وہاب اور رزاق کی برطرفی پر پی سی بی کی خاموشی: پاکستان کرکٹ کی ’سرجری‘ شروع ہوتے ہی متنازع کیوں؟

محسن نقوی کی جانب سے وہاب ریاض کی برطرفی کو خاص طور پر ’مقبول فیصلے‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور ان کی برطرفی سے بظاہر یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان کے قریبی لوگ بھی احتساب سے بچ نہیں سکتے۔
razzaq and wahab
Getty Images

سرجری، اکھاڑ پچھاڑ، اندرونی کہانیاں، ذرائع، تبدیلیاں، اصلاحات اور ایسے ہی متعدد الفاظ آنے والے دنوں میں مقامی میڈیا کی خبروں میں نظر آئیں گے۔

وجہ یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم ایک ایسے ’نازک موڑ‘ سے گزر رہی ہے جو عموماً ہر ورلڈ کپ کے بعد ٹیم اور کرکٹ بورڈ کو درپیش ہوتا ہے۔

اس مرتبہ اسے چیئرمین پی سی بی محسن نقوی (جن کے پاس وزراتِ داخلہ کا قلمدان بھی ہے) نے ’سرجری‘ کا نام دیا ہے۔ اس سرجری کے پہلے دو متاثرین عبدالرزاق اور وہاب ریاض بنے، جنھیں اپنے عہدوں سے برطرف کر دیا گیا ہے۔

دونوں ہی سابق کھلاڑیوں کے پاس کرکٹ بورڈ میں دہرے عہدے تھے، عبدالرزاق مردوں اور خواتین دونوں ٹیموں کی سیلیکشن کمیٹی کے رکن تھے جبکہ وہاب ریاض سیلیکشن کمیٹی کے رکن ہونے کے علاوہ ٹیم کے سینیئر مینیجر کے عہدے پر بھی فائز تھے۔

اس اعلان کے سامنے آنے کے چند گھنٹے بعد ہی ورلڈ کپ میں ناقص کارکردگی پر کوچز کی جانب سے جمع کروائی گئی رپورٹس کے حوالے سے مبینہ معلومات مخصوص میڈیا چینلز پر سامنے آنے لگیں جن میں چند بے ربط تفصیلات ہیں جنھیں یہاں دوبارہ شائع نہیں کیا جا رہا لیکن ان مبینہ معلومات میں خصوصاً فاسٹ بولر شاہین آفریدی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

پی سی بی نے گذشتہ روز سے گردش کرنے والی ان رپورٹس کے حوالے سے تاحال کوئی تردید جاری نہیں کی اور پی سی بی کے ترجمان سمیع الحسن برنی نے اس بارے میں مؤقف دینے سے معذرت کر لی ہے۔

گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران پاکستان کرکٹ میں بھونچال آنے والے دنوں میں مزید تبدیلیوں، بیانات اور اندر کی خبروں کے باعث شدت اختیار کر سکتا ہے تاہم تاحال پی سی بی چیئرمین محسن نقوی کی جانب سے اس بارے میں کوئی باضابطہ پریس کانفرنس نہیں کی گئی ہے۔

تاہم سات رکنی سیلیکشن کمیٹی جس میں کوچ اور کپتان بابر اعظم بھی شامل تھے میں سے صرف وہاب ریاض اور عبدالرزاق کو برطرف کیوں کیا گیا؟ اور کیا صرف اشخاص کی تبدیلی سے پاکستان کرکٹ ٹیم اور ڈھانچے میں بہتری آ سکتی ہے؟

wahab and other coaches
Getty Images

وہاب ریاض اور عبدالرزاق ہی کیوں؟

محسن نقوی کی جانب سے وہاب ریاض کی برطرفی کو خاص طور پر ’مقبول فیصلے‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور ان کی برطرفی سے بظاہر یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان کے قریبی لوگ بھی احتساب سے بچ نہیں سکتے۔

تاہم اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پی سی بی کے ایک اہلکار جو ان فیصلوں کی وجوہات کا علم رکھتے ہیں نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ وہاب ریاض اور عبدالرزاق جن کھلاڑیوں کی شمولیت پر زور دے رہے تھے سیلیکشن کمیٹی کے دیگر اراکین ان کھلاڑیوں کی جگہ دیگر کھلاڑیوں کو لے جانا چاہتے تھے اور ان کی جانب سے مسلسل دباؤ کے بعد سیلیکشن کمیٹی کے دیگر اراکین خاموش ہو گئے۔‘

’اس سے دونوں سیلیکٹرزکی مخصوص کھلاڑیوں اور خصوصاً ایک کھلاڑی کی طرف داری کا تاثر گیا اور ان کھلاڑیوں نے ورلڈکپ میں خاطر خواہ پرفارمنس نہیں دی۔‘

اہلکار کے مطابق ’وہاب ریاض بطور سینیئر ٹیم مینیجر ٹیم میں ڈسپلن برقرار رکھنے اور جس قسم کی کہانیاں ورلڈکپ میں سامنے آتی رہیں ان کی بعد میں آزادانہ تحقیقات بھی کروائی گئیں، اور ان سے یہ معلوم ہوا کہ سینیئر مینیجر وہاب ریاض اس حوالے سے کوئی بھی ایکشن لینے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔‘

