کھیلوں کے وہ مقابلے جہاں خواتین مردوں کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں

شدید ترین موسم کو برداشت کر لینا ایک ایسی صلاحیت ہے، جس کا کھیلوں کے شعبے میں خواتین کو فائدہ ہوتا ہے کیونکہ ان میں چربی کی تقسیم، شدید ٹھنڈے پانی میں جسم کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
کم یجی نے 2024 کے پیرس اولمپکس میں چاندی کا تمغہ جیتا ہے
Getty Images
کم یجی نے 2024 کے پیرس اولمپکس میں چاندی کا تمغہ جیتا ہے

چالیس برس گزر جانے کے باوجود پینی لی ڈین کو شدید سردی کا وہ احساس آج بھی اچھی طرح سے یاد ہے۔

ڈین سنہ 1978 میں انگلش چینل میں تیراکی کے ایک مقابلے کے لیے تیاری کر رہی تھیں اور اس کے لیے ٹریننگ انتہائی مشکل تھی۔

وہ یاد کرتی ہیں کہ ’آپ کے ہاتھوں اور ٹانگوں میں کریمپ پڑ جاتے ہیں۔‘

تیراکی کی پریکٹس کے بعد جب وہ پانی سے باہر نکلیں تو انھیں دوبارہ گرم محسوس کرنے میں گھنٹوں لگتے۔ 20 منٹ کا گرم شاور یا گرم پانی کے ٹب میں ڈبکی لگانا کافی نہیں تھا۔

ہڈیوں کو لرزا دینے والی یہ سردی ایک ریکارڈ توڑنے والی تیراک کے طور پر ان کی کامیابی کے لیے ضروری تھی۔

شدید ترین موسم کو برداشت کر لینا ایک ایسی صلاحیت ہے، جس کا کھیلوں کے شعبے میں خواتین کو فائدہ ہوتا ہے کیونکہ ان میں چربی کی تقسیم، شدید ٹھنڈے پانی میں جسم کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

ڈین کا ماننا ہے کہ خواتین میں تکلیف برداشت کرنے کی صلاحیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔

درحقیقت شوٹنگ سے لے کر الٹرا رننگ (دوڑ کے مقابلے) تک مختلف مسابقتی مقابلوں میں خواتین مردوں کی طرح ہی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہیں۔

تاہم کھیلوں کے شعبے میں خواتین کی زیادہ شمولیت کوئی آسان چیز نہیں اور اب بھی ایتھلیٹکس میں جنس کے کردار کے بارے میں جوابات سے زیادہ سوالات ہیں۔

نشانہ بازی
Getty Images
بند جگہوں پر ساکن اہداف کی شوٹنگ کرتے وقت خواتین مردوں کے برابر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں

ایک مشکل موازنہ

آرٹک یونیورسٹی آف ناروے میں سپورٹس سائنس کے پروفیسر اور نارویجن سکول آف ایلیٹ سپورٹ کے ڈائریکٹر اوئیوند سینڈبیک نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر دریافت کیا کہ خواتین اور مرد کھلاڑیوں کے درمیان اوسط کارکردگی میں فرق بڑھ گیا ہے۔

اس مطالعے کے مطابق یہ فرق انتہائی برداشت والی تیراکی میں نمایاں طور پر کم جبکہ ایسے کھیل، جس میں جسم کے اوپری حصے کی کافی مضبوطی شامل ہو، میں کافی زیادہ ہو سکتا ہے۔

صنفی بنیادوں پر تعصب کی وجہ سے ایک دوسرے کے مدمقابل آنے والے کھلاڑیوں کی تعداد بھی محدود ہو سکتی ہے۔

دقیانوسی تصورات کی وجہ سے ایسے کھیل جن کا تعلق ’خوبصورتی‘ سے ہو، انھیں خواتین سے منسوب کیا جاتا ہے جبکہ بہت سے معاشروں میں مارشل آرٹس یا باکسنگ کو خواتین کے کھیل کے طور پر قبول نہیں کیا جاتا۔

