تین دن میں دو تمغے: منو بھاکر ایک ہی اولمپکس میں دو میڈلز جیتنے والی پہلی انڈین

تین برس قبل ٹوکیو اولمپکس کے دوران انڈین شوٹر منو بھاکر کی کارکردگی ایسی نہیں تھی کہ انھیں اگلے اولمپکس کے لیے تمغے کے دعویداروں میں شمار کیا جاتا لیکن منو نہ صرف پیرس میں ایک نہیں بلکہ کانسی کے دو تمغوں کی حقدار قرار پائی ہیں بلکہ کسی بھی ایک اولمپکس میں دو میڈلز جیتنے والی پہلی انڈین بھی بن گئی ہیں۔
منو اور سربجوت
Getty Images
منو نے 10 میٹر ایئر پسٹل کے مکسڈ ٹیم ایونٹ میں سربجوت سنگھ کے ساتھ کانسی کا تمغہ جیتا

تین برس قبل ٹوکیو اولمپکس کے دوران انڈین شوٹر منو بھاکر کی کارکردگی ایسی نہیں تھی کہ انھیں اگلے اولمپکس کے لیے تمغے کے دعویداروں میں شمار کیا جاتا لیکن منو نے پیرس میں ایک نہیں بلکہ دو، دو تمغے جیت کر تاریخ رقم کر دی ہے۔

28 جولائی کو منو شوٹنگ میں 10 میٹر ایئر پسٹل کے انفرادی مقابلوں میں تیسری پوزیشن حاصل کر کے اولمپک تمغہ جیتنے والی پہلی انڈین خاتون بنی تھیں اور دو دن بعد 30 جولائی کو انھوں نے وہ کارنامہ کر دکھایا جو انڈیا کی آزادی کے بعد سے کوئی بھی انڈین کھلاڑی چاہے وہ مرد ہو یا خاتون نہیں کر پایا تھا۔

منگل کو منو نے اسی زمرے کے مکسڈ ٹیم ایونٹ میں سربجوت سنگھ کے ساتھ کانسی کا ایک اور تمغہ جیت لیا اور وہ ایک ہی اولمپکس میں دو تمغے جیتنے والی پہلی انڈین کھلاڑی بن گئیں۔

اگرچہ منو سے قبل پہلوان سشیل کمار اور بیڈمنٹن کھلاڑی پی وی سندھو انڈیا کے لیے دو اولمپک تمغے جیت چکے ہیں لیکن انھوں نے یہ کارنامہ دو مختلف اولمپکس میں انجام دیا تھا۔

2008 کے بیجنگ اولمپکس میں کانسی کا تمغہ جیتنے کے بعد سشیل کمار نے 2012 کے لندن اولمپکس میں چاندی کا تمغہ جیتا تھا جبکہ پی وی سندھو 2016 کے ریو اولمپکس میں چاندی کا تمغہ جیتنے کے بعد 2020 کے ٹوکیو اولمپکس میں کانسی کا تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوئی تھیں۔

Mannu Bhakar
Getty Images

’سٹل آئی رائز‘

منو بھاکر ٹوکیو اولمپکس میں اسی ایونٹ میں فائنل مرحلے میں جگہ بھی نہیں بنا سکی تھیں اور پھر انھوں نے اولمپکس کے خاتمے کے بعد خود کو متحرک رکھنے کے لیے اپنی گردن پر ایک ٹیٹو بنوانے کا فیصلہ کیا۔

اس ٹیٹو کے لیے ان کی پسند امریکی شاعرہ مایا اینجلو کی نظم ’سٹل آئی رائز‘ تھی جس کا عنوان انھوں نے اپنی گردن پر گدوا لیا۔

ٹیٹو بنوانے کے بعد منو بھاکرنے کہا تھا کہ ’سٹل آئی رائز‘ کے الفاظ میرے شوٹنگ کیریئر کا دل بھی ہیں۔ یہ میرے لیے متاثر کن الفاظ تھے، اس لیے میں نے انھیں گدوانے کا فیصلہ کیا۔‘

منو بھاکر نے کہا کہ میں کچھ عرصے سے اس کو ٹیٹو کروانے کا سوچ رہی تھی لیکن یہ ایک مستقل ٹیٹو ہے اس لیے مجھے کئی بار سوچنا پڑا کہ میں اسے کہاں کرواؤں۔

انھوں نے کہا کہ ’میں اپنے جسم کے کسی ایسے حصے پر ٹیٹو نہیں بنوانا چاہتی تھی جہاں وہ مجھے نظر آئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، میں اسے مسلسل دیکھنے سے بور ہو سکتی تھی، اس لیے میں نے اسے اپنی گردن کے پچھلے حصے پر کروانے کا سوچا۔‘

