’یہ ورلڈ کپ تھا، پی ایس ایل نہیں‘

بابر اعظم کی بیٹنگ مہارت و عظمت سر آنکھوں پر، لیکن قیادت کے لیے پاکستان کو ایسا زیرک دماغ ڈھونڈنا ہو گا جو کرکٹ کی باریکیاں پڑھنے میں طاق ہو اور اپنے چار پسندیدہ دوستوں سے آگے دیکھ کر ٹیم کے لیے سوچنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔ پڑھیے سمیع چوہدری کا تجزیہ۔
naseem
Getty Images

جب افراد اداروں پر بھاری پڑنے کی کوشش میں لگ جائیں تو بدترین خدشات کو حقائق میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔ یہی پاکستان کرکٹ بورڈ کادیرینہ المیہ رہا ہے اور اس کی قیمت ہمیشہ کھلاڑیوں اور شائقین کو چکانا پڑی ہے۔

پی ایس ایل کے اختتامی میچز جاری تھے کہ اچانک راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نمودار ہوئے۔

جب میچ کے دوران بھرپور کیمرہ کوریج لے کر بھی ان کی تشفی نہ ہوئی تو میچ کے بعد ایک پریس کانفرنس بلا ڈالی۔

وہ پریس کانفرنس بظاہر پاکستان کرکٹ سے متعلق تھی مگر دراصل وہ محسن نقوی کی شخصیت کے اس خلوص، ایثار اور لگن کا ایک قصیدہ تھی جس کے قصیدہ گو موصوف ’بقلم خود‘ تھے اور انھوں نے ملک کی خاطر اپنا کاروبار تیاگ دینے اور تین تین ہائی پروفائل عہدوں کی ذمہ داریاں نبھانے پر فخر کا اظہار کیا۔

گو پاکستانی کھلاڑی ورلڈ کپ کھیلنے جا رہے تھے مگر محسن نقوی نے ان کے چھکوں کی لمبائی بڑھانے کے لیے، کاکول اکیڈمی میں ایسی ٹریننگ دلوانے کی کوشش کی جس کا کرکٹ سے کوئی تعلق نہ تھا۔

کاکول اکیڈمی کی ان مشقوں کو رومانوی پیرائے میں سمیٹنے کے لیے انھیں ’ٹیم بانڈنگ‘ ایکٹویٹی قرار دیا گیا اور اصل ٹیم بانڈنگ کا حشر یہ ہوا کہ چار ماہ پہلے مقرر کردہ کپتان شاہین آفریدی اپنی ایما پر محمد عامر کو ریٹائرمنٹ واپس لینے پر قائل کر رہے تھے جبکہ محسن نقوی شاہین آفریدی سے قیادت واپس لے کر بابر اعظم کو بحال کر رہے تھے۔

جس غیر متاثر کن قیادت اور کمزور فیصلہ سازی کی بنیاد پر بابر اعظم کو ون ڈے ورلڈ کپ کے بعد مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا تھا، وہی مسائل لیے بابر اپنی کرسی پر واپس آ گئے اور شاہین آفریدی کو ان کی نائب کپتانی کی آفر کر کے مزید سبکی کا سامان کیا گیا۔

babar
Getty Images

اور اس سارے ڈرامے میں وہ اصل مدعا کہیں بہت پیچھے رہ گیا جو ماڈرن کرکٹ کھیلنا اور ورلڈ کپ میں بہترین ٹیموں کا مقابلہ کرنے کی سٹریٹیجی طے کرنا تھا۔

پاکستان کے لیے اگرچہ ٹی ٹونٹی ورلڈ ٹورنامنٹس میں یہ بدترین کارکردگی رہی ہے مگر اپنے احوال میں یہ ون ڈے ورلڈ کپ 2003 کی یاد دلاتی ہے جہاں پاکستان نے پچھلی ایک دہائی کی مضبوط ترین ٹیم ورلڈ ٹائٹل کے حصول کے لیے بھیجی تھی۔

اور جیسے پاکستان کی یہ ٹیم اب بابر اعظم اور شاہین آفریدی کے دو مبینہ متحارب گروہوں میں بٹی ہوئی نظر آ رہی ہے، ایسے ہی وہ مضبوط ترین ٹیم بھی وسیم اکرم اور وقار یونس کے دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی تھی اور پہلے ہی راؤنڈ سے ہزیمت سمیٹ کر وطن واپس لوٹ آئی تھی۔

