لارنس بشنوئی: سدھو موسے والا اور سلمان خان پر حملوں کے ملزم جیل میں قید ہونے کے باوجود خوف کی علامت کیوں؟

دلی پولیس کے سابق کمشنر نیرج کمار کہتے ہیں کہ کسی بھی مجرم کو جیل میں رکھنے کا مقصد اسے جرائم کرنے سے روکنا ہے تاہم ’جب مجرم جیل سپرنٹنڈنٹ کے دفتر سے ہی کالیں کرنے لگے تو پھر لارنس بشنوئی جیسے لوگوں کو کون کنٹرول کرے گا؟‘

رواں سال اپریل میں بالی وڈ اداکار سلمان خان کے گھر پر فائرنگ کے معاملے میں ممبئی پولیس نے 1735 صفحات پر مشتمل چارج شیٹ جمع کروائی ہے جس میں لارنس بشنوئی کا نام بھی شامل ہے۔ یہ وہی لارنس بشنوئی ہیں جن پر پنجابی سنگر سدھو موسے والا کے قتل کا الزام ہے۔

پولیس افسران اور جرائم کی دنیا پر نظر رکھنے والے صحافیوں کا خیال ہے کہ بشنوئی لوگوں کے دلوں میں اپنا خوف بٹھانے کے لیے سلمان خان جیسی مشہور شخصیات کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگرچہ بشنوئی کے وکلا ان الزامات کی تردید کرتے ہیں مگر بعض پولیس اہلکاروں کا الزام ہے کہ بشنوئی جیل میں خود کو زیادہ محفوظ کرتے ہیں اور وہیں سے شوٹرز اور دیگر مجرمان کا نیٹ ورک چلاتے ہیں۔

’مجھے قانونی کارروائیوں میں الجھایا جا رہا ہے‘

چند برس قبل چندی گڑھ کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں پیشی کے دوران میری لارنس بشنوئی سے ملاقات ہوئی۔ انھیں وہاں ایک مقدمے میں پیشی کے لیے لایا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے ایک کے بعد ایک مقدمے میں پھسایا جا رہے۔ اس کے علاوہ اس ہتک عزت کے مقدمے میں میرا نام لانے میں آپ لوگوں (میڈیا) کا بھی کردار ہے۔‘

میڈیا کے کردار پر بات کرتے ہوئے دہلی پولیس کے سپیشل سیل کے سابق ڈی سی پی ایل این راؤ کا کہنا ہے کہ ’پولیس اور جیل کا کام آدھے سے بھی کم رہ جائے اگر میڈیا لارنس بشنوئی اور اس جیسے دوسرے مجرموں کی کہانیاں چھاپنا بند کردے۔‘

لارنس بشنوئی
Getty Images

کیا جیل میں قید لارنس بشنوئی واقعی باہر کی دنیا کے لیے خطرہ ہیں؟

سنجے بینیوال انڈیا کی تہاڑ جیل کے ڈائریکٹر جنرل رہ چکے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا لارنس بشنوئی جیل کے اندر رہتے ہوئے بھی باہر کی دنیا کے لیے خطرے کا باعث ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’بشنوئی کا خوف اس وجہ سے ہے کیونکہ وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونے کے باوجود باہر موجود اپنے قابل اعتماد غنڈوں اور شوٹروں کے ذریعے کوئی بھی جرم کروا سکتا ہے۔

’چاہے وہ پنجابی گلوکار سدھو موسے والا کا (مبینہ) قتل ہو یا کوئی اور جرم۔‘

وہ کہتے ہیں کہ لارنس بشنوئی کا جیل کے باہر نیٹ ورک بہت مضبوط ہے۔ ’پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں کے لیے اسے ختم کرنا بہت ضروری ہے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا تب تک لارنس بشنوئی جیسے مجرموں پر کوئی دباؤ نہیں پڑے گا۔‘

دلی پولیس کے سابق کمشنر نیرج کمار کہتے ہیں کہ کسی بھی مجرم کو جیل میں رکھنے کا مقصد اسے جرائم کرنے سے روکنا ہے۔ ’تاہم بہت سے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ کچھ مجرمان جیل سپرنٹنڈنٹ کے فون استعمال کرتے ہوئے باہر کالز کرتے رہتے ہیں۔‘

