’یہ آپریشن فوج کی نہیں، ہماری ضرورت ہے‘: قبائلی عوام ایک اور آپریشن سے نالاں مگر حکومت پُرعزم

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ملک میں امن و امان کے قیام اور دہشتگردی کی نئی لہر کے خاتمے کے لیے شروع ہونے والے فوجی آپریشن ’عزم استحکام‘ سے متعلق سیاسی جماعتوں اور قبائلی عمائدین سے مشاورت جاری رہے گی۔ تاہم ملک میں اس آپریشن کے بارے میں پاکستانی حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود قبائلی علاقوں کے عوام اس فیصلے سے خوش نظر نہیں آتے۔
آپریشن عزم استحکام
Getty Images

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ملک میں امن و امان کے قیام اور دہشتگردی کی نئی لہر کے خاتمے کے لیے شروع ہونے والے فوجی آپریشن ’عزم استحکام‘ سے متعلق سیاسی جماعتوں اور قبائلی عمائدین سے مشاورت جاری رہے گی۔

بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں پاکستانی وزیر دفاع نے کہا کہ ماضی میں کیے جانے والے فوجی آپریشنز کے بعد پاکستان کو یہ توقع نہیں تھی کہ ملک میں دہشتگردی ایک بار پھر بڑھے گی۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں طالبان کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا۔

تاہم ملک میں اس آپریشن کے بارے میں پاکستانی حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود قبائلی علاقوں کے عوام اس فیصلے سے خوش نظر نہیں آتے۔

اس سوال پر کہ کیا یہ نیا آپریشن محض فوج کی طرف سے آنے والا ایک منصوبہ ہے اور ان کی حکومت مجبوراً اس کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے رہی ہے، خواجہ آصف نے کہا کہ ’حکومت کی ذمہ داری بھی ہے اور یہ ذمہ داری لینی بھی چاہیے۔ یہ آپریشن فوج کی نہیں، ہماری ضرورت ہے۔‘

خیال رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں ’عزم استحکام‘ کے نام سے شدت پسندوں کے خلاف ایک نئے آپریشن کا اعلان کیا تھا۔ ان کے اس اعلان کے بعد حزب اختلاف سمیت متعدد سیاسی جماعتوں اور خاص طور پر قبائلی عمائدین نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

تاہم ایسا پہلی بار نہیں کہ دہشتگردی کے خلاف پاکستان میں آپریشن کا آغاز کیا گیا ہو۔ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران کئی بڑے اور چھوٹے آپریشنز ملک میں جاری رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر بڑے فوجی آپریشنز سابق فاٹا کے مختلف علاقوں میں مختلف ادوار میں کیے گئے۔

پاکستان کو توقع نہیں تھی کہ دہشتگردی ایک بار پھر بڑھے گی‘، خواجہ آصف’
BBC
’دہشتگردی میں شدت کے بعد ہمیں ایک نئی صف آرائی کی ضرورت تھی‘، خواجہ آصف

پاکستان میں اب تک ہونے والے فوجی آپریشنز

2007 میں خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف پہلا بڑا فوجی آپریشن ’راہ حق‘ کے نام سے شروع کرایا۔

2009 میں سوات میں سکیورٹی کی صورت حال ایک بار پھر اس وقت خراب ہو گئی جب ملا فضل اللہ منظر عام پر آئے۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں فوج نے ’راہ راست‘ نامی آپریشن شروع کیا جو تین ماہ تک جاری رہا۔

جنوبی وزیرستان میں 2009 میں آپریشن ’راہ نجات‘ شروع کیا گیا جبکہ 2012 میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا فوجی آپریشن ’ضرب عضب‘، جنرل راحیل شریف کی قیادت میں شروع کیا گیا۔

2016میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کی کمان سنبھالی تو آپریشن ’رد الفساد‘ کے نام سے انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن شروع ہوا اور اس کا دائرہ کار ملک بھر میں پھیلایا گیا تھا۔

حکومت کا کہنا ہے کہ آپریشن عزم استحکام میں نقل مکانی نہیں ہو گی
Getty Images
گذشتہ دو دہائیوں میں متعدد فوجی آپریشنز کے دوران لاکھوں افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی

’ہم اِن آپریشنز کے نام سن سن کر تھک چکے ہیں‘

پاکستانی حکومت نے آپریشن کا اعلان تو کر دیا تاہم قبائلی علاقوں کے عوام اس فیصلے سے خوش نظر نہیں آتے۔

