’سپر رچ اِن کوریا‘: نیٹ فلکس کے کورین شو کی انا کِم کو ’سب چھوڑ کر‘ پاکستان کیوں آنا پڑا

نیٹ فلکس کے ایک ریئلٹی شو میں آنے والی انا کم نے اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ کوریا میں گزارا ہے مگر ایک موقع پر انھیں ’سب چھوڑ کر‘ پاکستان آنا پڑا۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں بی بی سی کو بتایا کہ وہ کیسے کوریا میں رہتے ہوئے پاکستانی کلچر کو پروموٹ کرتی رہی ہیں۔
انا کم
BBC
انا کے بقول وہ گذشتہ 10 سال سے پاکستانی کلچر کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہیں

مجھے نیٹ فلکس پر کورین سیزنز دیکھنے کا اس قدر شوق ہے کہ ایک دن میں ہی پورا سیزن ’بنج واچ‘ کر کے ختم کر سکتی ہوں۔ چند دن پہلے میری نظر ’سُپر رِچ اِن کوریا‘ نامی ایک سیریز پر پڑی۔

اس میں ایک چہرہ کہیں سے کورین نہیں لگ رہا تھا۔ میں نے شو کے بارے میں پڑھا تو حیرانی ہوئی کہ اس میں شامل انا کِم کا تعلق دراصل پاکستان سے ہے۔

میں نے انا سے لاہور میں ملنے کا ارادہ کیا۔ اُن سے پہلی ملاقات میں یہ کوئی نہیں بوجھ سکتا کہ انھوں نے نہ صرف اپنی ساری زندگی جنوبی کوریا میں گزاری ہے بلکہ وہ کورین شہری بھی ہیں۔ ان کے کپڑوں کا انداز پاکستانیوں جیسا ہی ہے اور وہ اچھی اُردو بھی بول لیتی ہیں۔

ویسے تو جنوبی کوریا کا نام سنتے ہی ’کے پاپ‘ گلوکاروں اور ’کے بیوٹی‘ مصنوعات کا خیال آتا ہے مگر دنیا بھر میں ’کے ڈرامہ‘ کی مقبولیت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

انا کی وجہ سے نیٹ فلکس کی کورین سیریز ’سپر رچ ان کوریا‘ پاکستان میں بھی کافی مقبول ہوئی ہے۔ اس سیریز کے ذریعے کوریا سمیت دنیا بھر نے پاکستانی ثقافت کی ایک جھلک دیکھی ہے۔

انا کم نے اپنی ساری عمر کوریا میں بسر کی مگر تین سال قبل وہ شادی کر کے پاکستان منتقل ہو گئیں۔

پانچ امیر لوگوں کی کہانی میں ’پاکستانی ثقافت کا رنگ‘

16 قسطوں پر مشتمل سپر رچ اِن کوریا ایک ریئلٹی شو ہے جس میں کوریا کے پانچ امیر لوگوں کی زندگیاں دکھائی گئی ہیں۔

انا کم کے علاوہ اس کاسٹ میں متحدہ عرب امارات سے ایک عراقی نور نعیم، اطالوی ٹیوڈورو مارانی اور سنگاپور کے ڈیوڈ یونگ بھی شامل ہیں۔

سیریز میں دکھایا گیا ہے کہ یہ لوگ اپنی روزمرہ زندگی کیسے گزارتے ہیں اور کیسے اپنی مشکلات کا مقابلہ کرتے ہیں۔ شو کے آخر میں یہ پانچ لوگ مل کر اپنی دوستی کا جشن مناتے ہیں۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انا نے بتایا کہ ’یہ سیریز میرے بھائی کو ملی تھی۔ (مگر) اُس نے مجھے کہا کہ یہ تم کرو۔ انھیں اور میرے شوہر کو یقین تھا کہ میں یہ کر لوں گی۔‘

سیریز میں پاکستان میں ہونے والی شادیاں، یہاں کے کپڑے، مختلف تقاریب، تاریخی مقامات اور موسیقی دیکھنے کو ملتی ہے۔ انا کا کہنا ہے کہ اس سیریز کے بارے میں سن کر اُن کو لگا کہ وہ ’پاکستانی کلچر‘ پوری دنیا کو دکھا سکتی ہیں۔

اگر اس سیریز میں انا کو دیکھا جائے تو اُنھوں نے پاکستانی ڈیزائنرز کے کپڑے پہنے ہیں۔ اس بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ ’میں بھی انٹرنیشنل برینڈز کے کپڑے پہن سکتی تھی مگر باقی کاسٹ کے لوگ یہ پہلے سے کر رہے تھے۔ مجھے اُن سے مختلف اور اپنے کلچر کو فروغ دینا تھا۔‘

شلوار قمیض میں ملبوس انا نے بتایا کہ پاکستان میں لوگوں کو تو اُن کے بارے میں اس سیریز کے بعد ہی پتا چلا مگر وہ برسوں سے پاکستانی کلچر کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہیں۔

انا پیدا تو پاکستان میں ہوئیں مگر کم عمری میں ہی وہ اپنے والدین کے ہمراہ جنوبی کوریا چلی گئی تھیں۔ اُن کے والد بزنس مین ہیں۔ ان کی والدہ کوریا میں ایک این جی او چلاتی ہیں۔

انا نے پاکستان میں اپنی شادی کی کہانی بتاتے ہوئے کہا کہ وہ ایک بار پاکستان آئیں تو اُن کے ماموں نے انھیں قمر سے ملوایا جن سے بعد میں ان کی شادی ہوئی۔

