دلجیت دوسانجھ: انڈین پنجاب کے چھوٹے سے گاؤں سے پنجابی گانوں پر مغربی دنیا کو نچانے تک

40 برس کے گلوکار ’پنجابی ویو‘ میں ان گلوکاروں میں سرفہرست ہیں جس میں اب فنکاروں کی ایک نئی نسل مقامی پنجابی میوزک کا ریپ میوزک اور ہپ ہاپ سے امتزاج کر رہی ہیں۔دلجیت کے کریئر پر ایک نظر دوڑاتے ہیں۔
diljit
Getty Images

دلجیت دوسانجھ کون ہیں؟ اس سوال کا جواب اس پر منحصر ہے کہ آپ یہ پوچھ کس سے رہے ہیں۔ جنھیں اس بارے میں زیادہ نہیں پتا تو ان کے لیے تو شاید دلجیت انتہائی معروف پنجابی گلوکار ہیں جنھوں نے گذشتہ ہفتے جیمی فلن کے ’دی ٹونائٹ شو‘ سے اپنے کریئر کا آغاز کیا ہے۔

40 برس کے گلوکار ’پنجابی ویو‘ میں ان گلوکاروں میں سرفہرست ہیں جس میں اب فنکاروں کی ایک نئی نسل مقامی پنجابی میوزک کا ریپ میوزک اور ہپ ہاپ سے امتزاج کر رہی ہیں۔

فیلن کی جانب سے ’کائنات کے سب سے بڑے پنجابی فنکار‘ کے طور پر متعارف کرائے جانے والے دلجیت نے روایتی لباس میں ملبوس ہو کر ناظرین کی بڑی تعداد کے سامنے اپنے دو مشہور گانوں ’برن ٹو شائن‘ اور ’جی او اے ٹی‘ کے ساتھ پرفارم کیا۔

اس شو میں شریک فلمی ناقد سُچاریتا تیاگی کا کہنا ہے کہ ’دلجیت کے شو کے آغاز کے چند سیکنڈز میں ہی ہر کوئی ناچ رہا تھا۔‘

ان کے مطابق آپ کو ’ہاؤس بینڈ‘ والوں کے چہرے پر نظر ڈالنی چاہیے تھی جو بہت ہی خوش دکھائی دے رہے تھے۔‘

Diljeet
Getty Images

انڈیا میں تو دلجیت پہلے سے ہی مختلف کردار نبھانے کی وجہ سے خاصے مشہور ہیں، جو اپنی تمام فلموں میں خود گانے بھی گا لیتے ہیں۔ وہ ایک کامیاب پروڈیوسر بھی مانے جاتے ہیں۔

ان لوگوں کے لیے جنھوں نے انھیں فلموں میں نہیں دیکھا یا ان کے میوزک کو نہیں سنا وہ ایک سوشل میڈیا سٹار ہیں، جو انسٹاگرام پر مزاحیہ ویڈیوز کے ذریعے ایک بحث چھیڑ دیتے ہیں۔

وائس اسسٹنٹ ’الیکسا‘ کے ساتھ پنجابی میں سوشل میڈیا پر ان کی ایک ویڈیو بہت سے لوگوں کی پسندیدہ بن گئی تھی۔

Diljeet
Getty Images

دلجیت ایک دلچسپ شخصیت کے مالک ہیں کیونکہ ان کی شہرت پنجابی ہپ ہاپ کے نظریے سے مختلف ہے۔ وہ ایک ایسے موسیقار ہیں جو موسیقی کی تیز آواز اور الفاظ کو زیادہ خالص اور روایتی انداز میں نکھارتے ہیں۔

وہ ایک پرسوز گلوکار ہیں۔ ان کی بھرپور بھاری بھرکم لرزتی آواز جذبات کو ٹھیک ٹھیک ابھارتی ہے۔

شوز میں تو وہ اپنی توانائی سے ماحول پیدا کر دیتے ہیں اور پھر وہ انگلش گلوکار ایڈ شیرن کو بھی پنجابی میں گانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ٹی وی سکرین پر دلجیت کی پرفارمنس بیک وقت لوگوں کو ہنسا اور رلا سکتی ہے۔

اپنے مداحوں کے لیے تو وہ ایک ’بیبا منڈا‘ (معصوم لڑکے) ہیں، جن کی بے ساختگی، قدرتی دلکشی اور ہمہ جہت شخصیت نے انھیں اپنے وقت کے سب سے معروف ستاروں میں سے ایک بنا دیا ہے۔

سُچاریتا کا کہنا ہے کہ ’ایک کمرے میں تین لوگوں سے پوچھیں کہ وہ اس آدمی کو کیوں پسند کرتے ہیں تو وہ سب مختلف وجوہات بتائیں گے: ان کی اداکاری، گانا یا صرف انسٹاگرام مواد جو وہ بناتے ہیں‘ لیکن ان سب میں ایک چیز مشترک ہو گی، وہ ان کے لیے ان کی محبت ہے۔‘

