گوشت، زیتون اور شہد سمیت وہ غذائیں جن میں دنیا میں سب سے زیادہ ملاوٹ کی جاتی ہے

امریکی فوڈ ریگولیٹری ایجنسی کا اندازہ ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے والی تمام خوراک کا ایک فیصد کسی نہ کسی قسم کے دھوکہ دہی یا جعل سازی کا شکار ہے جس کے نتیجے میں ہر سال تقریباً 40 ارب امریکی ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
غذائیں
Getty Images

ہمارے کھانوں اور ان میں ملاوٹ کے بارے میں ماہرین کی تشویش میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

ایف ڈی اے (امریکی فوڈ ریگولیٹری ایجنسی) کا اندازہ ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے والی تمام خوراک کے ایک فیصد حصے میں کسی نہ کسی قسم کی دھوکہ دہی یا جعل سازی شامل ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں ہر سال تقریباً 40 ارب امریکی ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔

یہ مصنوعات عوامی صحت کے لیے بھی بڑا خطرہ ہیں لیکن کون سی غذائیں اس دھوکہ دہی کا سب سے زیادہ شکار ہیں؟

پروڈکشن چین سرٹیفکیشن کے ماہرین کی طرف سے سنہ 2024 میں شائع ہونے والے ایک سروے میں اس موضوع پر 15 ہزار سے زیادہ عوامی ریکارڈ کا تجزیہ کیا گیا جس کی نشاندہی 1980 اور 2022 کے درمیان کی گئی تھی۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں 10 سب سے زیادہ ملاوٹ والی غذائیں یہ ہیں:

  • گائے کا دودھ
  • ایکسٹرا ورجن زیتون کا تیل
  • شہد
  • گائے کا گوشت
  • مرچ پاؤڈر
  • معیار کی وضاحت کے بغیر زیتون کا تیل
  • ہلدی پاؤڈر
  • پاؤڈر(خشک) دودھ
  • ووڈکا
  • گھی

سروے میں مجموعی طور پر 20 غذائیں سامنے آئی تھیں۔ ان میں نارنجی کا جوس، بکری کا دودھ، شراب، مرغی کا گوشت، گائے کے گوشت کا قیمہ، وہسکی، دیگر الکحول مشروبات، زعفران، ورجن زیتون کا تیل اور تل کا تیل شامل ہیں۔

امریکی کمپنیوں کی فوڈ چین آئی ڈی، ہنری چن اینڈ ایسوسی ایٹس اور مور فوڈ ٹیک اور برازیل کی وزارت زراعت و لائیو سٹاک (ایم اے پی اے) کے محققین کی جانب سے مرتب کردہ نتائج مارچ 2024 میں سائنسی جریدے جرنل آف فوڈ پروٹیکشن میں شائع ہوئے تھے۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ملاوٹ کے 46 فیصد واقعات ان مصنوعات کا استعمال کرنے والوں کی صحت کے لیے کچھ ممکنہ خطرات کا سبب بنتے ہیں۔

انڈیا، چین، امریکہ، اٹلی اور برطانیہ ایسے ممالک ہیں جہاں دھوکہ دہی کے سب سے زیادہ واقعات سامنے آئے ہیں۔

غذائیں
Getty Images

خوراک کی دھوکہ دہی کیا ہے؟

یونیورسٹی آف ساؤ پاؤلو میں فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر اور محقق ایلین سلوا میلو سیزر کہتے ہیں کہ دھوکہ دہی ’کھانے پینے کی اشیا میں ایک شخص یا صنعت کی طرف سے ملاوٹ یا دھوکہ ایک ایسا عمل ہے جس کا بنیادی مقصد معاشی فائدہ ہے۔‘

یہ ملاوٹ بعض مصنوعات میں کمی یا ترمیم کرتی ہے تاکہ ان کی تیاری یا فروخت کرنے والوں کے منافع میں اضافہ ہو سکے۔

سب سے زیادہ نشانہ بننے والے کھانے وہ ہوتے ہیں جن کی اضافی قیمت زیادہ ہوتی ہے جیسے شہد، زیتون کا تیل اور گائے کا گوشت۔

