’اگر انڈیا کے خلاف پاکستان اپنے فینز کو اپ سیٹ کر پایا‘

یہ حقیقت ان گیارہ کھلاڑیوں سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کہ قوم ان سے ناپسندیدگی کی جس انتہا تک جا چکی ہے، اسے واپس پلٹانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پاکستان انڈیا سے جیت جائے اور قوم اس کے سارے پاپ بھلا دے گی۔ پھر بھلے سپر ایٹ تک رسائی بھی نہ ہو پائے، قومی ضمیر بہرحال اطمینان کی نیند سو سکے گا۔ سمیع چوہدری کی تحریر۔
پاکستان، انڈیا، کرکٹ
Getty Images

زوال کے سفر میں ایک مقام ایسا آتا ہے جب مزید گرنا ممکن نہیں رہتا، اس لیے نہیں کہ زوال پذیروں میں مزید گرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ اس لیے کہ مزید گرنے کو جگہ ہی نہیں بچ پاتی۔

پاکستان کرکٹ ٹیم بھی ایک زوال کے سفر پر چلی آ رہی ہے۔ پچھلے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں اس نے زمبابوے سے شکست کھائی، سات ماہ پہلے ون ڈے ورلڈ کپ میں افغانستان کے ہاتھوں خفت اٹھائی اور اس ایونٹ میں اپنی کمپین کی شروعات نومولود امریکی ٹیم سے ہار کر کی۔

زمبابوے کی ٹیم رینکنگ میں بھلے پاکستان سے کافی نیچے تھی مگر بہرحال ٹیسٹ کرکٹ کی ایک تاریخ رکھتی تھی اور اس سے شکست کہیں نہ کہیں قابلِ توجیہہ تھی کہ طویل قامت زمبابوین فاسٹ بولرز کو آسٹریلین پچز کا اضافی باؤنس بھی میسر تھا جو پاکستانی بلے بازوں کو مہنگا پڑ گیا۔

افغانستان سے شکست اگرچہ اس ٹیم کے لیے جھٹکا تھی جو ایونٹ سے دو ماہ پہلے تک انٹرنیشنل رینکنگ میں پہلے نمبر پر تھی مگر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ افغان کرکٹ یہ خطرے کی گھنٹی کئی سال سے بجاتی آ رہی تھی اور پاکستان کے برے دن پر اپ سیٹ کرنے میں کامیاب رہی۔

مگر امریکی کرکٹ ٹیم نہ تو زمبابوے کی طرح ٹیسٹ سٹیٹس کی حامل تھی اور نہ ہی افغانستان کی طرح اتنی پختہ کار تھی۔ یہ ٹیم پہلی بار ورلڈ کپ کھیلنے کو بھی یوں آ گئی کہ بغیر کسی کوالیفائر، محض میزبانی کی بنیاد پر ایونٹ میں شامل کی گئی۔ بہرحال ورلڈ کپ امریکہ میں کھیلنے کا کوئی جواز نہ ہوتا اگر میزبان ٹیم کھیل ہی نہ رہی ہوتی۔

لیکن اس نوآموز ٹیم نے بابر اعظم جیسے تجربہ کار کپتان اور کامیاب ترین بلے باز کے ہوش یوں اڑائے کہ میچ ختم ہونے کے بعد بھی وہ پاور پلے میں اپنی کاہلی کا ملبہ بولرز پر ڈالنے کو بضد رہے۔ گویا اپنے بیٹنگ کارڈ میں انھیں کوئی عیب دکھائی نہیں دیا مگر میچ ہارنے کا سبب اپنے بولرز کا ڈسپلن نظر آیا۔

پاکستان بمقابلہ امریکہ، ٹی 20 ورلڈ کپ
Getty Images

پاکستانی بولنگ بلاشبہ اپنے بہترین پر نہیں تھی۔ پہلے دس اوورز میں بولرز کے اپنے پلان اور بابر اعظم کی روٹیشن بالکل بے مقصد دکھائی دی لیکن پھر اگلے دس اوورز میں یہ پاکستانی بولنگ ہی تھی جو میچ کو کھینچ تان کر نہ صرف آخری اوور تک لے گئی بلکہ سپر اوور کی شکل میں اپنے بلے بازوں کو ایک اور موقع بھی فراہم کیا۔

اب مقابل روہت شرما کی وہ انڈین ٹیم ہے جو اپنا پہلا میچ جیت کر بہترین اعتماد کے ساتھ میدان میں اتر رہی ہے اور یہاں بابر اعظم کی وہ بکھری ہوئی الیون ہے جسے سپر ایٹ تک رسائی کے لیے اب امریکہ سے بہتر کرکٹ کھیلنے کی ضرورت ہے۔