واضح رہے کہ پیرس اولمپکس میں کوئی بھی مرد کھلاڑی آرٹسٹک تیراکی میں حصہ نہیں لے رہا۔

پروفیسر سینڈبیک اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کھیلوں کے شعبے میں خواتین اور مردوں کے درمیان فرق کرنے والے حیاتیاتی اور سماجی پہلوؤں کو الگ کرنا بھی بہت مشکل ہے۔ اس میں کھیلوں کے شعبے میں مواقع تک غیر مساوی رسائی شامل ہے۔

اس کے باوجود طویل فاصلہ طے کرنے والے کھیلوں میں رفتار اور پیسنگ خواتین کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔

سینڈبیک کہتے ہیں کہ خواتین عموماً بہتر پیسر ہوتی ہیں، مثال کے طور پر میراتھن میں لیکن مقابلہ کرنے کی صلاحیت صرف فزیالوجی پر منحصر نہیں بلکہ سماجی حالات اور نفسیات بھی اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

زیادہ تر تحقیقات میں بچوں میں ایتھلیٹک صلاحیتوں پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے تاہم کچھ اشاریے اس بات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ ہیں کہ لڑکیوں کے اردگرد کا ماحول ان میں مقابلے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتا ہے۔

امریکہ کے کالج آف سپورٹس میڈیسن کے سنہ 2023 میں جاری کردہ ایک سائنسی اتفاق رائے کے مطابق بلوغت سے قبل لڑکیوں اور لڑکوں کے درمیان ایتھلیٹک کارکردگی میں فرق ’کم سے کم‘ ہوتا ہے تاہم جو بعد میں بڑھتا چلا جاتا ہے۔

تیراکی کی ماہر
Getty Images
خواتین میں تکلیف برداشت کرنے کی صلاحیت بھی زیادہ ہوتی ہے

تاہم یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بلوغت سے پہلے کی کارکردگی سے متعلق اعداد و شمار میں تضاد پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ تحقیقات کے مطابق نوجوان لڑکوں کو ٹریک کھیلوں (دوڑنے، چھلانگ لگانے والے کھیلوں) میں ایتھلیٹک برتری حاصل ہوتی ہے۔

پٹھوں کے سائز اور قوت کا تعلق عام طور پر ٹیسٹیسٹوران (ہارمون) کی سطح سے جوڑا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہیموگلوبن کی سطح اور آکسیجن کی بہتر مقدار بھی اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔

یہ مردوں میں مقابلہ بازی کے رجحان سے بھی منسلک کیا جاتا ہے. یعنی مردانہ ہارمون کھیلوں کے اندر اور اس سے باہر مردوں میں زیادہ خطرات مول لینے کے رجحان پراثراندازہوتا ہے۔

تاہم ٹیسٹوسٹیرون خواتین کو متاثر کرسکتا ہے (یا ایسٹروجن مردوں کو کیسے متاثر کرتا ہے) اس بارے میں تحقیقات ابھی محدود ہیں۔

مردوں اور عورتوں میں عام طور پر ٹیسٹوسٹیرون کی سطح کا واضح فرق ہوتا ہے۔

کھیلوں اور جنس کے موضوع کا احاطہ کرنے والے صحافی مرٹینز کا کہنا ہے کہ ٹیسٹوسٹیرون کی سطح اور کارکردگی کے درمیان کوئی واضح لکیر موجود نہیں ہے۔

’درحقیقت، بہت سے اعلی پائے کے مرد کھلاڑیوں میںً مجموعی طور پر ٹیسٹوسٹیرون کی اوسط سطح کافی کم ہوتی ہے۔‘

