سعد پاکستانی نژاد ہیں اور وہ لمحہ ابھی بھی انہیں یاد ہے جب انھوں نے پاکستان کی ڈومیسٹک فرسٹ کلاس کرکٹ میں خان ریسرچ لیبارٹریز کی نمائندگی کرتے ہوئے بابر اعظم کو آؤٹ کیا تھا۔ یہاں ان کی ٹیم کے پاس موقع تھا کہ وہ بابر اعظم کو ٹیم سمیت ٹورنامنٹ سے ہی باہر دھکیل دیتے۔ پڑھیے سمیع چوہدری کا تجزیہ

بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے ٹورنامنٹ میں پچ اس قدر اہمیت اختیار کر جائے جو نیویارک کی ڈراپ ان پچ کر چکی ہے۔ ان پچز کا رویہ یوں ناقابلِ بھروسہ ہے کہ ٹاس میچ سے کہیں زیادہ بڑا ایونٹ بن چکا ہے، جس کی جیت ہار پہ ہی لگ بھگ نصف میچ طے ہو جاتا ہے۔
اور پھر ٹی ٹونٹی کرکٹ نے پچھلی دو دہائیوں میں جو انقلابی تبدیلیاں دیکھی ہیں، یہ پچ ان سب تبدیلیوں کا بھی ’اینٹی تھیسس‘ ثابت ہوئی ہے۔ یہاں رن ریٹ ٹی ٹونٹی کی بجائے ٹیسٹ کرکٹ کے جیسے ہیں اور ماڈرن بلے باز ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں ٹیسٹ کرکٹ کی رفتار سے چلنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
لیکن پھر بھی سعد بن ظفر کا خیال تھا کہ وہ نیویارک کی اس نئی پچ پہ ٹاس ہار کر بھی میچ جیت سکتے ہیں۔ گو، وہ خود بھی یہاں پہلے بولنگ ہی کرنا چاہتے تھے مگر بیٹنگ کی دعوت ملنے پر بھی وہ مایوس نہیں ہوئے اور مثبت عزم کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہتے تھے۔
سعد پاکستانی نژاد ہیں اور وہ لمحہ ابھی بھی انھیں یاد ہے جب انھوں نے پاکستان کی ڈومیسٹک فرسٹ کلاس کرکٹ میں خان ریسرچ لیبارٹریز کی نمائندگی کرتے ہوئے بابر اعظم کو آؤٹ کیا تھا۔ یہاں ان کی ٹیم کے پاس موقع تھا کہ وہ بابر اعظم کو ٹیم سمیت ٹورنامنٹ سے ہی باہر دھکیل دیتے۔
یہ سعد کی خوش گمانی نہیں تھی بلکہ جیسی کرکٹ پاکستان نے پہلے دو میچز میں کھیلی، اس نے کینیڈا کو یہ حقیقت پسندانہ امید دلا دی تھی کہ وہ بھی اس ٹیم کو زیر کر سکتے ہیں۔

سعد ہی کی طرح ان کے ویسٹ انڈیز نژاد اوپنر ایرون جانسن کا بھی عزم مثبت تھا اور شاہین آفریدی نے جب میچ کی پہلی گیند فل لینتھ سے ان کے پیڈز پہ ڈالی تو جانسن نے بھرپور مہارت سے اسے باؤنڈری کی طرف روانہ کر دیا۔ دوسری گیند پہ بھی یہی معاملہ ہوا۔
پاکستانی پیسرز کو اس پچ پہ صحیح لینتھ کھوجنے میں کچھ وقت لگا۔ شاہین ہی کی طرح عامر اور نسیم کے پہلے اوورز کی پہلی گیندیں بھی باؤنڈری کی سیر کو گئیں۔ کینیڈا کا آغاز مثبت تھا مگر پچ میں یقیناً اس قدر مثبت پسندی نہیں تھی۔
ایرون جانسن نے اگرچہ اپنے کنارے سے جارحیت کا عزم جاری رکھا مگر دوسرے کنارے سے کوئی امید بر نہ آئی۔ جونہی پاکستانی پیسرز نے لینتھ کھینچی اور پچ کو اپنا جادو دکھانے کا موقع دیا، میچ کی رفتار یکسر بدل گئی اور 120 کا مسابقتی مجموعہ کینیڈا کی پہنچ سے دور رہ گیا۔
ایسی پچز جہاں بلے بازوں کے لیے قدم جمانا اتنا مشکل ہو، وہاں اگر کسی بلے باز کی تکنیک پچ کو راس آ جائے تو اس کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔ جانسن واحد کینیڈین بلے باز تھے جو اس پچ پہ پاکستانی پیسرز کو جھیل پا رہے تھے۔
ان کی ففٹی مکمل ہونے پہ کینیڈین کیمپ میں کچھ اطمینان بحال ہوا کہ وہ اننگز مکمل ہونے تک اپنی ٹیم کو ایک ایسے مجموعے تک لے جا پائیں گے جو پاکستانی بلے بازوں پہ پہلے سے موجود دباؤ میں اتنا اضافہ کر دے گا کہ کسی اپ سیٹ کی راہ ہموار ہو سکے۔

لیکن نسیم شاہ کی وہ گیند ایسی لینتھ پہ گری جہاں سے جانسن کو پچھلے قدموں پہ جا کے چار رنز حاصل کرنے کی امید ملی۔ مگر جانسن کے حساب کتاب میں شاید اتنی گڑبڑ نہ تھی جتنی گڑبڑ اس پچ کی بناوٹ میں تھی۔
کوئی ’نارمل‘ پچ ہوتی تو وہ گیند یقیناً سٹمپس سے دو انچ اوپر گزرتی مگر یہاں جانسن پچھلے قدموں پہ جا کر اپنے سٹمپس ایکسپوز کر چکے تھے اور اس واضح ہدف کو دیکھتے ہی جیسے گیند کی نیت بدل سی گئی۔ یہ گیند اپنے متوقع باؤنس سے اس قدر نیچے رہ گئی کہ جانسن کے سٹمپس بکھر گئے۔
اور اس کے ساتھ ہی کینیڈا کی اننگز بھی بکھر کر رہ گئی۔ جو مومینٹم ان کے ہاتھ تھا، وہ اب مکمل طور پہ پاکستانی پیسرز کے ہاتھ آ گیا۔ وہ کینیڈین بیٹنگ کو اس ہدف تک محدود رکھنے میں کامیاب ہو گئے جہاں سے پاکستانی بیٹنگ کے لیے میچ ہارنا ناممکن سا ہو گیا۔
پاکستان کے لیے مثبت پہلو یہ رہا کہ دونوں سینئر بلے بازوں نے اپنی پچھلی اننگز کے برعکس مثبت عزم کا اظہار کیا۔
پچ مشکل تھی اور قدموں کا استعمال ضروری تھا۔ رضوان اور بابر نے قدموں کا بھرپور استعمال کیا اور ان کی پیش قدمی نے پاکستان کو مزید پسپائی سے بچا لیا۔