منوبھاکر نے کہا تھا کہ ’ٹوکیو میرے لیے ماضی ہے اور میں اب بھی آگے بڑھ رہی ہوں۔‘

پیرس
Getty Images

’ایک ناقابل یقین کامیابی!‘

منو بھاکر کی جیت کے بعد ہریانہ کے جھجر ضلع کے گوریا گاؤں میں ان کے گھر پر جشن کا سا ماحول ہے۔

منو بھاکر کی والدہ سومیدھا بھاکر نے خبر رساں ادارے اے این آئی کو بتایا کہ ’میں نے منو سے کبھی کوئی امید نہیں رکھی تھی۔ میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ میری بیٹی جہاں بھی جائے، وہ خوش ہو کر واپس آئے اور اس کا دل نہ ٹوٹے۔‘

ان کے والد رام کشن بھاکر نے میڈیا کو بتایا کہ ’یہاں میرے پڑوسی مجھ سے زیادہ خوش ہیں۔ منو نے پیرس اولمپکس میں تمغہ جیتا ہے جس پر پورا ملک خوش ہے۔ میں اس کے لیے تمام ہم وطنوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کو وزارت کھیل اور فیڈریشن سمیت ہر طرف سے مدد ملی ہے، جس سے ان کے حوصلے میں اضافہ ہوا۔

منو بھاکر کے والد رام کشن نے مزید بتایا کہ ’منو سنہ 2016 میں جب 10ویں کلاس میں تھیں تب سے شوٹنگ کی مشق کر رہی تھیں۔‘ ان کے مطابق اس دوران ایسا وقت بھی آیا کہ منو نے اس کھیل سے ہٹ کر کچھ اور کرنے کا سوچنا شروع کیا۔‘

رام کشن کے مطابق یہ منو کی پرانی عادت ہے اوراسے ہم نے اس معاملے کو معمول کے مطابق لیا۔

ماضی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ منو نے دسویں تک بہت سارے کھیلوں میں قسمت آزمائی کی ہے۔ انھوں نے کراٹے میں قومی سطح پر چاندی کا تمغہ جیتا۔ اس کے علاوہ منو نے سکیٹنگ اور باکسنگ میں بھی اپنے جوہر دکھائے۔

رام کشن کے مطابق ’منو بھاکر کے ابھی دو ایونٹ باقی ہیں، مجھے امید ہے کہ وہ اچھی کارکردگی دکھائے گی۔‘

India
Getty Images

انڈیا کی صدر دروپدی مرمو نے منو بھاکر کو تمغہ جیتنے پر مبارکباد دی ہے۔ انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’وہ شوٹنگ مقابلے میں اولمپک میڈل جیتنے والی پہلی انڈین خاتون ہیں۔ انڈیا کو منو بھاکر پر فخر ہے۔‘

منو بھاکر کی اس کامیابی کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اپنے ایکس اکاؤنٹ سے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ایک تاریخی تمغہ! پیرس اولمپکس میں انڈیا کو پہلا تمغہ جیتانے پر شاباش منو بھاکر۔‘

وزیر اعظم مودی نے مزید لکھا کہ ’کانسی کے تمغے پر مبارکباد۔ یہ کامیابی اور بھی خاص ہے کیونکہ وہ انڈیا کے لیے شوٹنگ میں تمغہ جیتنے والی پہلی خاتون بن گئی ہیں۔ ایک ناقابل یقین کامیابی!‘

وزیر کھیل منسکھ منڈاویہ نے منو بھاکر کے کانسی کا تمغہ جیتنے کو ایک قابل فخر لمحہ قرار دیا۔

انھوں نے لکھا کہ ’مبارک ہو منو، آپ نے اپنی مہارت اور لگن کا مظاہرہ کیا، آپ انڈیا کے لیے اولمپک میڈل جیتنے والی پہلی خاتون شوٹر بن گئی ہیں۔‘

کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے لکھا کہ ’آپ کی کامیابی آپ کی غیر معمولی مہارت اور استقامت کا ثبوت ہے۔ ہمیں آپ پر بے حد فخر ہے! یہ اہم موقع لاتعداد نوجوان کھلاڑیوں کو بہترین کارکردگی کے لیے جدوجہد کرنے کی ترغیب دے گا۔‘

منو بھاکر نے ہفتہ کو اولمپکس کے کوالیفکیشن راؤنڈ میں 580 پوائنٹس کے ساتھ تیسرا مقام حاصل کرکے فائنل میں جگہ بنائی تھی۔

