مخصوص نشستیں:الیکشن کمیشن نے غیرآئینی اقدامات کیے، کیا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں اسے درست کرے‘

image
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست کی سماعت میں عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’اتنی بڑی تعداد میں آزاد امیدواروں کا الیکشن کمیشن کی غلطی کے نتیجے میں سامنے آنا بڑا سوال ہے۔ الیکشن کمیشن نے غیرآئینی اقدامات کیے تو کیا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کرے۔‘

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے سنی اتحادکونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’مخصوص نشستوں کے تعین میں آزاد امیدواروں کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ جو آزاد امیدوار سیاسی جماعت میں شامل ہوجائے وہ پارٹی کا رکن تصور ہوتا ہے۔‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’کسی فریق کو یہ کہتے نہیں سُنا کہ نشستیں خالی رہیں، ہر فریق یہی کہتا ہے کہ دوسرے کو نہیں نشستیں مجھے ملیں۔ آپ پھر اس پوائنٹ پر اتنا وقت کیوں لے رہے ہیں کہ نشستیں خالی نہیں رہ سکتیں۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’آئین میں کیا کیوں نہیں ہے یہ دیکھنا ہمارا کام نہیں ہے۔ بار بار کہہ رہا ہوں ہمارے سامنے موجود آئین کے متن پر رہیں۔ اگر آئین میں اس صورتحال کا ذکر نہیں یا غلطی ہے تو آئین جانے اور بنانے والے۔‘

اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ ’پارلیمانی پارٹی کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعت نے انتخابات میں نشست جیتی ہو۔ پارلیمانی پارٹی ارکان کے حلف لینے کے بعد وجود میں آتی ہے۔‘

جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’پارلیمانی پارٹی کی مثال غیرمتعلقہ ہے کیونکہ اس معاملے کا تعلق انتخابات سے پہلے کا ہے۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پارلیمانی پارٹی کی تشکیل کا ذکر آئین میں کہاں ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پارلیمانی پارٹی کا ذکر صرف آرٹیکل 63 اے میں ہے۔

اٹارنی جنرل کے مطابق آرٹیکل 63 اے کے اطلاق کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمانی پارٹی موجود ہو۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’پارلیمان کے اندر فیصلے سیاسی جماعت نہیں پارلیمانی پارٹی کرتی ہے۔‘

اٹارنی جنرل نے عدالت کے روبرو موقف اپنایا کہ ’آزاد امیدوار پارلیمانی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کر سکتے۔ پارلیمانی پارٹی کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعت نے  کم از کم ایک نشست جیتی ہو۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ’کیا الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کیا ہے؟‘ جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت قرار دینا میرے علم میں نہیں۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی پارٹی ڈیکلئیر کر چکا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات کا علم نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ ’الیکشن کمیشن کس اختیار کے تحت پارلیمانی پارٹی ڈیکلئیر کرتا ہے؟ پارلیمانی پارٹی قرار دینے کا نوٹیفکیشن کیسے آیا؟‘

جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹیفکیشن اٹارنی جنرل کو دکھایا۔  سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کا نوٹیفکیشن بھی دکھایا۔

فیصل صدیقی نے زرتاج گل کی بطور پارلیمانی لیڈر تقرری کا نوٹیفکیشن بھی عدالت میں پیش کر دیا۔ 

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے نوٹیفکیشن کس قانون کے تحت جاری کیے ہیں؟‘

اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ آرٹیکل 63 اے سے ان نوٹیفکیشنز کا تعلق نہیں جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’موقف مان لیا تو کسی کے خلاف آرٹیکل 63 اے کے تحت منحرف ہونے پر کارروائی ممکن نہیں ہوگی۔‘

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’اتنی بڑی تعداد میں آزاد امیدواروں کا الیکشن کمیشن کی غلطی کے نتیجے میں سامنے آنا بڑا سوال ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ کو اس غلطی کو سدھارنا نہیں چاہیے؟ کیا لوگوں نے خود ان لوگوں کو بطور آزاد امیدوار چنا؟ کیا الیکشن کمیشن نے خود ان لوگوں کو آزاد نہیں قرار دیا؟‘

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’کیا وہ قانونی آپشن نہیں اپنانا چاہیے جو اس غلطی کا ازالہ کرے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر کر دیا۔ الیکشن کمیشن نے غیرآئینی اقدامات کیے تو کیا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کرے۔‘


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.