت کیسے اختیار کر گئے کہ یہ مختلف ادوار میں امریکی صدور نے بھی پہنے اور یہ امریکی تشخص کی علامت بن گئے۔

امریکہ میں کاؤ بوائز کہاں سے آئے تھے؟

جب ہسپانوی آبادکار 1519 میں امیریکس آئے تو انھیں نے اپنے مویشی پالنے کے لیے مزید مویشی خانے بنانے کا آغاز کیا۔ اس دوران سپین سے گھوڑے درآمد کیے گئے۔

میکسیکو کے مقامی کاؤ بوائز کو ’ویکوروز‘ کہا جاتا ہے جو ہسپانوی زبان کے لفظ ’واکا‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب گائے ہے۔ ویکوروز کو مویشی پالنے والوں کی جانب سے اپنے مویشیوں کی دیکھ بھال کے لیے رکھا گیا تھا اور انھیں مویشیوں کو رسی ڈالنے، گھڑ سواری کرنے اور مویشی چرانے کا بہترین تجربہ تھا۔

18ویں صدی میں مویشیوں کی افزائش آج کل کی ریاست ٹیکساس، ایریزونا، نیو میکسیکو اور یہاں تک کہ ارجنٹینا میں بھی ہونے لگی۔

19ویں صدی کے اوائل میں متعدد انگریزی بولنے والے آبادکاروں نے امریکہ کی مغربی ریاستوں کی جانب ہجرت کی اور انھوں نے ویکورو ثقافت کے متعدد عوامل کو اپنایا جن میں ان کا مخصوص لباس اور مویشیوں پر سواری کرنے اور انھیں چرانے کے انداز تھے۔

کاؤ بوائز کا کام کیوںکہ انتہائی مشکل اور محنت طلب ہوتا تھا اور انھیں تنہائی میں رہنا پڑتا تھا، اس لیے یہ صرف سخت جان افراد کا کام ہی سمجھا جاتا ہے۔

کاؤ بوائز مختلف قومیت سے تعلق رکھتے تھے جن میں افریقی نژاد امریکی، مقامی امریکی اور میکسیکو کے رہائشی اور مشرقی امریکی اور یورپ سے آئے آبادکار شامل تھے بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہر چار میں سے ایک کاؤ بوائے سیاہ فام ہوتے تھے۔

تاہم بعد میں ہالی وڈ فلموں میں کاؤ بوائز کی شناخت ایک سفید فام مرد کے طور پر کی گئی اور امریکہ کی جانب سے ان کاؤ بوائے ہیٹس کو اپنی ہالی وڈ مشینری کے ذریعے دنیا بھر میں متعارف کروایا گیا۔

اس حوالے سے 1954 میں سگریٹ کمپنی مارلبورو کی جانب سے ایک کاؤ بوائے کو اپنی تشہیری مہم میں استعمال کیا گیا تھا جس کے بعد سے دنیا بھر میں ’مارلبورو مین‘ کی اصطلاح مقبول ہوئی تھی۔

bush
Getty Images

امریکی کاؤ بوائز کی وجہ شہرت سمجھا جانے والا سفر

’کاؤ بوائے کنٹری‘ کا مرکز سمجھے جانے والی امریکی ریاست ٹیکساس میں ایکسچینج سٹریٹ پر یہ کوائے بوائے اب بھی سیاحوں کے لیے مختلف جانوروں کی سواری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

یہ اس تاریخی سفر کی یاد تازہ کرتا ہے جو امریکہ کے مغرب سے کاؤ بوائز کی جانب سے کیا جاتا تھا اور وہ بیلوں پر بیٹھ کر شمال میں موجود منڈیوں تک آیا کرتے تھے۔

کاؤ بوائز کی تاریخ پر نظر رکھنے والے فرینک میلانو بی بی سی 2 کو بتاتے ہیں کہ کیسے بیلوں کی سواری اور ان پر دور دراز سفر کا آغاز ہوا۔ سنہ 1865 میں امریکہ میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہو چکا تھا تو ٹیکساس، کنفیڈریٹس کے زیرِ انتظام تھا جو جنگ ہار چکے تھے۔

جب کنفیڈریٹ فوجی جنگ سے واپس گھروں کو لوٹے تو کنفیڈریٹ دولت کی کوئی قدر نہیں تھی کیونکہ اس کرنسی کی قدر میں اضافے کے لیے سونا چاندی موجود نہیں تھا۔ اس لیے ریاست ٹیکساس دیوالیہ ہو چکی تھی۔ شمال میں یعنی شکاگو، نیویارک اور بوسٹن میں لوگوں کے پاس مشینری بھی تھی اور دولت بھی۔ انھوں نے جنگ بھی جیت تھی لیکن ان کے پاس ایک چیز نہیں تھی، اور وہ تھا گوشت۔

یوں کنفیڈریٹ فوجیوں کو گوشت شمالی علاقوں کو بیچنے کا خیال آیا۔ یہ جانور وہاں لے جا کر 30 سے 35 ڈالر میں بیچے جاتے اور یہی جانور ٹیکساس میں ایک سے دو ڈالرز میں بکتے تھے۔

یوں تو کاؤ بوائز پر بے شمار ہالی وڈ فلمیں بھی بنی ہیں اور یہ پاکستان میں غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے سگریٹ کی تشہیری مہم کے طور پر بھی استمعال کیے جاتے رہے ہیں تاہم ان سب میں منفردکاؤ بوائے ہیٹس ہوتے ہیں۔

کاؤ بوائے ہیٹ کو امریکہ میں مردانگی کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ تاہم حال ہی میں امریکہ کی مقبول موسیقار بیونسے نے اپنی نئی البم کے لانچ اور اس کی تشہیر کے لیے کاؤ بوائے ہیٹ نہ صرف البم کے کور پر لگایا بلکہ پیرس فیشن ویک کے دوران پہنا بھی۔

صحافی اور ثقافتی ناقد برٹنی لوز نے ایک مرتبہ پھر سے فنکاروں کی جانب سے ہیٹ پہننے کے فیشن کی واپسی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’اب لوگ کاؤ بوائز کے کردار کو فخریہ انداز میں اور ایک کمیونٹی کے طور پر قبول کر رہے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو اس سے قبل روایتی طور پر اس بارے میں خود کو ایک سفید فام، پدرشاہی معاشرے کے انفرادی ہیرو سے کم تر سمجھتے تھے۔‘

جدید کاؤ بوائے ہیٹ دراصل 1830 میں پیدا ہونے والے جان سٹیٹسن کی جانب سے ڈیزائن کیا گیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ آج تک اس ہیٹ کو سٹیٹسن ہیٹ کہتے ہیں۔

اس سے قبل کاؤبوائز مختلف قسم کے ہیٹ پہنا کرتے تھے۔ سٹیٹسن نےایک ایسا ہیٹ بنایا جو چھاؤں بھی فراہم کرتا تھا اوریہ دھوپ میں کام کرنے والے کاؤ بوائز کے لیے آرام دہ ہوتے تھے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.