یہ تو اب بالکل واضح ہو چکا کہ بطور کپتان بابر اعظم ہرگز وہ سٹار نہیں جو بیٹنگ چارٹس میں دنیا پر حکمرانی کا دعویٰ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ انڈیا اور کینیڈا کے خلاف میچز میں ان کی قائدانہ سٹریٹیجی میں کچھ بہتری دکھائی دی مگر بطور گیم ریڈر، ان کی سوجھ بوجھ وہ نہیں ہے جو ایک انٹرنیشنل ٹیم کے کپتان کی ہونا چاہیے۔

اور ایسی غیر متاثر کن قیادت ہی کم نہ تھی کہ ٹیم میں گروپنگ سونے پر سہاگہ ثابت ہوئی۔ پھر بھی اگر کوئی کسر باقی تھی تو وہ ان ’سینئرز‘ کی ریٹائرمنٹ سے واپسی نے پوری کر دی جنھیں، بقول محمد وسیم، ماضی کے سبھی کوچز ٹیم کے لیے کینسر قرار دے چکے تھے۔

سو، ورلڈ کپ میں پاکستان کی امیدوں کا جو حشر ہوا، وہ یکسر غیر متوقع نہیں تھا کہ بالآخر ’کینسر‘ کا مریض تگڑے صحت مند حریفوں کے سامنے یہی کچھ کر سکتا تھا جو بابر اعظم کی اس الیون نے کیا۔

naseem
Getty Images

ایک ہی میچ میں، نو آموز امریکی ٹیم سے، دو بار شکست نے اس الیون کا مورال اتنا گرا دیا کہ پھر اس کے اٹھنے کا سوال ہی پیدا نہ ہو سکا اور ٹیم بننے کی ناکام کوشش میں الجھی یہ الیون مزید تقسیم کی طرف بڑھنے لگی۔

اب پاکستانی شائقین ہی کی طرح چئیرمین پی سی بی بھی یوں حیران ہو رہے ہیں گویا یہ سب ان کے لیے بالکل غیر متوقع رہا ہو۔ جبکہ درحقیقت یہ تبھی نوشتہ دیوار ہو چکا تھا جب نیوزی لینڈ کی ’سی‘ ٹیم ہی پاکستانی سورماؤں پر بھاری پڑ گئی تھی۔

محسن نقوی نے اب اس ٹیم میں ’آپریشن کلین اپ‘ کا عندیہ دے ڈالا ہے۔ گویا کرکٹ ٹیم نہ ہوئی، خدانخواستہ کچے کے ڈاکو ہو گئے کہ جن کے لیے ’آپریشن کلین اپ‘ جیسی اصطلاح استعمال کر کے محسن نقوی اپنی آمرانہ مطلق العنانیت کو مزید سہلانا چاہتے ہیں۔

بلاشبہ، اس کارکردگی میں ٹیم کی صلاحیت سے زیادہ نیت اور آف فیلڈ سرگرمیاں کار فرما ہیں مگر اس کا تدارک ایسی سرجری سے نہیں ہو سکتا جو چئیرمین کے ذہن میں ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے مزید نیچے گرنا پاکستان کرکٹ کے لیے ممکن نہیں۔ مگر یہاں سے اوپر اٹھنے کے لیے رستہ طے کرنا بھی اتنا آسان نہیں۔

اگر پاکستان کو اپنی آئندہ ورلڈ کپ کمپینز میں ایسے ڈراؤنے خوابوں سے بچنا ہے تو کرکٹ کے بنیادی ڈھانچے کی اصلاح ضروری ہے جہاں نہ صرف فرسٹ کلاس سٹرکچر کی درستی لازم ہے بلکہ ٹیم میں سلیکشن کا معیار بھی بدلنا ہو گا۔ پی ایس ایل کی شارٹ کٹ سے انٹرنیشنل کرکٹ کا ٹکٹ بٹورنے والوں کی حوصلہ شکنی کر کے ڈومیسٹک کرکٹ کے پرفارمرز کو ترجیح دینا ہی راست اقدام ہو سکتا ہے۔

کوئی بھی ورلڈ ٹرافی جیتنے کے لیے صرف بہترین الیون ہی کافی نہیں ہوا کرتی۔ بابر اعظم کی بیٹنگ مہارت و عظمت سر آنکھوں پر، لیکن قیادت کے لیے پاکستان کو ایسا زیرک دماغ ڈھونڈنا ہو گا جو کرکٹ کی باریکیاں پڑھنے میں طاق ہو اور اپنے چار پسندیدہ دوستوں سے آگے دیکھ کر ٹیم کے لیے سوچنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.