فیصلہ سازی میں جو کنفیوژن پاکستانی ڈریسنگ روم میں دکھائی دے رہی ہے، اس کے دوران یہ محال ہے کہ پاکستان ٹورنامنٹ کے اس اہم ترین میچ میں باحواس اور باشعور کرکٹ کھیل پائے اور جو اتحاد کبھی اس ٹیم کا خاصہ ہوا کرتا تھا، اب وہ بھی ہوا ہو چکا ہے کہ قیادت کے متواتر بدلاؤ نے ڈریسنگ روم کی ایکتا ختم کر چھوڑی ہے۔

اور اس سارے گھڑمس پر ’ایکسٹرا ٹاپنگ‘ بابر اعظم کی قائدانہ صلاحیتیں ہیں جو پچھلے دو سال سے ہر میچ کے بعد دو ہی جملے دہراتے آ رہے ہیں کہ ’ہم دس پندرہ رنز پیچھے رہ گئے اور پاور پلے میں اچھی بولنگ نہ کر پائے۔‘

ان جملوں کی یکسانیت ہی یہ واضح کرنے کو کافی ہے کہ بطور کپتان انھوں نے اس عرصے میں کیا کچھ سیکھا۔

یہ بھی پڑھیے

بابر اعظم، پاکستان بمقابلہ انڈیا، ٹی 20 ورلڈ کپ
Getty Images

مگر جو دیرینہ خاصیت ہر دور میں پاکستان کرکٹ کی پہچان رہی ہے، وہ اس قدر گر جانے کے بعد اچانک یوں اٹھ کھڑے ہونا ہے کہ پھر کسی کے لیے بھی اسے روکنا مشکل ہو جائے۔ امریکہ سے شکست کے بعد بھی اب مزید کوئی ایسی کھائی بچی نہیں کہ جس میں پاکستان گر پائے۔ سو اب یہاں سے آگے کا رستہ بھی صرف اٹھان کا ہی ہو سکتا ہے۔

پاکستان کے لیے عماد وسیم کی انجری ایک پریشانی ہے اور شاداب خان کی فارم ایک مستقل سر درد ہے۔ بطور فیلڈر اور بلے باز ان کی صلاحیتیں اگر انھیں ٹیم کے لیے ناگزیر ٹھہراتی ہیں تو بولنگ فارم بجائے خود ٹیم کے ہی مستقبل پر سوالیہ نشان اٹھا دیتی ہے۔

اس طرح کے لمبے ٹورنامنٹس میں سفر صرف اسی ٹیم کے لیے آسان ہو سکتا ہے جو اپنے لیگ سپنر کی ذہنی و جسمانی کارکردگی سے آسودہ ہو۔ لیگ سپنر کو نہ صرف مڈل اوورز میں رن ریٹ کنٹرول رکھنا ہوتا ہے بلکہ وہ وکٹیں بھی حاصل کرنا ہوتی ہیں جو بیٹنگ سائیڈ کو ڈیتھ اوورز میں کسی ٹھوس بنیاد سے محروم کر سکیں۔ شاداب خان کی فارم فی الوقت یہ دونوں کام کرنے سے قاصر ہے۔

جبکہ ان کے متبادل ابرار احمد پچھلے برس کے ون ڈے ورلڈ کپ ہی کی طرح یہاں بھی بینچ گرما رہے ہیں اور بابر اعظم کی ایک نظرِ التفات کے منتظر ہیں مگر بابر اعظم کی آنکھوں میں شاداب کے سوا کوئی جچ پائے تو بات بنے۔

یہ حقیقت ان گیارہ کھلاڑیوں سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کہ قوم ان سے ناپسندیدگی کی جس انتہا تک جا چکی ہے، اسے واپس پلٹانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پاکستان انڈیا سے جیت جائے اور قوم اس کے سارے پاپ بھلا دے گی۔ پھر بھلے سپر ایٹ تک رسائی بھی نہ ہو پائے، قومی ضمیر بہرحال اطمینان کی نیند سو سکے گا۔

یہ ٹیم ماضی میں کئی بار دنیائے کرکٹ کو حیران کر چکی ہے مگر ورلڈ ایونٹس میں انڈیا سے فتح حاصل کرنا تاریخ میں صرف ایک ہی بار ہو پایا ہے۔ ایسے میں پاکستانی شائقین بھی ذہنی طور پر ہمیشہ کسی حادثے کے لیے تیار ہی رہتے ہیں لیکن اگر یہاں پاکستان اپنے شائقین کو اپ سیٹ کرنے میں کامیاب ہو گیا تو یہ ایونٹ منتظمین کے لیے بھی خوشی کی بات ہو گی۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.