بی بی سی نے ان دعوؤں کے حوالے سے وہاب ریاض سے مؤقف مانگا ہے تاہم تاحال کوئی بھی جواب موصول نہیں ہوا۔

خیال رہے کہ وہاب ریاض کے علاوہ ٹیم مینیجر منصور رانا کو بھی عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے۔

وہاب ریاض اور عبدالرزاق کی جانب سے سوشل میڈیا اور مقامی میڈیا پر اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کے بارے میں بیان جا ری کیے گئے ہیں۔

شاہین
Getty Images

وہاب ریاض نے سوشل میڈیا پر جاری تفصیلی بیان میں کہا ہے کہ ’وہ بلیم گیم کا حصہ نہیں بننا چاہتے اور سلیکشن کمیٹی میں رکن کے طور پر ان کام ختم ہو گیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے خلوص کے ساتھ کام کیا، سلیکشن پینل کا حصہ بن کر کام کرنا میرے لیے اعزاز رہا۔ سات رکنی کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے قومی ٹیم کے فیصلے کرنا اعزاز تھا۔‘

انھوں نے سیلیکشن کمیٹی کے فیصلوں پر تنقید کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہر کسی کا ووٹ یکساں تھا، ایک ٹیم کے طور پر فیصلے کیے اور سب نے یکساں طورپر اس کی ذمہ داری لی۔ ایک ووٹ کیسے چھ پر بھاری ہو سکتا ہے؟ میٹنگ منٹس میں سب کچھ ریکارڈ پر ہے۔‘

اس بارے میں عبدالرزاق کی جانب سے بھی یہی بیان سامنے آیا ہے۔

خیال رہے کہ وہاب ریاض کو سنہ 2022 میں اس وقت نگراں وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر فائز محسن نقوی نے اپنی کابینہ میں وہاب ریاض کو بطور وزیرِ کھیل شامل کیا تھا جس کے بعد وہ ذکا اشرف کے دور میں پی سی بی میں تعینات رہے اور بعد میں چیئرمین سیلیکشن کمیٹی بنے۔

محسن نقوی کی جانب سے سلیکشن کمیٹی میں سات اراکین شامل کر کے ہر رکن کے ووٹ کو یکساں اہمیت دی گئی تھی لیکن عام تاثر یہی تھا کہ وہاب ریاض ہی سیلیکشن کمیٹی کے فیصلوں پر زیادہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

پی سی بی کے اہلکار سے جب پوچھا گیا کہ ان برطرفیوں کے بارے میں کوئی واضح بیان کیوں جاری نہیں کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس کی عموماً قانون وجوہات ہوتی ہیں، متاثرہ شخص بورڈ کو عدالت لے جا سکتا ہے اس لیے کبھی وجوہات نہیں بتائی جاتیں۔

اندرونی کہانیاں اور پی سی بی کے مبہم اقدامات

ورلڈ کپ میں ناقص کارکردگی کے بعد دنیا بھر میں کھیلوں کے بورڈز کی جانب سے تبدیلیاں کی جاتی ہیں تو پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے کی گئیں ان تبدیلیوں پر شور کیوں مچ رہا ہے؟

صحافی اور ماضی میں پاکستان ٹیم کے میڈیا مینیجر کے طور پر کام کرنے والے احسن افتخار ناگی کے مطابق ’جس طرح سے یہ تبدیلیاں کی جا رہی ہیں اور اس حوالے سے جو ابہام موجود ہے وہ پریشان کن ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’تاحال کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نے کوئی پریس کانفرنس نہیں کی، اور نہ ہی ٹیم کی پرفارمنس کے بارے میں کوئی باضابطہ بیان دیا ہے۔ پاکستان کرکٹ کے مداح اس بارے میں تفصیلات اور وضاحت چاہتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جب انگلینڈ کی ٹیم 2015 کے ورلڈ کپ میں گروپ سٹیج سے باہر ہوئی تھی تو انگلینڈ کرکٹ بورڈ کی جانب سے ریویو کیا گیا تھا۔ جس میں پوری دنیا کے کامیاب کپتانوں کی رائے لی گئی تھی اور اپنی ڈیٹا ٹیم کے ذریعے حکمتِ عملی تیار کی گئی تھی۔ اس کے بعد سنہ 2019 کا ورلڈ کپ انگلینڈ نے اپنے نام کیا اور 2022 میں بھیٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں فتح حاصل کی۔‘

احسن کے مطابق پی سی بی کو ایسا ہی ایک ریویو کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے مطابق چیزیں چلانی چاہییں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’دو سیلیکٹرز کو ہی کیوں برطرف کیا گیا، آپ پہلے کوئی حکمتِ عمل وضع کریں اس کے بعد یہ اقدامات کریں، اس سیلیکشن کمیٹی کے تمام ممبران کے پاس دہرے عہدے تھے تو پھر دو ہی اراکین کو برطرف کرنا اور وضاحت نہ دینا سمجھ سے باہر ہے۔‘

