34 سال قبل کویت میں یرغمال بننے والے مسافروں کا برطانوی حکومت سے ہرجانے کا مطالبہ: ’عراقی فوجیوں نے میرا ریپ کیا‘

طیارے پر سوار مسافروں کو یرغمال بنا لیا گیا جن میں سے چند کو تو فوری طور پر ہی رہا کر دیا گیا لیکن کئی مسافروں کو عراقی فوج نے اہم تنصیبات پر انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا تاکہ مغربی طاقتوں کو بمباری سے روکا جا سکے۔

1990 میں عراق کے حملے کے دوران کویت میں اترنے والی برٹش ایئرویز کی پرواز کے مسافر اور عملہ، جنھیں یرغمال بنا لیا گیا تھا، نے ایئر لائن اور برطانوی حکومت سے ’جانتے بوجھتے ہوئے ان کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے‘ پر ہرجانے کا دعوی کیا ہے۔

ان افراد کا دعوی ہے کہ برطانوی حکومت اور برٹش ایئر ویز طیارے کی لینڈنگ سے قبل اس بات سے واقف تھے کہ عراق کویت پر حملہ کر چکا ہے۔

برٹس ایئر ویز کی پرواز 149 کے 367 مسافروں اور عملے کے اراکین کو یرغمال بنا لیا گیا تھا، چند کے ساتھ برا سلوک ہوا، جبکہ جنسی ہراسانی کی شکایات بھی منظر عام پر آئیں۔ ان افراد کے مطابق انھیں بھوکا رکھا گیا۔

ہرجانے کا دعوی کرنے والوں کا ماننا ہے کہ ان کی زندگیاں اس لیے خطرے میں ڈالی گئیں تاکہ خفیہ معلومات حاصل کرنے کا ایک مشن مکمل کیا جا سکے۔ تاہم یہ ایک ایسا الزام ہے جس کی تردید برطانوی حکومت 30 سال سے کرتی آئی ہے۔

برطانوی حکومت اور برٹش ایئر ویز کے خلاف سول ایکشن کی درخواست 94 افراد نے مل کر دائر کی ہے جن میں اس پرواز کے مسافروں سمیت جہاز کے عملے کے اراکین بھی شامل ہیں۔

ان کا الزام ہے کہ برطانیہ کی حکومت اور برٹش ایئر ویز ’غفلت‘ کے مرتکب ہوئے۔

حالیہ مقدمہ 1990میں عراق کی جانب سے کویت پر حملے کے دوران پیش آنے والے واقعہ کے بعد جواب حاصل کرنے کی جنگ کا سب سے تازہ قدم ہے۔

پرواز 149 کے ساتھ کیا ہوا تھا؟

یکم اگست 1990 کی شام تھی جب برٹش ایئرویز کی پرواز 149 لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ سے ملائیشیا جانے کے لیے روانہ ہوئی۔ اس پرواز نے راستے میں کویت بھی رکنا تھا۔

لیکن اسی وقت عراقی فوج کویت کی سرحد پر بڑی تعداد میں جمع ہو چکی تھی اور کچھ ہی دیر میں باقاعدہ حملہ ہونے والا تھا۔ اس کے باوجود برطانوی پرواز کویت کی جانب گامزن رہی۔

ہرجانے کا دعوی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ عراق کا حملہ شروع ہونے کے بعد کسی اور نجی ایئر لائن نے اپنا طیارہ کویت میں نہیں اتارا۔

دو اگست کی شام جس وقت یہ پرواز کویت میں لینڈ کی تو عراقی فوج قبضہ کر چکی تھی اور ایئر پورٹ کے قریب ہی راکٹ بھی داغے گئے۔

جہاز کو اترتے ہی خالی کروا لیا گیا اور پھر اڑان نہیں بھر سکا۔ طیارے کو رن وے پر ہی تباہ کر دیا گیا۔

طیارے پر سوار مسافروں کو یرغمال بنا لیا گیا جن میں سے چند کو تو فوری طور پر ہی رہا کر دیا گیا لیکن کئی مسافروں کو عراقی فوج نے اہم تنصیبات پر انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا تاکہ مغربی طاقتوں کو بمباری سے روکا جا سکے۔

’عراقی فوجیوں نے میرا ریپ کیا‘

عراق
BBC
اسی پرواز پر چارلی کرسچیانسن سٹیورڈ تھے

اسی پرواز پر چارلی کرسچیانسن سٹیورڈ تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ عراقی فوجیوں نے ان کا ریپ کیا اور انھیں انسانی ڈھال کے طور پر بھی استعمال کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے کیبن کے عملے کے دیگر غیر شادی شدہ اراکین اور مسافروں کے ہمراہ شویخ بندرگاہ لے جایا گیا اور ایک بنگلے میں دو ماہ تک رکھا گیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’بنگلے کے باغیچے میں گڑھے کھود کر رکھے گئے تھے۔ ہمیں کہا گیا کہ اگر برطانوی یا امریکی زمینی حملہ کرتے ہیں تو ہمیں مار کر ان میں دفن کر دیا جائے گا۔‘

’اسی وقت میں ایک بار مجھے کویت شہر کے ایک غیر آباد علاقے میں لے جایا گیا اور بندوق کی نوک پر ایک ٹاور میں لے جا کر میرا ریپ کیا گیا۔ پھر میں نے اس ٹاور سےچھلانگ لگا دی۔‘