’جب مجرم جیل سپرنٹنڈنٹ کے دفتر سے ہی کالیں کرنے لگیں تو پھر لارنس بشنوئی جیسے لوگوں کو کون کنٹرول کرے گا؟ جیل کے باہر موجود مجرمان کا گٹھ جوڑ اتنا خطرناک نہیں جتنی خطرناک مجرمان اور جیل کے عملے کے درمیان دوستی ہے۔‘

’لارنس بشنوئی جیسے مجرمان خود کو جیل میں زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں‘

جب تہاڑ جیل کے سابق ڈائریکٹر جنرل سنجے بینیوال سے سوال کیا گیا کہ کیا ملک میں کوئی ایسی جیل نہیں ہے جس سے لارنس بشنوئی بھی خوفزدہ ہوں تو ان کا کہنا تھا کہ ’جو شخص خود کو جیل میں محفوظ سمجھتا ہو اور باہر جانا نہیں چاہتا ہو، وہ ملک کی کسی بھی جیل میں قید ہونے سے کیوں خوفزدہ ہو گا؟‘

’وہ تو چاہتے ہیں کہ انھیں ہمیشہ ہائی سکیورٹی جیل میں رکھا جائے تاکہ جیل کے باہر موجود ان کے دشمن ان تک نہ پہنچ سکیں۔‘

ایل این راؤ دہلی پولیس سپیشل سیل کے سابق ڈی سی پی ہیں۔ لیکن اب وہ دہلی ہائی کورٹ میں بطور وکیل فوجداری مقدمات کی پیروی کرتے ہیں۔

راؤ کے خیال میں لارنس بشنوئی جیسے لوگ خود کو جیل میں محفوظ سمجھتے ہیں، اسی لیے اکثر ان کے وکلا عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے۔

’دہلی کی کچھ عدالتوں کے ریکارڈ اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ لارنس بشنوئی کے وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوتے اور عدالت اگلی تاریخ دینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔‘

’جب بشنوئی جیسے لوگ ضمانت پر جیل سے نکلنا چاہتے تھے تو ان کے وکلا تاریخ پر فوراً حاضر ہو جاتے ہیں۔‘

’پولیس زبردستی لارنس بشنوئی کا نام ایف آئی آر میں شامل کرتی ہے‘

تاہم لارنس بشنوئی گینگ کے شوٹروں کی نمائندگی کرنے والے سینیئر وکیل اشوک بینیوال اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ لارنس بشنوئی جان بوجھ کر عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’لارنس بشنوئی عدالت میں ہر معاملے میں اپنی نمائندگی کے لیے وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی زحمت کیوں اٹھائیں؟ ایسے بہت سے معاملات ہیں جس میں پولیس نے زبردستی لارنس بشنوئی کا نام ایف آئی آر میں شامل کیا ہے تاکہ ان کی تعریف ہو۔‘

ایڈوکیٹ بینیوال دعوٰی کرتے ہیں کہ اس کا مقصد میڈیا سے تعریف بٹورنا ہے۔

’جب کیس ٹرائل کے لیے عدالت میں آتا ہے تو زیادہ تر معاملات میں پولیس لارنس بشنوئی کو ان جرائم سے جوڑنے میں ناکام رہتی ہے۔‘

بشنوئی کا نام لارنس کیسے پڑا؟

لارنس بشنوئی کی تاریخِ پیدائش کے بارے میں ابہام موجود ہے۔ کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق وہ 22 فروری 1992 کو پیدا ہوئے جبکہ کچھ اطلاعات کے مطابق ان کی تاریخِ پیدائش 12 فروری 1993 ہے۔

بہر صورت اس وقت لارنس کی عمر 31 سے 32 سال کے درمیان ہے۔

لارنس بشنوئی ضلع فاضلکہ کے علاقے ابوہر کے رہائشی ہیں۔

یہ گاؤں انڈیا کے مغربی پنجاب کے سرحدی علاقے میں واقع ہے۔ اس علاقے کے مغرب میں پاکستان سے متصل انڈیا کی سرحد ہے جبکہ جنوب میں راجستھان اور ہریانہ ہیں۔