وہ یاد کرتی ہیں کہ ’جب میں اُن سے ملی تو مجھے لگا کہ وہ بے روزگار ہیں اور شادی کے بعد مجھے اُن کو کوریا اپنے ساتھ لانا پڑے گا کیونکہ ہم کافی عرصے سے بات کرتے رہے تھے۔ کورونا کی وجہ سے (ہم) مل نہیں سکے تھے۔‘

انا یہ نہیں جانتی تھیں کہ اُن کے شوہر کوئی عام آدمی نہیں بلکہ خضر حیات ٹوانہ کے نواسے قمر ٹوانہ ہیں۔ خضر حیات ٹوانہ 1942 سے 1947 تک انڈیا میں پنجاب کے سرکردہ رہنما تھے۔

انا نے کہا کہ وہ اپنے شوہر کی حیثیت سے آگاہ نہیں تھیں اور نہ ہی انھوں نے ٹوانہ خاندان کے 200 سالہ دور کو دیکھا ہوا تھا۔

وہ تسلیم کرتی ہیں کہ ’میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ سب چھوڑ کر پاکستان آجاؤں گی۔ میرے والدین اور بھائی اب بھی کوریا میں ہی ہیں۔‘

’سوچا بھی نہیں تھا کہ سب چھوڑ کر پاکستان آجاؤں گی‘

انا کے بقول وہ گذشتہ 10 سال سے پاکستانی کلچر کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہیں۔ انھوں نے کورین امیگریشن سروسز میں بطور لینگویج انٹرپریٹر کام شروع کیا تھا۔

ہر سال کوریا میں ہائی سیول فیسٹیول منعقد ہوتا ہے جہاں دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں۔ انا کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنے والدین کی مدد کے ساتھ پاکستانی سفارتخانے کے ذریعے اس فیسٹیول میں پاکستانی کلچر کو فروغ دینا شروع کیا تھا۔‘

انا نے اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی میں کورین لیکچرر کے طور پر کئی کورسز کروائے۔ انھوں نے پاکستانی تارکین وطن کے لیے بھی کام کیا۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے کورین زبان سکھانے کے لیے ایپ بھی بنائی ہے۔

پاکستان میں کے پاپ سٹارز کے بے شمار مداح پائے جاتے ہیں۔ مگر یہاں اُن کے کبھی کنسرٹ نہیں ہوئے۔ نہ ہی اُنھوں نے پاکستان میں اپنے مداحوں سے ملنے کے لیے کوئی میٹنگ رکھی۔

مگر انا نے وہ کر کے دکھایا جو ناممکن تھا۔ کے پاپ کے مشہور بینڈ ’بلٹزر‘ کو پاکستان لانے والی بھی انا ہیں۔

اس گروپ نے پوری میوزک ویڈیو لاہور میں شوٹ کی۔ انا نے کوریا سے آئے ان 100 افراد پر مشتمل عملے کے ساتھ مل کر لاہور کی ثقافت کو کوریا میں دیکھایا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’کوریا میں پاکستان کی ساکھ بہت خراب ہے۔ مجھے لگا کہ اس گروپ کی ویڈیو کے ساتھ ہم پاکستان کی ساکھ کو بہتر کر سکتے ہیں۔‘

انا نے کہا کہ یہ سب اُن کے شوہر کی مدد سے ممکن ہو سکا۔ انا اب روانی سے اُردو بول لیتی ہیں مگر ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے خود بھی یقین نہیں ہو رہا کہ میں آپ سے مکمل اُردو میں بات کر رہی ہوں۔ مگر ایسی اردو میں نے تین سال میں سیکھی ہے۔‘

انا کم
BBC
انا پیدا تو پاکستان میں ہوئیں مگر کم عمری میں ہی وہ اپنے والدین کے ہمراہ جنوبی کوریا چلی گئی تھیں

پاکستان میں مزید کورین پروجیکٹ لانے کا وعدہ

اکثر باہر رہنے والے لوگوں سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ اُن کو رنگ یا مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر انا کے بقول انھوں نے اس کا سامنا نہیں کیا۔

اگرچہ وہ کہتی ہیں کہ شاید رنگت کے معاملے میں انھیں کبھی امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا تاہم وہ اس بات سے بھی اتفاق کرتی ہیں کہ کوریا کے ’ہائی بیوٹی سٹینڈرڈز‘ کی وجہ سے سیاہ فام لوگوں کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انا کے بھائی علی کورین کی کئی مشہور نیٹ فلکس سیریز میں کام کر چکے ہیں۔ انا کے ساتھ وہ بھی موجود تھے۔ اُنھوں نے بتایا کہ ’ڈراموں یا فلموں میں ایشینز کو منفی کردار ہی دیا جاتا ہے مگر آہستہ آہستہ یہ سب تبدیل ہو رہا ہے۔ اس میں وقت لگے گا۔‘

انا کا کہنا ہے کہ وہ جلد پاکستان میں ’کے بیوٹی‘ کا ایک برینڈ لانچ کرنے جا رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اور اُن کے بھائی پُرامید ہیں کہ وہ جلد ہی پاکستان میں کے پاپ آرٹسٹ کے کنسرٹ کروائیں گے۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ پوری کوشش کریں گے کہ ’کوریا سے کے پاپ سٹارز کو پاکستان لے کر آئیں اور پاکستان کی مثبت ایمیج دنیا کو دکھائیں۔‘

انا نے پاکستان میں اپنی پروڈکشن کمپنی بھی شروع کی ہوئی ہے۔ ان کے مطابق اس کمپنی کا مقصد مستقبل میں کورین اور پاکستانی انڈسڑی کا اشتراک ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.