دلجیت
Getty Images

دلجیت سنگھ انڈین پنجاب کے گاؤں دوسانجھ کالن میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے مقامی گورودوارے میں مذہبی گیتوں سے اپنے کرئیر کا آغاز کیا۔

ان کو جاننے والے بتاتے ہیں کہ اس وقت دلجیت ایک ’شرمیلے لڑکے‘ تھے جن کی داڑھی بھی نہیں آئی تھی لیکن ان کی آواز میں سر تھا، وہ بھنگڑا بھی اچھا ڈالتے تھے اور سر پر پگڑی بھی بہت اچھے انداز میں باندھتے تھے۔

پروڈیوسر رجیندر سنگھ، جنھوں نے دلجیت سنگھ کو پہلی بار گانے کا موقع دیا تھا، نے ایک بار ’دی انڈین ایکسپریس‘ کو بتایا تھا کہ ’دلجیت خدا سے ڈرنے والا پیارا لڑکا تھا، جو سیکھنا چاہتا تھا۔‘

16 برس کی عمر میں دلجیت نے اپنا پہلا البم جاری کیا۔ ان کے گیت شادی بیاہ کی تقریبات میں مشہور ہونے لگے اور اپنی معصومیت اور مدھر آواز کی وجہ سے وہ جلد ہی مشہور ہو گئے۔ ان کو جلد ہی ہر روز شو بھی ملنے لگے۔

اس کے کچھ برس بعد دلجیت کے والدین نے انھیں لدھیانہ بھیج دیا تاکہ وہ اپنے موسیقار انکل کے ساتھ رہ کر مزید تربیت حاصل کر سکیں۔

یہ وہ وقت تھا جب پاپ میوزک میں دلیر مہندی اور ’پنجابی ایم سی گروپ‘ کے گانے دنیا بھر میں مشہور ہو رہے تھے۔

سنہ 2006 میں دلجیت نے کینیڈا کا پہلا بین الاقوامی دورہ کیا اور اس کے ایک برس بعد انھوں نے اپنے نئے نام ’دلجیت دوسانجھ‘ کے ساتھ دوسرا البم جاری کیا۔

سنہ 2010 تک دلجیت دوسانجھ پنجابی فلم انڈسٹری میں ایک مشہور اداکار کے طور پر اپنی شناخت بنا چکے تھے۔ اس کے چھ برس بعد انھوں نے بالی وڈ میں قدم رکھا اور اب وہ دنیا بھر میں پہچانے جانے والے سٹار ہیں۔

دلجیت
Getty Images

گذشتہ برس وہ کوچیلا میوزک فیسٹیول میں پرفارم کرنے والے پہلے پنجابی گلوکار بن گئے تھے۔ وہ پاپ گلوکارہ سیا کے ساتھ مل کر بھی گا چکے ہیں اور ایڈ شیرن کے دورہ انڈیا کے دوران ان کے ساتھ بھی پرفارم کر چکے ہیں۔

اپنے انٹرویوز میں دلجیت بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی کامیابی کوئی اتفاق نہیں بلکہ انھوں نے اس مقام تک پہنچنے کے لیے دن رات محنت کی اور وہ اس وقت بھی گانے کی پریکٹس کرتے رہے، جب انھیں کوئی موقع نہیں مل رہا تھا۔ اپنی منکسر مزاجی کی بدولت وہ جیسے ایک معصوم راہگیر کے روپ میں شہرت کی بلندیوں کی طرف گامزن ہیں۔

کمیونیکیشن کنسلٹنٹ دلیپ چیریان کہتے ہیں کہ ’جب کوئی سٹار ایک خاص مقام تک پہنچ جاتا ہے تو ایسے میں پھر وہ دوبارہ اپنے آپ کو ایک نئے سرے سے استوار کرنا چاہتا ہے۔ مگر دلجیت کسی مشکل کو آڑے نہیں آنے دے رہے اور ان کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔‘

ان کے مطابق ایک اچھے شائشتہ لڑکے کے طور پر ان کا سامعین کے ساتھ ایک خاص رشتہ برقرار رہتا ہے۔ دلیپ کے خیال میں دلجیت کی شخصیت ہی اچھی پرفارمنس کی ضامن بن جاتی ہے۔

دلجیت دوسانجھ خود کہتے ہیں کہ ان کی ایک روح پرور شبیہ کے برعکس جو کسی بھی جلدی میں نہیں ہیں وہ مسلسل مقابلے کی دوڑ سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ یعنی وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ یہ میرا کام ہے اور مجھے اس میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہے۔

دلیپ کے مطابق دلجیت اپنے بہت سے ساتھیوں کے برعکس روایتی تیزی دکھانے والے رستے پر گامزن نہیں ہیں۔

