سانگھڑ: ’اونٹنی کو مصنوعی ٹانگ لگنے میں وقت لگے گا، زخم بھرنے کا انتظار کرنا ہوگا‘

پاکستان کے صوبہ سندھ کے علاقے سانگھڑ میں زمیندار کے ہاتھوں زخمی ہونے والی اونٹنی کو پھر سے اپنے پیروں پرکھڑا کرنے کے لیے جانوروں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں پیش پیش ہیں۔ یاد رہے کہ زمیندار نے اپنی کھیت میں داخل ہونے کی وجہ سے اس اونٹنی کی ایک ٹانگ کاٹ دی تھی۔

پاکستان کے صوبہ سندھ کے علاقے سانگھڑ میں زمیندار کے ہاتھوں زخمی ہونے والی اونٹنی کو پھر سے اپنے پیروں پرکھڑا کرنے کے لیے جانوروں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں پیش پیش ہیں۔ یاد رہے کہ زمیندار نے اپنی کھیت میں داخل ہونے کی وجہ سے اس اونٹنی کی ایک ٹانگ کاٹ دی تھی۔

پاکستان میں اس زخمی اونٹنی کا علاج کرنے والے ادارے سی ڈی ایس کا کہنا ہے کہ اس کو مصنوعی ٹانگ لگنے میں وقت لگے گا کیونکہ اس کے زخم بھرنے تک ایسا نہیں کیا جا سکتا تاہم وہ مصنوعی ٹانگ لگانے کے لیے کئی بین الاقوامی اداروں سے رابطے میں ہیں۔

سی ڈی آر ایس بینجی پراجیکٹ فار اینیمل ویلفیئر کے بانی ٹاڈ شے نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اونٹنی اچھا رسپانس دے رہی ہے وہ اچھی طرح سے کھا پی رہی ہے اس کے زخم ٹھیک ہونے میں تھوڑا وقت لگ سکتا۔‘

بقول ان کے اونٹنی کو جس نوعیت کے زخم ہیں اس کا علاج و ادویات پاکستان میں دستیاب ہیں اس لیے انھیں کوئی مشکل نہیں ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’جہاں تک اس کو مصنوعی ٹانگ لگانے کا معاملہ ہے اس کے لیے ہم مختلف بین الااقومی اداروں سے رابطے میں ہیں اور بالخصوص ان لوگوں سے جو اونٹوں کے منصوعی ٹانگ بنانے اور لگانے میں مہارت رکھتے ہیں اس میں متحدہ عرب امارات اور دیگر مقامات شامل ہیں تاہم ابھی تک ہم نے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انھیں کوئی جلدی نہیں کیونکہ ایسا تب تک نہیں کیا جا سکتا جب تک اونٹنی کے زخموں سے خون رِسنا بند نہیں ہوجاتا اور وہ مصنوعی ٹانگ کے لیے تیار نہیں ہو جاتی۔

اونٹنی کا زخمی ہونے کی وجہ زیادہ دیر تک کھڑا رہنا دشوار ہے اس لیے دن میں ایک بار اس کو کھڑا کرنے کے لیے مدد کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ کسی بھی چوپائے کے لیے اس حالات میں اس زمین پر رہنا اس کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔

’وزن اور بڑھتی عمر کو مدنظر رکھنا ہوگا‘

بائیو نک کے چیف ویژن افسر انس نیاز کا کہنا ہے کہ وہ زخمی اونٹنی کی مصنوعی ٹانگ بنا رہے ہیں اس حوالے سے وہ حکومت سندھ سے مسلسل رابطے میں ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ زخم ٹھیک ہونے میں ایک ماہ لگے گا جس کے بعد انھیں مزید ڈیڑھ ماہ کا عرصہ لگے گا یہ مصنوعی ٹانگ بناکر لگانے میں ان کی کوشش ہے کہ فی الحال کوئی ایسا انتظام کریں جس سے وہ آسانی سے کھڑی ہوسکے۔