اینڈو کرائنولوجی کے ایک مطالعہ میں اولمپک کھیلوں میں حصہ لینے والے 15 میں سے 12 کھلاڑیوں کا جائزہ لیا گیا تو ایک چوتھائی مردوں میں ٹیسٹوسٹیرون کی سطح اوسط سے کم پائی گئی۔

مرٹینز کا کہنا ہے کہ ہائپراینڈروجنزم والی خواتین جن میں ٹیسٹوسٹیرون کی سطح مردوں میں پائے جانے والی اوسط سطح کے قریب ہو ان کی کارکردگی مردوں جیسی نہیں ہوتی۔

طویل میراتھن
Getty Images
195 میل سے زیادہ طویل میراتھن میں خواتین کو برتری حاصل ہوتی ہے

ٹھنڈے پانی کا خواتین تیراک کو فائدہ ہوتا ہے

انگلش چینل کے ریکارڈ بنانے سے قبل ڈین نے کیٹالینا چینل میں تیز ترین تیراکی کا ایک نیا ریکارڈ بھی قائم کیا تھا۔ واضح رہے کہ کیٹالینا چینل لاس اینجلس، کیلیفورنیا کے ساحل سے پرے واقع ہے۔

ڈین نے سمندر کا 32.5 کلومیٹر (20.2 میل) کا یہ حصہ سات گھنٹے اور 16 منٹ میں عبور کیا۔

ڈین اس ریکارڈ کے اب تک برقرار رہنے پر خود بھی حیران ہیں۔

’آپ کو پتا ہے کہ میں اس ریکارڈ کو توڑنا چاہتی تھی اور یہی میرا مقصد بھی تھا۔ تاہم مجھے خوشی ہوتی اگر یہ ایک سال ہی برقرار رہتا۔‘

فزیکل ایجوکیشن کی پروفیسر اور واٹر سپورٹس کوچ کی حیثیت سے کیریئر بنانے کے بعد ڈین میراتھن اب تیراکی کی پرجوش اور سرگرم حامی بن چکی ہیں۔

وہ خاص طور پر لمبی تیراکی کو پسند کرتی ہیں جو ان کے خیال میں اس کھیل کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔

تاہم ساتھ ہی وہ کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں 20 میل (32 کلومیٹر) اور اس سے اوپر کی ریس میں خواتین مردوں کو شکست دے سکتی ہیں۔‘

ان کے مطابق ’اگر پانی ٹھنڈا ہو تو اس کا خواتین کو فائدہ ہوتا ہے۔‘

وہ خاص طور پر لمبی تیراکی کو پسند کرتی ہیں جو ان کے خیال میں اس کھیل کی بہترین عکاسی کرپاتی ہے۔

تاہم ساتھ ہی وہ کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں 20 میل (32 کلومیٹر) اور اس سے اوپر کی ریس میں خواتین مردوں کو شکست دے سکتی ہیں۔‘

ہو سکتا ہے کہ خواتین کے جسم کا تناسب اور چربی زیادہ ٹھنڈے پانی میں جسم کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ تیرنے میں بھی مددگار ہوتی ہو۔

انٹرنیشنل میراتھن سوئمنگ ہال آف فیم کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ نیڈ ڈینیسن کہتے ہیں ’عام درجہ حرارت میں ہونے والے مقابلوں میں مرد تیز رفتار ثابت ہوتے ہیں۔ مرد تیراک بھی عام طور پر طویل قامت اور دبلے پتلے ہوتے ہیں، نیلا ڈینیسن کے مطابق جسم میں موجود چربی کے علاوہ پانی کی سطح کا رقبہ بھی اس بات کا تعین کرتا ہے کہ آپ کو کتنی ٹھنڈ لگتی ہے۔‘

سپورٹس جرنلسٹ مرٹینز کا کہنا ہے کہ ’جسم کی چربی بھی ان مقابلوں میں واقعی مددگار ثابت ہوتی ہے کیونکہ تھوڑی دیر کی دوڑ کے بعد ہی آپ کے جسم کو حرارت یا توانائی اسی سے ملتی ہے۔ اور اگر آپ میں وہ وافر مقدار میں نہیں تو آپ اتنی دور نہیں جا سکتے۔‘