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ضلع اورکزئی کے نوجوان خیال زمان کہتے ہیں کہ قبائلی علاقے کے لوگ آپریشنز کے نام سن کر سن کر تھک چکے ہیں۔ ’یہاں تک کہ اب وہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ ماضی میں جو آپریشنز کیے گئے ان سے امن قائم نہیں ہوا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ حکومت یہاں امن کے قیام اور علاقے کی ترقی کے لیے اب کوئی تیسرا راستہ اپنائے۔ ’میرا اپنا گھر تباہ ہوا ہے، یہاں تک کہ پورا گاؤں تباہ ہے۔ یہی حال باقی تمام علاقوں میں ہے، یہاں تک کہ بعض علاقوں میں تو لوگوں کی واپسی اب تک نہیں ہوئی اور اب ایک اور آپریشن کا اعلان کر دیا گیا ہے۔‘

ضلع کرم سے تعلق رکھنے والے عبدالوہاب نے بھی بی بی سی سے بات کی اور کہا کہ قبائلی علاقوں میں آپریشن کے ساتھ ساتھ ان کا خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کیا گیا لیکن ’قبائلی علاقوں میں تبدیلی انضمام سے آئی نہ ہی آپریشنز سے۔‘

باجوڑ سے تعلق رکھنے والے محمد عثمان کہتے ہیں کہ انھیں اس بات پر حیرت ہے کہ ’ہر چند سال بعد ایک آپریشن شروع کر دیا جاتا ہے، لیکن قبائلی علاقوں کی پسماندگی کی طرف توجہ نہیں جاتی۔ اس کے لیے حکومت کے پاس فنڈز نہیں ہوتے۔‘

وزیر دفاع خواجہ آصف بھی قبائلی عوام کی جانب سے نئے آپریشن پر تحفظات کی وجہ ان علاقوں کی پسماندگی اور سابق فاٹا کے خیبرپختونخوا میں ضم ہوتے وقت کیے جانے والے وعدوں پر عملدرآمد نہ ہونا بتاتے ہیں۔

اس سوال پر کہ مقامی عوام کے عدم اعتماد کے بغیر آپریشن کیسے کامیاب ہوگا، خواجہ آصف نے کہا کہ ان کی ترقی کے لیے مختص رقم اور منصوبہ بندی میں کوتاہی کی گئی ہے۔ تاہم ان کے مطابق قبائلی عوام کا ایک بڑا حصہ اس آپریشن کے خلاف نہیں ہے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر اعظم اور فوجی قیادت کے خیالات اپنی جگہ، عوامی سطح پر ردعمل اس بار شدید ہے اور عملی اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔ مثلاً ضلع کرم میں چمکنی قوم نے فیصلہ کیا ہے کہ آپریشن کے نتیجے میں اگر کسی نے نقل مکانی کی تو انھیں دس لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا۔

سابق قبائلی علاقوں کی سیاسی جماعتوں نے اس آپریشن کی مخالفت کی ہے
Getty Images
قبائلی عمائدین اور شہریوں کی جانب سے فی الحال اس آپریشن سے متعلق تحفظات کا اظہارکیا جا رہا ہے۔

وزیرستان میں وانا اولسی پاسون کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ جلد احتجاج اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کریں گے۔ دیر امن جرگے میں آپریشن کی مخالفت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ’شدت پسند سرنگوں سے نہیں آتے، ان کی کڑی نگرانی اداروں کی ذمہ داری ہے۔‘

پشاور میں حکومتی سطح پر منعقد قبائلی امن جرگہ میں آپریشن کی مخالفت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اس پر پارلیمان میں بحث کی جائے۔

لیکن سیاسی جماعتوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز، خاص طور پر ان علاقوں کی سیاسی اور قبائلی قیادت، کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا؟

وزیر دفاع اس تاثر کو رد کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر پہلی باقاعدہ بحث ایپکس کمیٹی میں ہوئی جہاں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، سینیئر بیورکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کے لوگ موجود تھے۔ ’سب کے نمائندے تھے، پھر کابینہ میں معاملہ آیا، وہاں بھی سب لوگ تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ایپکس کمیٹی کی میٹنگ میں خیبر پختونخوا کے وزیراعلی نے ’کسی قسم کا اختلاف نہیں کیا۔