انھوں نے بتایا کہ اس مصنوعی ٹانگ کی تیاری مقامی طور پر ہوگی اس میں ان پاکستانی ماہرین کی مشاورت شامل ہوگی جو مختلف خطوں میں اس شعبے سے منسلک رہے ہیں۔

ان کی کوشش ہے کہ ایک آرام دہ اور مضبوط مصنوعی ٹانگ بنائی جائے کیونکہ اونٹنی کی ابھی نشوونما ہونی ہے دوسرا اس کا وزن ہے جس کو مد نظر رکھ کر ہی یہ کام سرانجام دینا ہے۔

انس نیاز اس سے قبل بچوں میں روبوٹک بازو لگا چکے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ انسان سے تو بات کرکے پوچھا جاسکتا ہے کہ یہ اس کے لیے آرام دہ ہے یا نہیں؟ کوئی دشواری تو نہیں؟ تاہم جانوروں کے کیس میں یہ ممکن نہیں ہے اس لیے انھیں ہی سب کچھ اپنے طور پر کرنا ہوگا۔

’اونٹنی نمائندہ ہے‘

سی ڈی آر ایس بینجی پراجیکٹ فار اینیمل ویلفیئر کے بانی ٹاڈ شے امریکہ کے مشہور گٹارسٹ رہے ہیں پاکستان میں کئی سالوں سے جانوروں کے فلاح و بہبود پر کام کر رہے ہیں کراچی ملیر کے علاوہ سکردو، لاہور اور اسلام آباد میں بھی ان کے جانوروں کے شیلٹر ہومز ہیں۔

ٹاڈ شے کہتے ہیں کہ ’اونٹنی ان تمام جانداروں کی نمائندہ ہے جن پر پاکستان میں ظلم و ستم ہوتا ہے۔ یہاں لاکھوں کتے، بلیاں اور دیگر جانور ہیں جنھیں روزانہ ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کی کبھی بھی سٹوری نہیں بنتی۔‘

پاکستان میں جانور پر ظلم و جبر کا رجحان بدقسمتی سے زیادہ ہے لیکن یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جو میں نے سنا ہے جس میں ایک شخص نے کھیتوں میں گھس آنے پر اونٹنی کا پاؤں کاٹ دیا ہو۔ پاکستان میں لوگ یہ نہیں جانتے کہ جانوروں کی فلاح کتنی اہمیت کی حامل ہے اور خود مذہب اسلام میں اس کی اہمیت کیا ہے خدا اور پیغمبر اسلام نے اس بارے میں رہنمائی فرام کی ہے کہ تمام مخلوق پر مہربان ہوں ظالم نہ بنیں۔‘

ٹاڈ شے کے مطابق ’لوگ اپنی محرومیاں اور غصہ جانوروں پر نکالتے ہیں کیونکہ وہ کمزور ہیں وہ اپنی دیکھ بھال کے لیے انسانوں پر انحصار کرتے ہیں پھر چاہے یہ زراعت میں کام آنے والے جانور ہوں، پرندے ہوں یا پالتو جانور ہوں۔‘

’اونٹنی کو بچانے کے لیے اسے مسلسل کھڑا رکھنا پڑے گا‘

’اونٹنی کا درد گھٹانے اور زخم خشک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کو کھڑا رکھنا ہوگا۔ اگر بیٹھے گی تو اس کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔‘

سماجی کارکن سارہ جہانگیر اس آٹھ ماہ کی زخمی اونٹنی کے بارے میں بتا رہی تھیں جسے ان کی تنظیم سی ڈی آر ایس بینجی پراجیکٹ فار اینیمل ویلفیئر نے سانگھڑ سے ریسکیو کر کے کراچی کے ایک شیلٹر ہوم میں منتقل کیا ہے اور یہ فی الحال وہاں زیرِ علاج ہے۔

صوبہ سندھ کے ضلع سانگھڑ کے علاقے منگلی میں اس اونٹنی کی ٹانگ کاٹنے کے خلاف 13 جون کو مقامی پولیس کی جانب سے مقدمہ درج کیا گیا۔

سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن کے مطابق ملزمان اور اونٹنی کے مالک میں معاملات طے ہو چکے تھے لیکن انسانی طور پر یہ ناقابل قبول ہے اس لیے ریاست کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی ترجمان اور سانگھڑ سے رکن قومی اسمبلی شازیہ مری کا کہنا ہے کہ اونٹنی کو مصنوعی ٹانگ لکانے کے لیے مختلف کمپنیوں سے رابطے کیے گئے ہیں۔

ادھر سوشل میڈیا پر صارفین نے اس واقعے پر برہمی کا اظہار کیا ہے اور واقعے میں ملوث ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

’بیٹھنے سے پیچیدگیاں جان لیوا ثابت ہوسکتی ہیں‘

پولیس اے ایس آئی بڈھل خان کا کہنا ہے کہ وہ پولیس چوکی پر موجود تھے کہ ’سوشل میڈیا پر یہ خبر چلی کہ سومر بھن نامی شخص کے اونٹنی کو نامعلوم ملزمان نے کلہاڑی کے ضرب مار کر کر بائیں ٹانگ کاٹ دی ہے۔‘

پولیس کی جانب سے درج کیے گئے مقدمے کے مطابق مدعی پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ جب وہ جائے وقوعہ پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک اونٹنی کی آگے کی ایک ٹانگ گھٹنے کے نیچے سے کٹی ہوئی تھی۔

انھوں نے اس اونٹنی کے مالک سے ملاقات کی مگر انھوں نے مقدمہ درج کرانے سے انکار کر دیا تھا لہذا یہ مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج کیا گیا۔

خیرپور کے صحرائی علاقے سے تعلق رکھنے والے اونٹنی کے مالک سومر بھن نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ وہ ٹانگ کاٹنے والے لوگوں کو نہیں جانتے اور اسی لیے مقدمہ بھی نہیں درج کرانا چاہتے۔

سانگھڑ پولیس نے مقدمہ درج کر کے چھ افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ایس ایس پی اعجاز شیخ کے مطابق دو ملزمان نے اس عمل میں شرکت کا اعتراف بھی کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے سنا ہے کہ فریقین میں تصفیہ ہوگیا ہے۔ انسان تو سمجھوتہ کر لیتا ہے لیکن جو اذیت جانور کو دی گئی اس کا مدوا کون کرے گا؟ اسی اصول کے تحت سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔‘

سی ڈی آر ایس بینجی پراجیکٹ فار اینیمل ویلفیئر کی ڈائریکٹر سارہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ اس اونٹنی کی آگے کی ایک ٹانگ کٹی ہوئی ہے اور اب اس کے علاج کے لیے دبئی میں بھی ماہرین سے مشاورت کی جا رہی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس کا مستقل حل مصنوعی ٹانگ ہے۔ ابھی یہ چھوٹی ہے، صرف آٹھ ماہ کی ہے۔ اگر یہ بیٹھتی ہے تو اس کو پیٹ اور گیس کے مسائل ہوسکتے ہیں، جس کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں جان لیوا ثابت ہوسکتی ہیں۔ اس لیے اس کو مسلسل کھڑا رکھنا ہوگا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’چھوٹے جانور، جیسے بلی یا کتا، وہ تین ٹانگوں پر جی سکتے ہیں لیکن بڑے جانوروں کے لیے بڑا کٹھن ہوتا ہے۔ اب یہ اونٹنی اسی شیلٹر میں مستقل رہے گی کیونکہ معذور جانور کسی کے کام کا نہیں ہوتا۔‘

قانون اونٹنی کو تحفظ دے گا یا زمیندار کو؟

سندھ اور پنجاب کے زرعی علاقوں میں جب جانور فصلوں میں گھس جاتے ہیں تو یہ فصلوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ جانوروں کے اس عمل کو مقامی طور پر بھیل کہا جاتا ہے۔