اطلاعات کے مطابق لارنس بشنوئی کا خاندان زراعت کے پیشے سے وابستہ ہے۔

ان کی والدہ سنیتا بشنوئی نے ایک بار گاؤں کے سرپنچ کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے لیے انھوں نے فارم بھی بھرا تھا لیکن بعد میں الیکشن نہیں لڑا۔

لارنس بشنوئی کے والد لاویندر سنگھ سنہ 1992 میں ہریانہ پولیس میں بطور کانسٹیبل بھرتی ہوئے تاہم پانچ سال بعد ہی انھوں نے رضاکارانہ ریٹائرمنٹ لے لی اور کھیتی باڑی شروع کر دی۔

گولڈی
BBC

لارنس کا تعلق بشنوئی برادری سے ہے جو پنجاب، ہریانہ اور راجستھان کے کئی حصوں میں آباد ہے۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق لارنس بشنوئی کا اصل نام ستویندر سنگھ ہے۔

بشنوئی خاندان سے تعلق رکھنے والے لڑکے کا نام لارنس کیسے پڑا اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ بچپن میں ان کی خوبصورت رنگت کے باعث ان کے گھر والے انھیں پیار سے لارنس بلاتے تھے جو بعد میں ان کے اصلی نام سے زیادہ مشہور ہوگیا۔

طلبہ سیاست سے ’انڈر ورلڈ‘ تک کا سفر

لارنس نے 12ویں کی تعلیم پنجاب کے شہر ابوہر سے حاصل کی۔ اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے وہ 2010 میں چندی گڑھ چلے گئے جہاں انھوں نے ڈی اے وی کالج میں داخلہ لیا۔

رفتہ رفتہ لارنس نے طلبہ سیاست میں دلچسپی لینا شروع کر دی اور یہیں ان کی دوستی گولڈی برار سے ہوئی۔

گولڈی برار آج بھی لارنس بشنوئی گینگ کے لیے کام کرتے ہیں اور ایک طرح سے ملک کے باہر بیٹھ کر گینگ کو چلا رہے ہیں۔

زمانہ طالب علمی کے دوران لارنس بشنوئی کے سکول اور کالج میں ان کے ساتھ رہنے والے ساتھی طلبہ کا کہنا ہے کہ وہ پنجابی، باگڑی اور ہریانوی زبانیں بولتے ہیں۔

لارنس بشنوئی نے سنہ 2011-2012 میں طلبا تنظیم ’پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹ آرگنائزیشن‘ بنائی۔ اور اسی سال ان کے خلاف پہلا مقدمہ درج کیا گیا۔

طلبہ سیاست میں شکست کے بعد لارنس کے ساتھی طلبہ نے ایک مخالف طلبہ رہنما پر فائرنگ کر دی۔ اس واقعے کے بعد درج ہونے مقدمے میں پہلی بار لارنس کا نام کسی پولیس ایف آئی آر میں آیا تھا۔

لارنس بشنوئی کو پہلی بار 2014 میں راجستھان سے گرفتار کیا گیا۔ انھیں گرفتاری کے بعد بھرت پور جیل بھیج دیا گیا۔

تاہم جب انھیں پیشی کے لیے موہالی (پنجاب) لے جایا جا رہا تھا تو وہ پولیس کی حراست سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

انھیں دوسری مرتبہ سنہ 2016 میں گرفتار کیا گیا۔ سنہ 2021 میں انھیں مہاراشٹر کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم ایکٹ کے تحت سیکورٹی وجوہات کی بنا پر تہاڑ جیل بھیج دیا گیا۔

تہاڑ لائے جانے سے پہلے وہ پنجاب کی بھٹنڈہ جیل میں قید تھے۔

سال 2022 میں، پنجاب پولیس نے انھیں جیل سے ہی سدھو موسے والا کے قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا۔

سال 2022 میں کچ میں پاکستانی جہاز سے منشیات کی ایک بڑی کھیپ پکڑے جانے کے بعد گجرات اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ نے لارنس بشنوئی کو منشیات کی اسمگلنگ کے کیس میں نامزد کر دیا۔

پولیس کو شک تھا کہ منشیات کی اس کھیپ کا آرڈر دینے میں لارنس کا ہاتھ ہے۔

اس کے بعد لارنس کو 23 اگست 2023 کو دہلی جیل سے گجرات کی سابرمتی جیل منتقل کردیا گیا۔ تب سے لارنس وہیں قید ہیں۔