اپنے کریئر کے ابتدائی حصے کو چھوڑ کر جہاں ان کے گانوں میں ’بندوقیں‘ تھیں اور ’مردانہ وجاہت‘ جیسے موضوعات تھے، دلجیت دوسانجھ زیادہ تر پنجابی پاپ میں متنازع موضوعات سے دور رہے ہیں۔

جی او اے ٹی اور برن ٹو شائن جیسے ان کے کچھ مشہور ترین گانے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ یہاں پیسے کے لیے نہیں بلکہ اپنا اور اپنے گاؤں کا نام روشن کرنے کے لیے آئے ہیں۔

دلجیت سنگھ
Getty Images

وہ ہر کنسرٹ کے آغاز میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ ’پنجابی آ گے جے‘ (پنجابی آ گئے ہیں)۔ وہ صرف اپنی ماں بولی میں گاتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ وہ اچھی انگریزی بول سکیں۔

انھوں نے ایک بار ایک انٹرویو میں کہا کہ ’جب آپ میری طرح ایک بہت چھوٹے سے علاقے سے آئے ہوں تو پھر آپ چاہتے ہیں کہ دنیا کو اس کے بارے میں پتا چلے۔‘

دلجیت دوسانجھ اپنی جڑوں سے واقف ہیں۔ ان کے ہر گانے میں ہی اپنی پنجابی شناخت کا پہلو ضرور شامل ہوتا ہے۔ انھیں اس میں کسی قسم کا کوئی عار بھی محسوس نہیں ہوتا۔ وہ روایات پر بہت زور دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ تجربات بھی کرتے ہیں۔ ان کے گانوں میں پاپ اور بھنگڑے کا حسین امتزاج ہوتا ہے، جس سے پرانی دھنیں اور موسیقی بھی تازہ اور دلچسپ لگتی ہے۔

مگر جب اداکاری کی بات ہو تو وہ پھر مزاحیہ اور سنجیدہ کرداروں میں نظر آتے ہیں۔ شدت پسندی اور پنجاب میں منشیات کے مسئلے پر اڑتا پنجاب جیسی فلموں میں کردار ادا کیا۔ انھوں نے جٹ اینڈ جولیٹ جیسی مزاحیہ اور محبت کی کہانیوں پر بھی کام کی۔

diljit
Getty Images

فلمی ناقد سُچاریتا تیاگی، جن کی ان سے ملاقات بھی ہو چکی ہے، نے انھیں ایک شرمیلا اور بہت غور کرنے والا پایا۔ مگر یہ سب کچھ انھیں زیادہ تر اپنے ہی خرچ پر سوشل میڈیا پر ہنگامے اور لطیفے شیئر کرنے سے نہیں روکتا۔

دلیپ کے مطابق فلم انڈسٹری میں کئی برس رہنے کے بعد دلجیت دوسانجھ کو ایسے لوگ مل گئے ہیں جو انھیں ان کی اس شبیہ کو برقرار رکھنے میں مدد دے رہے ہیں جس میں آپ اپنے کام میں مستند رہیں اور اس کے ساتھ مقامی اور بین الاقوامی آڈیئنس کو بھی اپنا بنا لیں۔ مستند ہونے کے بارے میں جو بھی نتیجہ نکالا جائے تاہم اس بات سے انکار نہیں کہ دلجیت سنگھ منفرد صلاحیتوں کے مالک ہیں۔

یہاں تک کہ دلجیت دوسانجھ کا خود پسندی کا مزاح بھی بعض اوقات بامقصد محسوس ہوتا ہے۔ وہ اپنا بھی مذاق اڑانے سے نہیں چوکتے۔ جس میں انگریزی زبان میں روانی نہ ہونا بھی شامل ہے۔ اس سے پہلے کہ کوئی اور ان کے بارے میں کچھ ایسا کر سکے۔

لیکن طنز و مزاح کے علاوہ وہ ایک سنجیدہ اداکار ہیں، جو مسلسل دنیا میں اپنے مقام کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ اور پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں کا لڑکا اپنے فن سے اس سب کو چیلنج کرسکتا ہے۔

ان کی موسیقی ان کے کریئر کی بنیاد ہوسکتی ہے۔ پھر بھی دلجیت دوسانجھ اور بھی بہت کچھ پیش کرتے ہیں: وہ ایک مکمل پیکج ہیں، پرانے اور نئے، سادہ اور ’سٹائلش‘ سب کا مرکب ہیں جو انھیں مکمل طور پر ایک متعلقہ گلوکار اور اداکار بنا دیتا ہے۔

سُچاریتا تیاگی کے مطابق صداقت سے متعلق کسی کی رائے جو بھی ہو بہرحال وہ اپنی کامیابیوں اور ٹیلنٹ کے بارے میں جھوٹ نہیں بولتے۔

ان کے مطابق ’زندگی میں حاصل کرنے کے لیے اور بھی بہت کچھ ہے اور دلجیت دوسانجھ ہر شعبے میں ہی قسمت آزمائی کرنا چاہتے ہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.