اتر پردیش میں ہندوؤں کے مذہبی اجتماع کے دوران بھگدڑ، کم از کم 100 ہلاکتیں: ’لوگ ایک دوسرے پر گِر کر مر رہے تھے‘

انڈیا کی ریاست اتر پردیش کے حکام کے مطابق ہاتھرس میں ایک ستسنگ کے دوران بھگدڑ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 100 سے زیادہ ہو گئی ہے۔ متاثرین میں خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ عینی شاہدین نے تقریب ختم ہونے پر لوگوں کی چیخ و پکار اور بھگدڑ مچنے کے بارے میں بتایا ہے۔
ہاتھرس
Getty Images

انڈیا کی ریاست اتر پردیش کے حکام کے مطابق ہاتھرس میں ستسنگ کے دوران بھگدڑ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 100 سے زیادہ ہو گئی ہے۔

اتر پردیش پولیس کے ایک سینیئر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اموات کے اعداد و شمار مرتب کرنے میں کئی گھنٹے لگ سکتے ہیں تاہم انھوں نے کم از کم 100 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔

اتر پردیش پولیس کے آگرہ زون کے اے ڈی جی آفس نے ہلاکتوں میں اضافے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ لاشوں کو کئی مقامات پر پہنچا دیا گیا تھا جس کے باعث ہلاکتوں کی صحیح تعداد بعد میں معلوم ہو گی۔

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ ’اتھرس میں المناک واقعہ پر وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ جی سے بات کی۔

’یو پی حکومت تمام متاثرین کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ میری تعزیت ان لوگوں کے ساتھ ہے جنھوں نے اس میں اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے۔ اس کے ساتھ میں تمام زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتا ہوں۔‘

یہ واقعہ اتر پردیش کے ضلع ہاتھرس میں ہندو مذہبی اجتماع ستسنگ کے دوران ہوا۔ متاثرین میں خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل ہے جبکہ مزید زخمیوں اور ہلاک افراد کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔ تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ علاقے میں بھگدڑ کیسے مچی تھی۔

سینیئر اہلکار اشیش کمار نے کہا کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’انتظامیہ کی بنیادی ترجیح یہ ہے کہ زخمی اور ہلاکت شدگان کے لواحقین کی ہر ممکن مدد کی جائے۔‘

یہ اجتماع مغل گڑھی نامی گاؤں میں ہندو دیوتا شیوا سے جڑی ایک تقریب منا رہا تھا۔

’لوگ ایک دوسرے پر گِر رہے تھے اور دب کر مر رہے تھے‘

اس حادثے میں زندہ بچنے والے ایک عینی شاہد نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ سب ٹھیک چل رہا تھا کہ اچانک ’مجھے کچھ چیخوں کی آوازیں سنائی دیں اور اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھ پاتا، لوگ ایک دوسرے کے اوپر گِرنے لگ گئے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’کئی لوگ دب گئے تھے اور میں ان کے لیے کچھ نہ کر سکا۔ میں خوش قسمت ہوں کہ میں زندہ بچ گیا۔‘

شکنتلا نامی خاتون نے نیوز ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ ’جب تقریر ختم ہوئی تو سب نے بھاگنا شروع کر دیا۔‘

’لوگ سڑک کنارے ایک نالے میں گِر گئے۔ ایک کے اوپر ایک فرد گِر رہا تھا اور دب کر ان سب کی ہلاکت ہو رہی تھی۔‘

کئی لوگ اب بھی اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ کئی لاشیں تاحال لاوارث پڑی ہیں۔ شہر میں ایمبولینسز کی بھی قلت ہے اور ہر ایمبولینس دو یا تین لاشیں لا رہی ہے۔

ہاتھرس: اتر پریش میں ہندو تہوار کے دوران بھگدڑ، درجنوں افراد ہلاک
BBC
زخمیوں کو طبی امداد کے لیے ہسپتال لایا جا رہا ہے

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے واقعے کی ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں زخمیوں کو طبی امداد کے لیے ہسپتال لایا جا رہا ہے۔

قریبی ضلعے ایٹا کے اہلکار ستیا پرکاش نے کہا ہے کہ ’پوسٹ مارٹم کا عمل جاری ہے اور واقعے پر تحقیقات ہو رہی ہے۔‘

سوشل میڈیا پر اس حادثے کے پریشان کن مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ بعض ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پِک اپ ٹرک، رکشے اور حتی کہ موٹر سائیکلوں پر زخمیوں کو ہسپتال لے جایا جا رہا ہے۔

ایک کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مقامی ہسپتال کے داخلے دروازے پر متعدد لاشیں رکھی گئی ہے جبکہ لواحقین مدد کے لیے چیخ و پکار کر رہے ہیں۔

یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے سوگوار خاندانوں سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔

وزیر اعلیٰ کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’وزیر اعلیٰ نے ضلعی انتظامیہ کے حکام کو ہدایت کی کہ وہ زخمیوں کو فوری طور پر ہسپتال لے جائیں، انھیں مناسب علاج فراہم کریں اور امدادی کاموں میں تیزی لائی جائے۔‘

انھوں نے واقعے کی وجوہات کی تحقیقات کرنے کی بھی ہدایت دی ہے۔

دریں اثنا اتر پردیش حکومت کے وزیر سندیپ سنگھ نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو بتایا کہ ’وزیر اعلیٰ نے ہمیں ہاتھرس میں جائے حادثہ پر جانے اور حکومت کی جانب سے ضروری فیصلے لینے کی ہدایت کی ہے۔‘

انڈیا میں مذہبی تقاریب کے دوران حادثات کئی بار رپورٹ ہوچکے ہیں۔ ان تقاریب میں حفاظتی انتظامات نہیں کیے جاتے جبکہ چھوٹی سی جگہوں پر بڑے ہجوم اکٹھے ہوتے ہیں۔

سنہ 2018 کے دوران ایک بڑا اجتماع ہندو تہوار دسہرہ منا رہا تھا جب ایک ٹرین ان سے ٹکرائی جس میں قریب 60 افراد ہلاک ہوئے۔

2013 کے دوران مرکزی ریاست مدھیہ پردیش میں ایک دوسرے ہندو تہوار کے دوران بھگدڑ میں 115 افراد ہلاک ہوئے تھے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.