تیراکی کے مقابلے کے حوالے سے کھیلوں کے سائنس دان سینڈبک کا خیال ہے کہ سرد موسم میں انتہائی برداشت کرنے والے دیگر کھیلوں میں خواتین کی برتری کم ہو سکتی ہے کیونکہ ان کھیلوں میں استعمال کیا جانے والا مخصوص لباس جسم کے درجہ حرارت کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔

تاہم ڈین کا خیال ہے کہ پانی کی سطح پر تیرنے والی خواتین کے لیے کھلے پانی میں طویل فاصلوں پر تیراکی کرنے میں درجہ حرارت برقرار رکھنے والے لباس سے زیادہ تکلیف برداشت کرنے کی صلاحیت اور دماغی تربیت مددگار رہتی ہے۔

انگلش چینل میں تیراکی کے دنوں میں وہ اپنی ذہنی تربیت میں جن چیزوں سے مدد لیتی تھیں اس میں ان حوصلہ افزا اقوال کو دہرانا شامل تھا جو انھیں ذہنی طور پر تیار رکھتے تھے مثلاً پانی جتنا ٹھنڈا ہوگا، اتنا ہی بہتر ہے اور ہر ایک جھٹکے کے ساتھ میرے بازو بہتر سے بہتر ہوتے جائیں گے۔

طویل اور مشکل مقابلوں میں جہاں خراب موسم سے لے کر جسم میں شدید درد جیسی مشکلات سامنے آتی ہیں وہیں ان سے نمٹنے کی صلاحیت بھی ابھر کر سامنے آتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ دوڑنے والے مقابلوں میں، فاصلہ جتنا طویل ہوگا اس میں مردوں اور عورتوں کے وقت میں فرق اتنا ہی کم ہوگا۔

2020 کے دوڑ کے مقابلوں کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ 195 میل (314 کلومیٹر) سے آگے کی دوڑ میں خواتین 0.6 فیصد تیز پائی گئی تھیں۔

مجموعی طور پر اس بارے میں ملے جلے شواہد موجود ہیں کہ خواتین میں درد برداشت کرنے کی صلاحیت مردوں سے کس طرح مختلف ہے۔

سینڈبک کا کہنا ہے کہ کھیلوں کی اشرافیہ کی سطح پر موازنہ مشکل ہے۔ لیکن خواتین کی دیگر خصوصیات انھیں منفرد بھی بناتی ہیں۔

بعض تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ خواتین ورزش کے بعد تیزی سے صحت یاب ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ ان کے پٹھوں کی ساخت اور طاقت سے ہو سکتا ہے جو پٹھوں کی تھکاوٹ سے محفوظ رکھتی ہیں۔

اس کے باعث خواتین اور لڑکیوں میں زیادہ لچک پائی جاتی ہے جو ان کے پٹھوں میں سختی کو کم کرنے میں مدد گار رہتی ہے۔

طویل تیراکی
Getty Images
امریکی تیراک ڈیانا نیاڈ پہلی شخص تھیں جنھوں نے شارک سے بچنے کے پنجرے کا استعمال کیے بغیر کیوبا سے فلوریڈا تک 110 میل (161 کلومیٹر) طویل تیراکی کی

ذہنی طاقت کی اہمیت

جنوبی کوریا کی ایتھلیٹ کم بیجی ایک بہت ہی مختلف کھیل کی نامور کھلاڑی ہیں۔ ییجی کھیل کے دوران حواس اور اعصاب کو برقرار رکھنے کی اہمیت کے بارے میں ڈین سے متفق ہیں۔