ان معاملات میں دھوکہ بازشہد میں کارن سیرپ،دیگر قسم کے سبزیوں کے تیل کو زیتون کے تیل میں یا مختلف اقسام کے گوشت جیسے سور کا گوشت اور پولٹری گائے کے گوشت میں شامل کر سکتے ہیں۔

سیزر بتاتے ہیں کہ ’سب سے عام دھوکہ دہی جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں وہ ملاوٹ ہے جس میں مینوفیکچرر اصل مواد کو پتلا کرنے کے لیے پانی اور نشاستہ شامل کرتا ہے تاکہ زیادہ پیداوار حاصل کرے۔ ظاہر ہے یہ معلومات لیبل یا پیکیجنگ پر نہیں دی جاتیں‘۔

دنیا میں سب سے زیادہ دھوکہ دہی والے کھانوں کا تجزیہ کرنے والے سائنسی مضمون میں مصنفین نے یہ بھی ذکر کیا:

  • کھانے کی رنگت اور ظاہری شکل کو تبدیل کرنے کے لیے مصنوعی اشیا کا استعمال مثال کے طور پر جھینگے کو بڑا دکھانے کے لیے اس پر جیل لگانا۔
  • کچھ جگہوں پر بائیوسائڈز (جیسے کیڑے مار ادویات اور اینٹی بائیوٹکس) کا استعمال
  • غذائی مواد سے متعلق غلط بیانی

جب لیبل کہتا ہے کہ اس میں مخصوص اجزا موجود ہیں لیکن اس میں جینیاتی طور پر ترمیم شدہ خوراک کی موجودگی کا ذکر نہیں ہوتا۔

مثال کے طور پر مصنوعات کے خالص ہونے کے بارے میں جھوٹلکھا ہوتا ہے یا صحت پر معجزانہ اثرات کا دعویٰ موجود ہوتا ہے۔

  • اس کھانے کے اصل مادوں اور خصوصیات کو ہٹانا جیسے کچھ مرچوں کے ذائقے کے مرکبات۔
  • مذکورہ بالا تمام تکنیکوں کا امتزاج۔

سیزر نے مزید کہا کہ چوری شدہ سامان کو فروخت کرنا بھی دھوکہ دہی کی ایک شکل ہے کیونکہ ایسا کرنے والا شخص اس سامان کو بیچنے کا مجاز نہیں۔

غذائیں
Getty Images

یہ بھی پڑھیے

خوراک میں ملاوٹ کے ممکنہ نقصانات

معاشی مسائل کے علاوہ ماہرین خوراک میں ان ملاوٹوں کےصحت پر عملی طور پر برے اثرات کے بارے میں بھی فکرمند ہیں۔

یونیورسٹی آف ساؤ کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ ’کھانے پینے کی اشیا میں دھوکہ دہی کے صحت پربہت سنگین نتائج ہوتے ہیں۔‘

آئیے ایک ایسے شخص کا تصور کرتے ہیں جسے گائے کے دودھ سے الرجی ہے اور وہ بکری کے دودھ سے تیار کردہ پنیر خریدتا ہے لیکن یہ گائے کے اجزا کے ساتھ بنایا گیا ہو تو یہ شدید الرجی کا سبب بن سکتا ہے جو اس کی موت کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔.

ایسا ہی اس خوراک کے ساتھ بھی ہوتا ہے جو گلوٹین سے پاک ہونا چاہیے۔ اگر یہ مرکب ایسے شخص کی خوراک میں موجود ہو جسے گلوٹین سے الرجی ہے تو اس کی صحت پر انتہائی مضر یا سنگین نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔

سیزر 2008 میں چین میں پیش آنے والے ایک واقعے کی مثال دیتے ہیں جب پاؤڈر دودھ کے ایک برانڈ کے مینوفیکچررز نے مشروب میں پروٹین کی مقدار بڑھانے کے مقصد سے فارمولے میں میلامائین شامل کیا تھا۔