پانچ ماہ بعد یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا۔

ہرجانے کے دعوے میں کہا گیا ہے کہ انھیں شدید جسمانی اور نفسیاتی نقصان ہوا جس کے اثرات وہ آج تک محسوس کرتے ہیں۔

کرسچیانسن کا کہنا ہے کہ ان کو اس واقعے کے صدمے سے نکلنے کی کوشش میں برطانیہ چھوڑنا پڑا۔ اب وہ لگژمبرگ میں رہتے ہیں۔

ان کو امید ہے کہ اس مقدمے سے انھیں اور باقی افراد کو انصاف ملے گا اور ’برطانوی حکومت اور برٹش ایئر ویز کے جھوٹ اور دھوکے بازی کا خاتمہ ہو گا۔‘

عراق
BBC
طیارے میں سوار پانچ سالہ سٹوارت لاک وڈ صدام حسین کے ساتھ جو دنیا کو یہ دکھا رہے تھے کہ برطانوی شہریوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا گیا

کیا اس پرواز میں سپیشل فورسز موجود تھیں؟

ہرجانے کے دعوے میں ایک دعوی یہ بھی کیا گیا ہے کہ برطانوی حکومت اور برٹش ایئرویز کو رات کے دوران، جب پرواز کویت نہیں پہنچی تھی، حملے کے بارے میں خبردار کیا گیا لیکن انھوں نے اس پر عمل نہیں کیا۔

یہ الزام لگایا گیا ہے کہ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ برطانوی حکومت سپیشل فورسز کی ایک ٹیم کویت بھیجنا چاہتی تھی تاکہ جاسوسی کی جا سکے۔

اس واقعے پر سٹیفن ڈیوس نے ایک کتاب بھی لکھی ہے جنھوں نے دعوی کیا ہے کہ اس طیارے میں واقعی برطانوی سپیشل فورسز کے اراکین تھے جن کا انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انٹرویو بھی کیا۔

سٹیفن کا کہنا ہے کہ حکام کو اس بات کی توقع نہیں تھی کہ ایئر پورٹ اتنی جلدی عراقی فوج کے قبضے میں چلا جائے گا اور ارادہ یہ تھا کہ سپیشل فورسز طیارہ لینڈ کرتے ہی اتر کر غائب ہو جائیں گے۔

سٹیفن ڈیوس
Getty Images
اس واقعے پر سٹیفن ڈیوس نے ایک کتاب بھی لکھی ہے جنھوں نے دعوی کیا ہے کہ اس طیارے میں واقعی برطانوی سپیشل فورسز کے اراکین تھے

اس پرواز پر سوار بی اے کے کیبن سروسز ڈائریکٹر ماضی میں بی بی سی کو بتا چکے ہیں کہ کویت پہنچنے پر جہاز کا دروازہ کھلا تو فوجی یونیفارم پہنے ایک برطانوی شخص نے ان کا استقبال کیا تھا۔

ان کے مطابق اس شخص نے کہا کہ وہ ان 10 لوگوں سے ملنے آیا ہے جو ہیتھرو سے پرواز پر سوار ہوئے تھے۔ ان 10 افراد کو طیارے کے اگلے حصے میں لا کر پہلے اترنے کا موقع دیا گیا اور پھر انھیں نہیں دیکھا گیا۔ تاہم اس وقت تک دیر ہو چکی تھی اور طیارہ اڑ نہیں سکتا تھا۔

کویت میں برطانیہ کے سفارت خانے میں کام کرنے والے ایک اہلکار نے ماضی میں کہا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ ایک ایسا خفیہ آپریشن کیا گیا جس کا سفارت خانے کو بھی علم نہیں تھا۔

انتھونی پیس کویت میں سیاسی انٹیلیجنس کے ذمہ دار تھے۔ گمان کیا جاتا ہے کہ اس عہدے پر خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کے اہلکار ہی تعینات ہوتے ہیں۔

انھوں نے 2021 میں بی بی سی کو اپنے پہلے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ متعدد بار سرکاری تردید کے باوجود اس پرواز کو جاسوسی کے لیے استعمال کیا گیا۔‘

’برطانوی ضمیر پر لگے شرمناک دھبے کو مٹانے کے لیے احتساب ضروری ہے‘

نومبر 2021 میں برطانیہ کے دفتر خارجہ نے تسلیم کیا کہ پارلیمان اور عوام کو دہائیوں تک اس پرواز کے بارے میں گمراہ کیا گیا۔

حال ہی میں سامنے آنے والی دستاویزات سے علم ہوتا ہے کہ اس وقت کویت میں موجود برطانوی سفیر نے دفتر خارجہ کو عراق کے حملے کے بارے میں خبردار کیا تھا تاہم برٹش ایئر ویز کو مطلع نہیں کیا گیا۔

تاہم سیکریٹری خارجہ لز ٹرس نے ماضی کی تردید کو دہرایا تھا کہ اس پرواز کو جاسوسی کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔

مککیو جیوری اینڈ پارٹنرز نامی فرم، جو ہرجانے کے مقدمے میں مسافروں اور عملے کی پیروی کر رہی ہے، کا کہنا ہے کہ ’برطانوی ضمیر پر لگے شرمناک دھبے کو مٹانے کے لیے احتساب ضروری ہے۔‘

کیبنٹ آفس کے ترجمان نے کہا کہ حکومت عدالت میں زیر سماعت قانونی معاملات پر بیان نہیں دیتی جبکہ برٹش ایئر ویز کی جانب سے موقف کی درخواست پر جواب نہیں دیا گیا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.