کرکٹ تجزیہ کار اس فیصلے کو ’کاسمیٹک‘ تبدیلی سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پی سی بی بھی صرف مقبول فیصلے کر رہا ہے، سوشل میڈیا پر لوگوں کی جانب سے جو بات زیادہ کہی جائے گی وہ فیصلہ ہو جائے گا۔‘

’اصل مسائل کرکٹ کے ڈھانچے میں ہیں، اس کلچر کے ہیں جو پاکستان میں موجود ہے۔ مضبوط کرکٹ کلچرز والے ممالک میں کیوں کپتان ہٹانے پر شور نہیں مچتا اور ٹیم میں گروہ بندی کی آوازیں نہیں آتیں، کیونکہ وہاں ایک چھوٹی عمر سے ہی کھلاڑیوں کی اس حوالے تربیت کی جاتی ہے اور ایک کلچر بنایا جاتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ان معاملات کی جانب توجہ نہیں ہے صرف ایسی چیزوں پر زور ہے جن کی خبر بن سکتی ہے۔‘

shaheen babar
Getty Images

کوچز کی رپورٹس سے مبینہ معلومات لیک ہونے کی خبریں

گذشتہ روز سے ہی کوچز کی جانب سے پی سی بی کو جمع کروائی گئی رپورٹس میں سے معلومات منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر شاہین آفریدی ٹرینڈ کر رہے ہیں۔

احسن افتخار نے اس بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ معاملہ اس لیے بہت مایوس کن ہے کیونکہ یہی کھلاڑی چند ماہ پہلے تک آپ کا کپتان تھا اور ایسی خبریں سامنے لا کر پی سی بی ڈریسنگ روم کا ماحول مزید خراب کر رہا ہے۔‘

احسن نے کہا کہ ’شاہین کے محسن نقوی کے حوالے سے ماضی کے تنازعات بھی ہیں جن میں انھیں بتائے بغیر کپتانی سے ہٹانا اور پھر کاکول کا دورہ کر کے شاہین سے ملاقات کرنا شامل ہیں۔ ایسے میں اس قسم کی خبریں سامنے آنا جنھیں مخصوص میڈیا گروپس نے چلایا ہے، کیا پیغام دیتا ہے؟‘

انھوں نے کہا کہ ’دنیا میں کہیں بھی بورڈز اپنے کھلاڑیوں کے ساتھ ایسے ڈیل نہیں کرتے، اور کبھی بھی ان کے بارے میں کی گئی گفتگو کو سامنے نہیں لایا جاتا ہے۔ آپ ضرور ایکشن لیں لیکن اس کا یہ طریقہ ہرگز نہیں ہے کہ آپ ان سے متعلق باتوں کو میڈیا میں جانے سے بھی نہ روک سکیں۔‘

احسن کہتے ہیں کہ پلیئر مینیجمنٹ ایک شعبہ ہے جس میں بہت احتیاط برتنی ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہم اس معاملے میں خاصے پیچھے ہیں۔

mohsin
Getty Images

اس بارے میں بات کرتے ہوئے سمیع چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ روش پاکستان میں نوے کی دہائی سے چلی آ رہی ہے۔ اس وقت پرنٹ میڈیا پر ایسی خبریں لگا کرتی تھیں، اب الیکٹرانک اور پھر سوشل میڈیا کے آنے کے بعد ان خبروں میں اضافہ ہو گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں نہیں معلوم کہ یہ خبر سچی ہے یا جھوٹی، لیکن اس کے پسِ پردہ مقاصد ہر دفعہ پورے کر لیے جاتے ہیں اور کوئی احتساب نہیں ہوتا، اس سے پہلے گذشتہ ورلڈ کپ کے دوران اور اس کے بعد یہی صورتحال بابر اعظم کے ساتھ پیش آئی تھی اور اس سے پہلے بھی کرکٹرز کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ بھی ہو چکا ہے کہ شاہین عامر اور عماد سے ٹیم میں واپسی کے لیے بات کر رہے ہیں اور ادھر انھیں کپتانی سے ہٹا دیا گیا، یہ دونوں ایک ایسے کپتان کی سربراہی میں کھیلے جن کے بارے میں وہ میڈیا پر تنقید کر چکے تھے، ایسے میں ڈریسنگ روم کا ماحول کیسے درست ہو گا؟‘

انھوں نے کہا کہ ’بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں آپ میڈیا کے ذریعے بورڈ کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ جو جتنی بڑی خبر لیک کرتا ہے، اس صحافی کو بورڈ اتنا ہی چہیتا بنا لیتا ہے، یہ المیہ ہے اور بظاہر بورڈ بھی اس معاملے میں بے بس ہے۔‘

خیر، پی سی بی کی سرجری تو چلتی رہے گی لیکن آنے والے دنوں میں ایسی مزید خبروں، اندرونی کہانیوں اور الزامات اور ان کی تردید کے لیے تیار رہیے گا، کیونکہ پاکستان کرکٹ ایک بار پھر ایک نازک موڑ سے گزر رہی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.