کم پیرس اولمپکس میں خواتین اور شوٹنگ کے مقابلوں میں حصہ لے رہی ہیں۔

انھوں نے اس سال کے شروع میں انٹرنیشنل شوٹنگ سپورٹ فیڈریشن (ISSF) ورلڈ کپ میں خواتین کے 25 میٹر رینج کی پسٹل شوٹنگ کا عالمی ریکارڈ قائم کر کے اپنی ساتھی یانگ جن کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔

کم کا کہنا ہے کہ ’مجھے یقین ہے کہ نشانے بازی جسمانی سے زیادہ ذہنی کھیل ہے۔ میرے خیال میں یہ دماغ اور روح کے بارے میں زیادہ ہے۔‘

ان کا ماننا ہے کہ دباؤ کے حالات میں پرسکون رہنے کی صلاحیت خواتین شوٹرز کے لیے خاص طور پر مفید ثابت ہو سکتی ہے۔

اولمپکس میں مردوں کے 25 میٹر کے فاصلے کی نشانے بازی میں تسلسل کے ساتھ فائر کرنا ہوتا ہے جو خواتین کے مقابلوں سے مختلف ہوتا ہے۔

2020 کے ٹوکیو اولمپکس میں نشانہ بازی کے مقابلوں کے مطالعے سے پتا چلا ہے کہ مردوں نے حرکت میں رہنے والے اہداف کے مقابلوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تاہم ساکت اہداف کے نشانہ لینے میں مرد و خواتین دونوں کی کارکردگی متوازن تھی۔

آئی ایس ایس ایف ایتھلیٹس کمیٹی کے چیئرمین کیسیو رپل کا کہنا ہے کہ جہاں مردوں کے جسم میں موجود پٹھے انھیں زیادہ قوت برداشت اور برداشت فراہم کرتے ہیں، وہیں خواتین کے جسم کا نچلا حصہ انھیں متوازن رکھنے میں بہتر مدد فراہم کرتا ہے۔

کھیلوں کے مقابلے میں نشانہ بازی مجموعی طور پر خواتین کی شمولیت کے لحاظ سے سب سے بہترین جانا جاتا رہا ہے۔

1992 میں ہونے والے بارسلونا اولمپکس میں چین کے شاٹ گن شوٹر ژانگ شان نے مکس سیکس سکیٹ شوٹنگ ایونٹ میں طلائی تمغہ جیتا تھا۔

اس کے باوجود کھیلوں میں خواتین کے لیے یہ کوئی سیدھی سادی فتح نہیں تھی۔

ان اولمپکس میں خواتین کو مخلوط مقابلوں میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا - پھر بھی صرف خواتین کے لیے کوئی ورژن نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیے

کھیل میں اعصاب کی جنگ

جنوبی کوریا کی ایتھلیٹ کم بیجی ایک بہت ہی مختلف کھیل کی نامور کھلاڑی ہیں۔ وہ کھیل کے دوران حواس اور اعصاب کو برقرار رکھنے کی اہمیت کے بارے میں ڈین سے متفق ہیں۔

وہ پیرس اولمپکس میں شوٹنگ کے مقابلوں میں حصہ لے رہی ہیں۔

انھوں نے اس سال کے شروع میں انٹرنیشنل شوٹنگ سپورٹ فیڈریشن (ISSF) ورلڈ کپ میں خواتین کے 25 میٹر رینج کی پسٹل شوٹنگ کا عالمی ریکارڈ قائم کر کے اپنی ساتھی یانگ جن کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔

کم کا کہنا ہے کہ ’مجھے یقین ہے کہ نشانے بازی جسمانی سے زیادہ اعصاب کا کھیل ہے۔ میرے خیال میں یہ دماغ اور روح کے بارے میں زیادہ ہے۔‘

ان کا ماننا ہے کہ دباؤ کے حالات میں پرسکون رہنے کی صلاحیت خواتین شوٹرز کے لیے خاص طور پر مفید ثابت ہو سکتی ہے۔