نور محمد سموں فیس بک پر لکھتے ہیں کہ یہ پہلا اور آخری واقعہ نہیں ہے۔ ’(ہم) اچھڑو تھر اور نارا کینال کے بیراجی علاقے میں تین دہائیوں سے ایسے واقعات دیکھتے آ رہے ہیں۔ بھیل کرنے والے اونٹوں کو بعض زمیندار گاڑیوں کو دوڑا کر کچل کر مار دیتے ہیں یا ان پر بندوق (سے گولیاں) چلائی جاتی ہے۔ جواز یہ دیا جاتا ہے کہ آپ کو متعدد بار متنبہ کیا تھا لیکن پھر بھی جانور کو نہیں روکا۔‘

نور محمد سموں کے مطابق بکری یا بھیڑ پودوں کے پتے یا شاخیں کھاتے ہیں لیکن اونٹ جیسا بڑی قدامت والا جانور کپاس کے پودے کو جڑ سے ہی نکال دیتا ہے۔

سانگھڑ کے صحافی عبدالرحمان خاصخیلی نے بتایا کہ اچھڑو تھر سے محلقہ سانگھڑ کے اس علاقے میں چراگاہیں ہوتی تھیں جو سرکار نے الاٹ کردیں یا لوگوں نے قبضے کر لیے۔ ’اب اونٹ جیسے بڑے جانوروں کے لیے چراگاہیں نہیں ہیں، اس لیے بھی ایسے واقعات پیش آرہے ہیں۔‘

دیہی علاقے میں اگر کوئی جانور کسی کی فصل کو نقصان پہنچائے تو اس کا فیصلے مقامی طور پر کیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ جس زمیندار یا کاشت کار کو جانور نقصان پہنچاتے ہیں، کیا اس کا کوئی قانونی راستے بھی موجود ہے؟

کیٹل ٹریس پاس ایکٹ 1871 مالک کا ازالہ کرتا ہے۔ اس قانون کے مطابق اگر کوئی مویشی زمین یا اس پر موجود فصل کو نقصان پہنچاتا ہے تو اس جانور کو ضبط کیا جائے گا اور اس کو ڈھک منتقل کیا جائے گا۔ جب تک مجسٹریٹ کسی فیصلے تک پہنچے، اس وقت تک جانور کی خوراک کی ذمہ داری مالک کی ہوگی۔ علاقے، فصل کی نوعیت کے حساب سے مالک پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

پولیس متنازع، لاورث، چوری اور ملزمان سے برآمد ہونے والے مال مویشیوں کو ڈھک میں رکھتی ہے۔ یہ ڈھک اینیمل ہسبنڈری کا محکمہ چلاتا ہے جہاں ان جانوروں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ نظام غیر فعال ہوگیا ہے۔

ایس ایس پی تنویر تنیو نے بتایا کہ انھوں نے 2014 میں شاید آخری مرتبہ کچھ جانور ڈھک میں بھیجے تھے اور اب یہ نظام غیر فعال ہوچکا ہے۔

بظاہر سانگھڑ کے واقعے میں زمیندار نے پولیس سے رجوع کیے گئے، خود ہی اونٹنی کی ٹانگ کاٹ دی۔

پاکستان میں جانوروں پر ظلم و جبر کی روک تھام کے قوانین موجود ہیں لیکن ان میں انتہائی چھوٹی رقم جرمانہ اور قید کی سزائیں موجود ہیں۔ یہ قوانین برطانوی دور حکومت میں نافذ ہوئے تھے۔

اونٹنی کی ٹانگ کاٹنے کا مقدمہ تعزیرات پاکستان کی زیر دفعہ 429 کے تحت دائر کیا گیا ہے جس کے مطابق ایک ہزار یا اس سے زائد مالیت کے کسی جانور کو مار دینا، زہر دینا، یا نقصان پہنچانا قابل دست جرم ہے جس کی سزا دو سال قید یا جرمانہ یا دونوں ہوں گی۔

جانوروں پر ظلم و جبر سے تحفظ کے قانون پروبیشن آف کیرولٹی ٹو اینیمل ایکٹ 1890 کے تحت بھی اونٹ پر تشدد کا یہ عمل جرم ہے۔