’ہو سکتا ہے کہ انھیں مزید اس آپریشن کی تفصیلات کا حصہ بنایا جائے تو وہ بھی راضی ہو جائیں۔‘

خواجہ آصف نے اس تاثر کو رد کیا کہ قبائلی علاقوں سے ان سیاسی جماعتوں سے مشاورت نہیں کی گئی جن کا وہاں ووٹ بینک ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر مزید بات چیت کی جا سکتی ہے۔

سینیئر صحافی مشتاق یوسفزئی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن عزم استحکام کا اعلان ہوتے ہی اس کی مخالفت کی وجہ ’ماضی میں کیے گئے آپریشنز، ان سے پیدا ہونے والی لوگوں کی مشکلات اور تکالیف ہیں جو اب تک یہاں کے عوام کے ذہن میں ہیں۔‘

مشتاق یوسفزئی کہتے ہیں کہ انھیں اس آپریشن کی کامیابی کی کوئی امید نہیں ہے کیونکہ ’اس کے اعلان کے ساتھ ہی اسے متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔

’سیاسی جماعتوں نے (اسے) مسترد کر دیا ہے اور عوامی سطح پر بھی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے اب تک کوئی وضاحت بھی نہیں کی گئی کہ یہ آپریشن کن علاقوں میں ہوگا، کس سطح پر ہوگا اور اس کو کیسے کامیاب کیا جا سکتا ہے۔‘

’انٹیلی جنس معلومات پر آپریشن تو پہلے سے جاری ہے، ایک نیا نام کیوں؟‘

حکومت کا کہنا ہے کہ آپریشن عزم استحکام دراصل ’انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کی گئی ٹارگٹڈ کاروائیاں‘ ہوں گی۔

تاہم پاکستان میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز، جن کا آغاز سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کیا تھا، کئی سالوں سے جاری ہیں۔ ایسے میں اسی طرز پر ایک نیا نام دے کر نئے آپریشن کا آغاز کیوں کیا جا رہا ہے؟

یہ وہ سوال ہے جو سابق فاٹا سمیت خیبر پختونخوا کے شہریوں کی جانب سے سامنے آ رہا ہے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ دہشتگردی کی حالیہ لہر سے نمٹنے کے لیے نئے جذبے اور شدت کے ساتھ آپریشن کی ضرورت ہے۔ ’اس لانچنگ کی ایک نئے جذبے کے ساتھ ضرورت تھی۔ دہشت گردی کے واقعات میں گذشتہ ایک سال میں جو شدت آئی اس کے بعد نئی صف آرائی کی ضرورت تھی اور اس لڑائی کے لیے اپنے لائنز ری ڈرا کرتے۔‘

حکومت کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ آپریشن سے کوئی نقل مکانی نہیں ہوگی، بلکہ آپریشن انٹیلیجنس کی بنیادوں پر کیا جائے گا۔ جبکہ قبائلی علاقوں کے علاوہ خیبر پختونخوا کے کچھ بندوبستی علاقوں میں پہلے سے ہی انٹیلیجنس کی بنیاد پر کارروائیوں کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔

وزیر دفاع کہتے ہیں کہ انھیں (فوج اور حکومتوں کو) توقع تھی کہ دہشت گردی دوبارہ نہیں پھیلے گی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ گذشتہ ایک دہائی میں کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جو بڑھتی دہشتگردی کا باعث بنے۔ ان کے مطابق اس میں افغانستان سے نیٹو اور امریکی افواج کا انخلا اور پاکستان میں عمران خان کی حکومت کے دوران ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو ملک واپس لانا شامل ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں امید تھی کہ افغان حکومت ہم سے تعاون کرے گی مگر وہ ان (طالبان عسکریت پسندوں) کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آئے کیونکہ وہ ان کے اتحادی تھے۔

’ہم نے کہا کہ کوئی تو حل نکالیں۔ ان کی مغربی سرحد کی طرف نقل مکانی کرانے پر بھی بات ہوئی اور تقریبا دس ارب روپے دینے کو تیار تھے۔ مگر خدشہ تھا کہ یہ وہاں سے بھی واپس آ سکتے ہیں۔‘