اولمپکس میں مردوں کے 25 میٹر کے فاصلے کی نشانے بازی میں تسلسل کے ساتھ فائر کرنا ہوتا ہے جو خواتین کے مقابلوں سے مختلف ہوتا ہے۔

2020 کے ٹوکیو اولمپکس میں نشانہ بازی کے مقابلوں کے مطالعے سے پتا چلا ہے کہ مردوں نے حرکت میں رہنے والے اہداف کے مقابلوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تاہم ساکت اہداف کا نشانہ لینے میں مرد و خواتین دونوں کی کارکردگی متوازن تھی۔

آئی ایس ایس ایف ایتھلیٹس کمیٹی کے چیئرمین کیسیو رپل کا کہنا ہے کہ جہاں مردوں کے جسم میں موجود پٹھے انھیں زیادہ قوت برداشت اور برداشت فراہم کرتے ہیں، وہیں خواتین کے جسم کا نچلا حصہ انھیں متوازن رکھنے میں بہتر مدد فراہم کرتا ہے۔

کھیلوں کے مقابلے میں نشانہ بازی مجموعی طور پر خواتین کی شمولیت کے لحاظ سے سب سے بہترین جانا جاتا رہا ہے۔

1992 میں ہونے والے بارسلونا اولمپکس میں چین کے شاٹ گن شوٹر ژانگ شان نے مکس سیکس سکیٹ شوٹنگ ایونٹ میں طلائی تمغہ جیتا تھا۔

اس کے باوجود کھیلوں میں خواتین کے لیے یہ کوئی آسان فتح نہیں تھی۔

ان اولمپکس میں خواتین کو مخلوط مقابلوں میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا۔ اس کھیل میں حصہ لینے سے متعلق خواتین کا کوئی الگ ورژن نہیں ہے۔

’خواتین کھلاڑیوں پر مزید تحقیق بہت فائدہ مند ہو گی‘

پیرس اولمپکس میں پہلی بار خواتین اور مرد کھلاڑیوں کی تعداد برابر ہے۔ یہ بات اس بات کا جائزہ لینے کا بھی ایک موقع ہے کہ اس حوالے سے مزید خلا ابھی کہاں موجود ہے۔

اگرچہ جنس کی بنیاد پر کارکردگی سے متعلق معلومات پر ابہام ہوسکتا ہے تاہم سینڈبک کے مطابق یہ واضح ہے کہ خواتین کی شمولیت کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

کھیلوں کے سائنس دان تربیت، فزیالوجی، آلات اور لباس کے حوالے سے جو کچھ جانتے ہیں ان میں سے زیادہ تر مردوں کی تحقیق پر مبنی ہے۔ سینڈبک کہتی ہیں ’اگر آپ مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق کو مزید کم کرنا چاہتے ہیں، تو میرے خیال میں عام طور پر خواتین پر مزید تحقیق بہت فائدہ مند ہو گی۔‘

صنفی امتیاز سے ہٹ کر بھی کھلاڑیوں پر کم ہی تحقیق موجود ہے۔

مرٹینز مردوں سے موازنہ کیے بغیر خواتین کے کھیلوں میں کامیابیوں کا خاص جشن منانے کی اہمیت پر زور دیتی ہیں۔

انھوں نے بعض اتھلیٹک مقابلوں میں جنس کی تفریق کو الگ رکھنے کی ضرورت پر بھی بات کی ہے۔

تاہم ان کے مطابق خواتین جو بعض اوقات کھیلوں میں مردوں کو شکست دیتی ہیں اور یہ کے لیے یہ سمجھنے میں معاون ہے کہ ہماری کارکردگی جانچنے کا ایک پیمانہ موجود ہے۔

تاہم وہ کہتی ہیں کہ جب ہم کھیلوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں تو ہمیں ان دونوں پہلوؤں میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے، اور امید ہے کہ یہ صنفی تنوع کو اپنانے کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.