30 اگست 2023 کو انڈین وزارت داخلہ نے لارنس بشنوئی پر سی آر پی سی کی دفعہ 268 (1) لگادی جس کے بعد انھیں کسی بھی حالت میں ایک سال تک سابرمتی جیل سے باہر نہیں لایا جا سکتا۔

یہی وجہ ہے کہ مختلف عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات میں ان کی پیشی اب ویڈیو لنک کے ذریعے ہو رہی ہے۔

عموماً جرم کرنے کے بعد مجرمان پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن لارنس بشنوئی اور ان کا گینگ ایسا نہیں کرتا۔

وہ کسی بھی بڑے واقعے کے بعد اس کی ذمہ داری خود قبول کرتے ہیں۔

بشنوئی گینگ کی جانب سے کی جانے بڑی کارروائیوں کی بات کی جائے تو ان میں گلوکار سدھو موس والا کے قتل کے علاوہ گزشتہ سال جے پور میں کرنی سینا کے صدر سکھ دیو سنگھ گوگامیڈی کا قتل بھی شامل ہے۔

’لارنس کو ڈان بنانے میں جیل، پولیس اور سیاستدانوں کا ہاتھ ہے‘

سابق ڈی سی پی ایل این راؤ کہتے ہیں کہ جب لارنس بشنوئی جیسے نوجوان جرائم کی دنیا میں داخل ہو کر پہلی بار جیل جاتے ہیں تو وہاں پہلے سے قید عادی مجرمان انھیں جرم کی دنیا کا سبق پڑھاتے ہیں۔ اور جب وہ جیل سے باہر آتے ہیں تو کرپٹ نظام سے بھی انھیں فائدہ ہوتا ہے۔

اتر پردیش کے سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس وکرم سنگھ کے مطابق ان مجرموں کو بڑھاوا دینے میں جیل پولیس اور سیاست دانوں کا بھی ہاتھ ہوتا ہے جو اپنے فوائد کے لیے لارنس بشنوئی جیسے لوگوں کو استعمال کرتے ہیں۔

دہلی پولیس کے سابق کمشنر اجے راج شرما بھی اس بات سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جس دن ملک کی پولیس اور قانون نے ایمانداری سے لارنس جیسے غنڈوں کو قابو کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ کبھی بھی جرم کی دنیا میں کے ’بڑے‘ نہیں بن سکیں گے۔

شرما کہتے ہیں کہ جب لارنس بشنوئی جیسے بگڑے نوجوان جیل سے باہر آتے ہیں تو یہ علاقہ پولیس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان پر کڑی نظر رکھے کہ کہیں جیل سے باہر آنے کے بعد ان کی مشکوک سرگرمیوں میں اضافہ تو نہیں ہو گیا تاکہ آگے چل کر وہ معاشرے اور پولیس کے لیے دردِ سر نہ بنے۔

اس سوال کے جواب میں کہ طلبہ کی سیاست کے ذریعے مرکزی سیاست کے دھارے میں شامل ہونے کا خواہش مند نوجوان بین الاقوامی ڈان لارنس بشنوئی کیسے بنا، پنجاب کے سابق ریٹائرڈ پرنسپل سیکرٹری برائے تعلیم رام لدر کا کہنا ہے کہ ’لارنس بشنوئی جیل پولیس اور سیاستدانوں کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔‘

رام لدر کہتے ہیں کہ وہ تمام پولیس اور جیل کے افسران، سیاستدانوں یا بیوروکریٹس پر الزام نہیں لگارہے۔

ان کے خیال میں بنا کسی کی سرپرستی کے لارنس بشنوئی جیسے مجرمان جرائم کی دنیا کا بڑا نام نہیں بن سکتے۔

اگرچہ لارنس بشنوئی قانون اور پولیس کی نظر میں ایک مجرم ہے لیکن بشنوئی برادری پر ان کے اثر و رسوخ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

راجستھان کے سینئر وکیل اشوک بینیوال کا کہنا ہے کہ بشنوئی کمیونٹی میں لارنس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بشنوئی برادری میں جب بھی فریقین کے درمیان کوئی بھی تنازع پیدا ہوتا ہے تو وہ لارنس کے ایک حکم پر ختم ہو جاتا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.