میلامائن ایک زہریلا مادہ ہے جو انسانوں کے لیے قابلِ استعمال نہیں بلکہ یہ پلاسٹک اور کھاد کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔ اس غیر قانونی عمل میں چھ بچے ہلاک اور تین شدید بیمار ہوگئے تھے۔

سیزر کہتے ہیں کہ ’ہمیں اخلاقی اور مذہبی مسائل کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے جیسے کچھ لوگ سؤر کا گوشت نہیں کھاتے کیونکہ وہ ایک خاص عقیدے کے پیروکار ہیں۔‘

مثال کے طور پر100 فیصد بیف برگرز کے دعوے میں بھی سور کے گوشت کی ملاوٹ کے واقعات سامنے آئے ہیں۔

سبزی پر مشتمل یا ویگن مصنوعات میں جانوروں کے اجزا کی شمولیت کی مثالیں بھی موجود ہیں یہاں تک کہ وہ بھی جو خالص ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کے پاس اس زرعی خاصیت میں کمال رکھنے کا کوئی سرٹیفکیٹ نہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ ’ان صارفین کو دھوکہ دیا جا رہا ہے اور اس سے ان کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔‘

غذائیں
Getty Images

فوڈ فراڈ کی شناخت کیسے کریں؟

زیادہ تر خوراک کی اشیا کے بنانے کے دوران غیر قانونی تبدیلیاں اس ہوشیاری کے ساتھ ہوتی ہیں کہ حتمی مصنوعات کی ظاہری شکل میں کچھ بھی مختلف دیکھنا تقریبا ناممکن ہے۔

لہٰذا یہ جانچنے کے لیے ذمہ دار سائنسدانوں اور اداروں پر بھروسہ کیا جانا چاہیے تاہم سیزر تسلیم کرتے ہیں کہ ایجنسیاں اور محققین اکثر خود کھانے کی جعل سازی کافوری پتہ چلانے میںپیچھے رہ جاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہر روز ایک نیا فراڈ ہوتا ہے یا ان مسائل کا پتہ لگانے کے لیے ہمارے پاس موجود تجزیاتی طریقوں کو نظر انداز کرنے کا کوئی طریقہ ہوتا ہے۔ ‘

لیکن محقق کا خیال ہے کہ دھوکہ بازوں کے لیے اس فائدے کو کم کرنے کے لیے نئی ٹیکنالوجیز کا استعمال ممکن ہے۔

جیسے جیسے سائنس ترقی کرتی ہے تو آگاہی کے نئے در کھلتے جاتے ہیں تاہم کچھ بنیادی تجاویز ہیں جن پر ہر صارف دھوکہ دہی سے بچنے کے لیے عمل کر سکتا ہے۔

سیزر کا کہنا ہے کہ ’ان میں سے پہلا یہ ہے کہ ان کی قیمتیں مارکیٹ سے بہتکم ہوتی ہیں۔

مثال کے طور پر اگر آپ جانتے ہیں کہ 500 ملی لیٹر ایکسٹرا ورجن زیتون کے تیل کی قیمت سات سے نو امریکی ڈالر کے درمیان ہے، تو آپ کو ایسی تشہیروں سے محتاط رہنا چاہیے جو اسی مصنوعات کو 3.50 امریکی ڈالر میں فروخت کریں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’ان میں سے بہت سے کھانوں کے لیبل پر معائنے یا کنٹرول سٹیمپ کو بھی دیکھنا ضروری ہے۔‘

اور اگر کوئی شخص کسی خاص کھانے کو خریدنے کا عادی ہے اوروہ اس کے ذائقے، ساخت، خوشبو یا دیگر پہلوؤں میں نمایاں تبدیلی محسوس کرتا ہے تو اسے کمپنی کی کسٹمر سروس یا سرکاری صحت ایجنسی سے رابطہ کرناچاہیے۔

سیزر کے مطابق ’سرکاری اداروں کے ساتھ اس قسم کی بات چیت ایسے فراڈ کا پتہ لگانے میں بہت مدد دیتی ہے، جو عموماً شک کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.