اس قانون کے مطابق اگر کوئی بھی ملزم پہلی بار جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کو پانچ سو روپے جرمانہ اور ایک ماہ کی قید کی سزا دی جائے گی۔ اگر تین سال کے عرصے میں دوسری بار یہ جرم کرتا ہے تو سو روپے جرمانہ اور چھ ماہ کی قید کی سزا کا حقدار ہوگا۔

قانون کے مطابق مقامی مجسٹریٹ متاثرہ جانور کے علاج کا حکم جاری کرے گا اور یہ معمول کے مطابق کام سرانجام دینے تک تحویل میں رہے گا۔ بعد میں وٹنری ڈاکٹر کی جانب سے سرٹیفیکیٹ کے اجرا کے بعد اس کو مالک کے حوالے کیا جائے گا۔

https://twitter.com/asmashirazi/status/1802235926338248920

’ظلم ایسا ہے کہ مذمت کرنے کے الفاظ بھی گم ہیں‘

کٹی ہوئی ٹانگ کے درد سے چیختی چلاتی اور آنسو بہاتی اونٹنی کی ویڈیوز اور تصاویر ویڈیو فیس بک سمیت دیگر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں۔

صارفین کی جانب سے حکومت سندھ سے اس پر نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

صحافی حامد میر نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ایکس پر لکھا کہ ’بااثر وڈیرے کی زرعی زمین میں اونٹ داخل ہوا تو وڈیرے کو غصہ آگیا اور ملازمین کے ہمراہ مل کر اونٹ کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا۔ پھر بھی غصہ ٹھنڈہ نہ ہوا تو تیز دھار آلے سے اونٹ کی ٹانگ کاٹ دی۔ خبر میں وڈیرے کا نام ہے نہ ہی اس کی پارٹی کا ذکر۔ اس کا نام کوئی تو بتائے۔‘

https://twitter.com/HamidMirPAK/status/1801791284299870310

صحافی عاصمہ شیرازی نے لکھا کہ ’ظلم ایسا ہے کہ مذمت کرنے کے الفاظ بھی گم ہیں۔ جہاں انسان نہ بچتے ہوں وہاں بے زبان کیا بچیں گے، خدا کرے انصاف ہو۔‘

علی اکبر گنجل لکھتے ہیں یہ وہ ظالم لوگ ہیں جنھوں نے بے زبان اونٹ کی ٹانگ کاٹ دی ہے۔ ’انصاف کا تقاضہ ہے کہ ان سب کی ایک ایک ٹانگ کاٹ دی جائے۔‘

مسلم لیگ ن کی جانب سے اس واقعے کو سیاسی رنگ بھی دیا گیا۔ سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق لکھتے ہیں کہ ایک بے زبان معصوم اونٹ کی ٹانگ کاٹنے کے دلدوز واقعے نے ہر انسان کا دل ہلا دیا۔ ’سانگھڑ میں اونٹ کی ٹانگ کاٹنے والے وڈیرے، اس کے ساتھی، جرم چھپانے والے پولیس حکام اور اپنے حامی مجرم کو بچانے والے طاقتور سیاست دان سب بھگتیں گے۔‘

https://twitter.com/Anny_Marri/status/1801933248408560093

حنا پرویز بٹ لکھتی ہیں کہ ظلم کی حد ہے ایسا اگر پنجاب میں ہوتا تو وزیر اعلیٰپنجاب مریم نواز اس واقعہ کا سخت ایکشن لیتیں اور اب تک مجرم جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتا۔

پی پی پی کی سینیٹر اینی مری نے انھیں جواب دیا کہ ’بیبی ایک نہیں پانچ ملزم جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور اونٹ کا علاج ہو رہا ہے۔ وہ پناہ گاہ میں شفٹ کیا گیا ہے۔

’ہر وقت ضروری نہیں ہوتا کہ اپنی لیڈرشپ کی چمچا گیری میں بندہ اتنا آگے نکل جائے کہ سچائی کو دیکھ نہ سکے یا دیکھ کر بھی ان دیکھا کر دے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.