16 سال کی عمر میں دو گولڈ میڈل

Mannu Bhakar
BBC

منو ہریانہ کے جھجر ضلع کے گوریا گاؤں کی رہنے والی ہیں۔ ان کی والدہ سکول میں پڑھاتی ہیں جبکہ ان کے والد میرین انجینیئر ہیں۔

سنہ 2018 میں منو بھاکر نے میکسیکو میں انٹرنیشنل شوٹنگ سپورٹس فیڈریشن (آئی ایس ایس ایف) میںانڈیا کے لیے دو سونے کے تمغے جیتے تھے۔

منو نے 10 میٹر ایئر پسٹل (خواتین) کی کیٹگری میں پہلا طلائی اور دوسرا طلائی 10 میٹر ایئر پسٹل (مکسڈ ایونٹ) میں جیتا تھا۔ 16 سالہ منو نے ایک ہی دن میں شوٹنگ میں دو گولڈ میڈل جیت کر نیا ریکارڈ بنایا تھا۔ وہ ایسا کرنے والی سب سے کم عمر خاتون کھلاڑی تھیں۔

اس تقریب کے بعد بی بی سی کے نامہ نگار سروج سنگھ نے منو بھاکر کے والد رام کشن بھاکر سے بات کی۔

بات چیت کے دوران رام کشن بھاکر نے بتایا تھا کہ وہ میرین انجینیئر تھے اور انھوں نے اپنی بیٹی کی خاطر نوکری چھوڑ دی تھی۔ ان کے مطابق کئی کھیلوں کو آزمانے کے بعد منو نے سنہ 2016 میں شوٹنگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔

’منو کے شوق پر نوکری قربان کر دی‘

منو بھاکر کے والد رام کشن بھاکر نے بتایا کہ جب منو نے پہلی بار سکول میں کسی تقریب میں شرکت کی تو اس نے اتنی درستگی سے نشانہ لگایا کہ سکول کے اساتذہ دنگ رہ گئے۔

پھر کچھ مشق اور تربیت کے بعد مختلف مقامات پر منعقد ہونے والے مقابلوں میں شرکت کا سلسلہ شروع ہوا۔

لیکن مسئلہ یہ تھا کہ منو لائسنس یافتہ پستول کے ساتھ پبلک بسوں میں سفر نہیں کر سکتی تھیں اور چونکہ وہ بالغ نہیں تھیں اس لیے وہ شوٹنگ ایونٹ میں شرکت کے لیے خود گاڑی نہیں چلا سکتی تھیں۔

اس لیے رام کشن نے اپنی بیٹی کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے نوکری چھوڑ دی۔ نوکری چھوڑنے کے بعد وہ اپنی بیٹی کے ساتھ شوٹنگ ایونٹس میں جایا کرتے تھے۔

رام کشن بھاکر نے بتایا تھا کہ ’شوٹنگ ایک بہت مہنگا کھیل ہے۔ ہر پستول کی قیمت دو لاکھ ہے۔ اب تک ہم نے منو کے لیے تین پستول خریدے ہیں۔ ہم ایک سال میں تقریباً 10 لاکھ روپے صرف منو کے کھیل پر خرچ کرتے ہیں۔‘

Mannu
Getty Images

پستول کے لائسنس کے لیے جدوجہد

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ منو کو اس پستول کا لائسنس حاصل کرنے کے لیے ڈھائی ماہ انتظار کرنا پڑا جس سے انھوں نے ہندوستان کے لیے دو گولڈ میڈل جیتے تھے۔ عام طور پر کھلاڑیوں کو یہ لائسنس ایک ہفتے کے اندر مل جاتا ہے۔

اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے رام کشن بھاکر کہتے ہیں، ’مئی 2017 میں، میں نے بیرون ملک سے پستول لینے کے لیے درخواست دی تھی، لیکن میری درخواست جھجر کی ضلعی انتظامیہ نے مسترد کر دی تھی۔‘

پھر یہ معاملہ میڈیا میں آیا اور اس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ لائسنس کے لیے درخواست دیتے وقت اس کی وجہ ’سیلف ڈیفنس‘ لکھا گیا تھا۔

اس کے بعد ضلعی انتظامیہ کی جانب سے معاملے کی فوری تحقیقات کی گئی جس کے بعد سات دن کے اندر لائسنس جاری کر دیا گیا۔

منو کو اس کے ہم جماعت سکول میں ’آل راؤنڈر‘ کہتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ منو نے باکسنگ، ایتھلیٹکس، سکیٹنگ اور جوڈو کراٹے جیسے کئی کھیلوں میں اپنی قسمت آزمائی۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.