کیا جانور بھی انسانوں کی طرح شعور رکھتے ہیں؟

اس خیال کو کہ جانور سوچ اور جذبات محسوس کرسکتے ہیں بہت سے لوگوں نے سائنسی بدعت قرار دیا تاہم جانوروں کے طرز عمل کے زیادہ تر ماہرین ایسا نہیں سمجھتے۔
جانور
Getty Images

چارلس ڈارون کو اپنے نظریہِ ارتقاء کی وجہ سے سائنس دانوں میں خدا جیسی حیثیت حاصل ہے لیکن ان کے اس تصور کو کہ جانور بھی اسی طرح باشعور ہوتے ہیں جس طرح انسان ہوتے ہیں ہمیشہ جھٹلایا گیا ہے۔

ڈارون نے لکھا کہ ’انسان اور جانوروں میں لطف اور درد، خوشی اور دکھ کو محسوس کرنے کی صلاحیت میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔‘

ان کے اس خیال کو کہ جانور سوچ اور جذبات محسوس کرسکتے ہیں بہت سے لوگوں نے سائنسی بدعت قرار دیا تاہم جانوروں کے طرز عمل کے زیادہ تر ماہرین ایسا نہیں سمجھتے۔

جانوروں کے ردعمل کی بنیاد پر شعور کو ان سے منسوب کرنا ایک غلط بات کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ دلیل یہ تھی کہ جانوروں میں انسانی خصوصیات، احساسات اور رویوں کو تلاش کرنے کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے اور یہ معلوم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ جانوروں کے ذہنوں میں کیا چل رہا ہے۔

لیکن اگر ایسے نئے ثبوت سامنے آتے ہیں کہ جانوروں کی اپنے ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے اسے محسوس کرتے اور اس پر عمل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حقیقت میں باشعور ہیں؟

اب ہم جانتے ہیں کہ شہد کی مکھیاں گن سکتی ہیں، انسانی چہروں کو پہچان سکتی ہیں اور اوزار استعمال کرنا سیکھ سکتی ہیں۔

لندن کی کوئین میری یونیورسٹی کے پروفیسر لارس چٹکا نے شہد کی مکھیوں کی ذہانت کے کئی اہم مطالعات پر کام کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’اگر شہد کی مکھیاں اتنی ذہین ہیں تو شاید وہ کچھ سوچ سکتی ہیں اور محسوس کر سکتی ہیں۔ جو شعور کی بنیاد ہیں۔‘

پروفیسر چٹکا کے تجربات سے پتا چلتا ہے کہ شہد کی مکھیاں ایک تکلیف دہ واقعے کے بعد اپنے طرز عمل کو تبدیل کرتی ہیں، وہ کھیل سکتی ہیں اور لکڑی کی چھوٹی چھوٹی گیندوں کو گھما سکتی ہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ اس سرگرمیسے لطف اندوز ہوتی ہیں۔

یہی وہ نتائج ہیں جنھوں نے جانوروں کی تحقیق میں سب سے زیادہ بااثر اور قابل احترام سائنسدانوں میں سے ایک کو یہ مضبوط اور متنازعہ بیان دینے پر آمادہ کیا۔

پروفیسر چٹکا کا کہنا تھا کہ ’ تمام شواہد کو دیکھتے ہوئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ شہد کی مکھیاں باشعور ہوں۔‘

یہ صرف شہد کی مکھیاں ہی نہیں ہیں۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ نئے شواہد سامنے آنے کے بعداب دوبارہ سوچنے کا وقت آ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جانوروں کے شعور کی سائنس کے بارے میں سوچ میں قابلِ ذکر تبدیلی آئی ہے۔

ان لوگوں میں لندن سکول آف اکنامکس کے پروفیسر جوناتھن برچ بھی شامل ہیں۔ پروفیسر برچ کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے محققین ہیں جو جانوروں کے شعور کے بارے میں سوالات پوچھنے کی ہمت کر رہے ہیں اور یہ سوچ رہے ہیں کہ ان کی تحقیق کا ان سوالات سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔‘

جانور شعور
Getty Images

کسی دریافت کے متلاشی فی الحال مایوس ہیں تاہم دوبارہ غور و فکر کے لیے شواہد میں مسلسل اضافے نے محققین میں ہلچل پیدا کردی ہے۔اب بہت سے لوگ اسحوالے سے سائنسی سوچ میں تبدیلی چاہتے ہیں۔

پروفیسر برچ کا کہنا ہے کہ جو کچھ دریافت کیا گیا ہے وہ جانوروں کے شعور کا حتمی ثبوت نہیں ہے لیکن اگر سب کو اجتماعی طور پر دیکھا جائے تو اس بات کا ’حقیقت پسندانہ امکان‘ موجود ہے کہ جانور شعور کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اس کا اطلاق نہ صرف بندروں اور ڈولفن جیسے اعلیٰ جانوروں پر ہوتا ہے جو دوسرے جانوروں کے مقابلے میں ترقی کے زیادہ جدید مرحلے تک پہنچ چکے ہیں۔ اس کا اطلاق سادہ جانداروں جیسے سانپ، آکٹوپس، کیکڑے، شہد کی مکھیوں اور ممکنہ طور پر پھلوں کی مکھیوں پر بھی ہوتا ہے۔