خواجہ آصف نے کہا کہ طالبان سے بات چیت کے بعد ان کے چار سے پانچ ہزار لوگوں کو واپس لانے کا تجربہ ناکام ہوا اور ’طالبان کے وہ ساتھی جو افغانستان سے کاروائیاں کر رہے تھے انھیں پاکستان میں پناہ گاہیں مل گئیں۔ اب وہ آتے ہیں، ان کے گھروں میں رہتے ہیں اور پھر کارروائیاں کرتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ جن کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں، ان میں واپس آنے والے طالبان جنگجو بھی شامل ہیں۔

چینی شہری پاکستان میں سی پیک کے منصوبوں پر کام کرتے ہوئے متعدد حملوں کا نشانہ بنے ہیں
RESCUE WORKER
رواں برس بشام میں مبینہ خودکش حملے میں پانچ چینی باشندوں کی ہلاکت کے بعد چین نے سخت ردعمل دیا تھا

کیا ایک نیا آپریشن چین کے دباؤ کی وجہ سے کیا جا رہا ہے؟

حال ہی میں چینی شہریوں پر حملوں کے بعد یہ تاثر عام ہے کہ پاکستان کو چین کی جانب سے ان کے شہریوں اور سی پیک منصوبوں کے لیے فول پروف سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے دباؤ کا سامنا ہے۔

لیکن وزیر دفاع خواجہ آصف کہتے ہیں کہ چین کی طرف پاکستان پر یہ آپریشن شروع کرنے کے لیے کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں۔

’ان کا یہ دباو ضرور ہے کہ وہ یہاں اپنی سرمایہ کاری دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں، سی پیک ٹو کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان کے سکیورٹی سے متعلق خدشات ہیں۔ انھیں اچھا لگے گا کہ پورا پاکستان محفوظ ہو، مگر فی الحال وہ چاہتے ہیں کہ جہاں جہاں ان کے لوگ ہیں، اور ان کا کام ہے، وہ محفوظ ہوں۔‘

اس سوال پر کہ کیا اس آپریشن کے ذریعے چینی منصوبوں کو سکیورٹی تھریٹ پر بھی قابو پایا جائے گا، خواجہ آصف نے کہا کہ ’ان کے خلاف تھریٹ پر بھی کام ہوگا مگر اس فوجی آپریشن کا مقصد عام پاکستانی شہریوں کو تحفظ دینا ہے۔‘

چین کے پاکستان میں سی پیک منصوبے سے جڑے حملوں میں بلوچستان سے علیحدگی پسند تحریکوں اور عسکریت پسند تنظیموں کا ہاتھ رہا ہے۔

اس سوال پر کہ کیا بلوچستان میں ان تنظیموں سے بھی بات چیت کے دروازے کھولے جائیں گے، خواجہ آصف نے کہا کہ ’اگر وہ پاکستان کے فولڈ میں آنا چاہتے ہیں، اور بین الاقوامی کوہیژن کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو کیوں نہیں۔

’ہم بالکل ان سے بات کرنے کو تیار ہیں۔‘

عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے بعد عہدہ چھوڑنا پڑا تھا
Getty Images
سابق وزیر اعظم عمران خان اس وقت جیل میں عدت کے مقدمے میں سزا کاٹ رہے ہیں

’عمران خان کی رہائی ہماری جماعت یا حکومت کے لیے خطرہ نہیں ہیں‘

دریں اثنا وزیر دفاع خواجہ آصف نے بی بی سی کے ساتھ ملک کی سیاسی صورتحال پر بھی بات کی۔

انھوں نے کہا کہ عمران خان کی جیل سے رہائی ان کی جماعت یا حکومت کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔ ’سیاست میں اتار چڑھاؤ ہوتے ہیں، انھیں تھریٹ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ انھیں سیاسی طور پر حل کرنا چاہیے۔ عمران خان ہمارے لیے خطرہ نہیں ہیں۔‘

خیال رہے کہ حالیہ دنوں میں مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے بعض حکومتی اہلکاروں نے یہ ایسے بیانات دیے ہیں کہ عمران خان کو طویل عرصے کے لیے جیل میں رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔

خواجہ آصف کہتے ہیں کہ عمران خان رہائی پانے کی صورت میں پہلے کی طرح عدم استحکام کی سیاست کرتے رہے تو ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔

’عدم استحکام پیدا ہوگا، لڑائی بڑھے گی، معیشت بہتر نہیں ہوگی اور ان کا مقصد بھی یہی ہے کہ پاکستان معاشی استحکام حاصل نہ کر سکے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.