اس حوالے سے مزید تحقیق کے لیے فنڈز چاہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ آیا جانور باشعور ہیں یا نہیں اور اگر ایسا ہے تو کس حد تک۔

لیکن اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ شعور سے ہمارا کیا مطلب ہے تو آپ اکیلے نہیں ہیں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس پر سائنسدان بھی متفق نہیں ہوسکے۔ 17 ویں صدی میں فرانسیسی فلسفی رینے ڈیکارٹ نے کہا ’زبان جسم میں چھپی سوچ کی واحد علامت ہے۔‘

سسیکس یونیورسٹی کے پروفیسر انل سیٹھ کے مطابق جو اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کے زیادہ تر عرصے میں شعور کی تعریف کو سلجھاتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شعور سے مراد ’زبان، ذہانت اور شعور کا آپسی تعلق ہے۔

یہ نظریہ 20ویں صدی میں ابھرا اور اس میں کہا گیا ہے کہ خیالات اور احساسات کو سائنسی طریقوں سے ناپا نہیں جا سکتا ہے لہٰذا طرز عمل کا تجزیہ کرتے وقت اسے نظر انداز کیا جانا چاہیے۔

پروفیسر سیٹھ کے مطابق جانوروں کے رویے کے بہت سے ماہرین کو اس نظریے کے بارے میں تعلیم دی گئی تھی لیکن اب ایسے نقطہ نظر کی راہ ہموار ہوئی ہے جو انسانوں سے ہٹ کر ہے۔

’چونکہ ہم چیزوں کو انسانی عینک سے دیکھتے ہیں لہٰذا ہم شعور کو زبان اور ذہانت کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ وہ ہمارے اندر ایک ساتھ کام کرتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہر چیز میں ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔‘

بکرے
Getty Images

کچھ لوگ لفظ ’شعور‘ کے استعمال پر بہت تنقید کرتے ہیں۔ کیوبیک یونیورسٹی کے پروفیسر سٹیون ہرناڈ کا کہنا ہے کہ ’یہ میدان بے معنی الفاظ سے بھرا ہوا ہے اور بدقسمتی سے ان میں سے ایک شعور ہے۔‘

’یہ ایک ایسا لفظ ہے جو بہت سے لوگ اعتماد کے ساتھ استعمال کرتے ہیں لیکن ان سب کا مطلب کچھ مختلف ہے لہٰذا یہ بالکل بھی واضح نہیں ہے کہ اس کا کیا مطلب ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ایک بہتر لفظ ’حساسیت‘ ہے۔ جسے زیادہ شدت سے محسوس کرنے کی صلاحیت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

پروفیسر ہرناڈ کا کہنا ہے کہ ’ہر چیز کو محسوس کرنا، چُٹکی کاٹنے کو محسوس کرنا، سرخ رنگ دیکھنا، تھکاوٹ اور بھوک محسوس کرنا، یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو آپ محسوس کرتے ہیں۔‘

دوسرے لوگ جو جانوروں کے باشعور ہونے کے خیال کے بارے میں فطری طور پر شکوک و شبہات کا شکار رہے ہیں کہتے ہیں کہ باشعور ہونے کی نئی وسیع تر تشریح سے فرق پڑتا ہے۔

اوریگون سٹیٹ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر مونک اوڈیل کہتی ہیں کہ ان کا تعلق رویے کے پس منظر سے ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر ہم مختلف رویوں کو دیکھیں مثال کے طور پر کون سی انواع آئینے میں خود کو پہچان سکتی ہیں، کتنے آگے کی منصوبہ بندی کر سکتی ہیں یا ماضی میں ہونے والی چیزوں کو یاد رکھنے کے قابل ہیں تو ہم تجربات اور مشاہدے کے ساتھ ان سوالات کی جانچ کرنے اور اعداد و شمار کی بنیاد پر زیادہ درست نتائج اخذ کرسکیں گے۔‘

’اگر ہم شعور کو قابل پیمائش طرز عمل کے مجموعے کے طور پر بیان کرتے ہیں تو ان مخصوص کاموں میں کامیاب ہونے والے جانوروں کے لیے شعور کی اصطلاح استعمال کی جا سکتی ہے۔‘

ڈاکٹر اوڈیل کے مطابق یہ شعور کی بہت محدود تعریف ہے جسے نیا گروپ فروغ دے رہا ہے لیکن خیالات کا ٹکراؤ ہی سائنس کی روح ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے لوگوں کا ہونا ضروری ہے جو خیالات کو مشکوک انداز میں دیکھتے ہیں اور تنقیدی نظر ڈالتے ہیں کیونکہ اگر ہم ان سوالات کو مختلف طریقوں سے نہیں دیکھتے ہیں تو پھر ترقی کرنا مشکل ہو جائے گا۔

لیکن اس کے بعد کیا؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ شعور کے امکانات کے لیے پہلے سے زیادہ جانوروں کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔

ٹورنٹو کی یارک یونیورسٹی میں جانوروں کے ذہنوں پرمہارت رکھنے والی فلسفے کی پروفیسر کرسٹین اینڈریوز کہتی ہیں کہ ’اس وقت زیادہ تر سائنس انسانوں اور بندروں پر کی جاتی ہے اور ہم اس کام کو ضرورت سے کہیں زیادہ مشکل بنا رہے ہیں کیونکہ ہم شعور کے بارے میں اس کی سب سے بنیادی شکل میں نہیں سیکھ رہے ہیں۔‘

پروفیسر اینڈریوز اور بہت سے دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ انسانوں اور بندروں پر تحقیق اعلیٰ سطح کے شعور کا مطالعہ ہے جو بات چیت کرنے اور پیچیدہ جذبات کو محسوس کرنے کی صلاحیت میں ظاہر ہوتا ہے جبکہ آکٹوپس یا سانپ میں شعور کی زیادہ بنیادی سطح بھی ہوسکتی ہے جسے ہم تحقیق نہ کرکے نظر انداز کر رہے ہیں۔

پروفیسر اینڈریوز اس سال کے اوائل میں جانوروں کے شعور سے متعلق نیویارک اعلامیے کے اہم اقدامات میں شامل تھیں جس پر اب تک 286 محققین نے دستخط کیے ہیں۔ چار پیراگراف کے مختصر اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ جانوروں کے شعور کے امکان کو نظر انداز کرنا ’غیر ذمہ دارانہ‘ ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’ہمیں فلاحی خطرات پر غور کرنا چاہیے اور ان خطرات کے بارے میں اپنے ردعمل کو مطلع کرنے کے لیے شواہد کا استعمال کرنا چاہیے۔‘

کرس میگی کا تعلق برطانیہ کی ایک تنظیم انڈرسٹینڈنگ اینیمل ریسرچ سے ہے جسے ان تحقیقی اداروں اور کمپنیوں کی حمایت حاصل ہے جو جانوروں پر تجربات کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے قوانین کے مطابق تجربات صرف اسی صورت میں کیے جائیں جب طبی تحقیق کے فوائد اس تکلیف سے کہیں زیادہ ہوں۔

’ہمارے پاس احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے لیے کافی ثبوت موجود ہیں لیکن بہت کچھ ایسا بھی ہے جو ہم نہیں جانتے ہیں۔ بشمول کیکڑے، لوبسٹر، کری فش اور جھینگے جیسے متعدد ٹانگوں والے جانداروں کے بارے میں۔‘

’ہم ان کے زندگی کے تجربے کے بارے میں بہت کچھ نہیں جانتے ہیں یہاں تک کہ بنیادی چیزیں بھی نہیں جانتے ہیں کہ وہ مرتے کب ہیں۔‘

جانور شعور
Getty Images

سنہ2021 میں پروفیسر برچ کی سربراہی میں ایک حکومتی جائزے میں ڈیکاپوڈز (متعدد ٹانگوں والے)اور سیفلوپوڈز جس میں آکٹوپس، سکوئڈ اور کیٹل فش شامل ہیں کی موجودگی پر 300 سائنسی مطالعات کا جائزہ لیا گیا۔

پروفیسر برچ کی ٹیم نے دریافت کیا کہ اس بات کے پختہ شواہد موجود ہیں کہ یہ جاندار حسّاس تھے کہ وہ درد، خوشی، پیاس، بھوک، گرمجوشی، خوشی، آرام اور جوش و خروش کے احساسات کا تجربہ کر سکتے ہیں۔

ان نتائج کے بعد حکومت نے 2022 میں ان جانوروں کو اپنے جانوروں کی فلاح و بہبود ایکٹ میں شامل کیا۔ پروفیسر برچ کہتے ہیں ’آکٹوپس اور کیکڑے کی فلاح و بہبود سے متعلق مسائل کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ابھرتی ہوئی سائنس کو معاشرے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ وہ ان مسائل کو زیادہ سنجیدگی سے لے۔‘

جانوروں کی لاکھوں مختلف اقسام ہیں اور اس بارے میں بہت کم تحقیق کی گئی ہے کہ وہ دنیا کا تجربہ کیسے کرتے ہیں۔

ہم شہد کی مکھیوں کے بارے میں تھوڑا سا جانتے ہیں اور دیگر محققین نے لال بیگ اور یہاں تک کہ پھلوں کی مکھیوں میں بھی شعوری رویے پائے ہیں لیکن بہت سے دوسرے تجربات بھی ہیں جن میں بہت سے دوسرے جانور شامل ہیں۔

یہ مطالعہ کا ایک ایسا میدان ہے جس پر نیو یارک اعلامیے پر دستخط کرنے والے جدید دور کے منحرف محققین کو نظر انداز کیا گیا ہے یہاں تک کہ ان کا مذاق بھی اڑایا گیا ہے۔ان کی سوچ کو ناقابل بیان اور پابندی کے خطرے سے دوچار قرار دینا نئی بات نہیں ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.