ڈاکٹر شاہنواز: عمر کوٹ میں توہینِ مذہب کے ملزم کو جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا، وزیرِ داخلہ سندھ

پاکستان کے صوبہ سندھ کے وزیرِ داخلہ ضیا لنجار نے کہا ہے کہ عمر کوٹ میں توہینِ مذہب کے الزام کا سامنا کرنے والے مقامی ڈاکٹر شاہنواز کنبہار کو جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا تھا۔

پاکستان کے صوبہ سندھ کے وزیرِ داخلہ ضیا لنجار نے کہا ہے کہ عمر کوٹ میں توہینِ مذہب کے الزام کا سامنا کرنے والے مقامی ڈاکٹر شاہنواز کنبہار کو جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا تھا۔

جمعرات کو کراچی میں ایک پریس کانفرنس میں ضیا لنجار کا کہنا تھا کہ جعلی پولیس مقابلے میں ملوث اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ عمر کوٹ میں ہونے والے واقعے کی تحقیقات میں سی سی ٹی وی سے مدد لی گئی اور لواحقین جسے ذمہ دار قرار دیں گے، اس کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے گا۔

شاہنواز کنبہار کے خلاف 17 ستمبر کو توہین مذہب کا ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا لیکن ان کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی تھی تاہم 18 اور 19 ستمبر کی درمیانی شب ان کی ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کی خبر سامنے آئی تھی۔

بعدازاں شاہنواز کی لاش کو مشتعل افراد نے نذرِ آتش بھی کیا تھا جس پر شدید ردعمل سامنے آیا اور اس سلسلے میں بھی متعدد افراد کو حراست میں لیا گیا۔

وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے کہا ہے کہ ’تحقیق، چھان بین اور تفتیش کو غیرجانبدار بناتے ہوئے ہر ممکن قانونی کارروائی کو یقینی بنایا جائے۔‘

شاہنواز کی ہلاکت کے بعد ان کے اہلخانہ نے الزام عائد کیا تھا کہ انھیں ایک جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا جس پر ایک ہفتہ قبل وزیر داخلہ سندھ نے آئی جی کو غیرجانبدارانہ تحقیقات کے احکامات جاری کیے تھے۔

ایس ایس پی میرپور خاص اسد چوہدری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ جس مقابلے میں شاہنوازمارے گئے وہ سندھڑی کے مقام پر ہوا اور فائرنگ کے تبادلے کے دوران ملزم ہلاک ہوا۔

ان کے بقول ’اس وقت وہاں پولیس موبائل گشت کر رہی تھی، جب شاہنواز کنبہار نے پولیس کو دیکھتے ہی فائرنگ شروع کر دی تاہم اس دوران وہ اپنے ساتھی کی گولی لگنے سے ان کی ہلاکت ہوئی۔‘

دوسری جانب شاہنواز کے قریبی رشتہ داروں کا دعویٰ تھا کہ ’خاندان والوں نے خود رضاکارانہ طور پر ڈاکٹر شاہنواز کو کراچی میں پولیس کے حوالے کیا اور کہا کہ سکیورٹی اب پولیس کی ذمہ داری ہے لیکن اس کے باوجود شاہنواز کو جعلی مقابلے میں ہلاک کیا گیا۔‘

انھوں نے دعوی کیا تھا کہ ’شاہنواز کے والد پولیس حراست میں تھے اور ان کی رہائی بیٹے کی گرفتاری سے مشروط کی گئی تھی۔‘

تاہم ایس ایچ او سندھڑی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ایسا نہیں کہ ڈاکٹر شاہنواز کو حراست میں لینے کے بعد ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ’ان کے علاقے میں ڈکیتی کی وارداتیں ہوتی ہیں اسی لیے وہ وہاں چیکنگ کے لیے موجود تھے۔‘

’لوگوں کو اکسانے والے مولوی نے ہی شاہنواز کو قرآن پڑھایا تھا‘

’لوگوں کو جو مولوی اکسا رہا تھا اس کے پاس ڈاکٹر شاہنواز نے قرآن پڑھنا سیکھا تھا۔ اس کو شاہنواز کی ذہنی صحت کے بارے میں بھی علم تھا لیکن وہ باز نہیں آیا۔‘

یہ ڈاکٹر شاہنواز کی ایک قریبی رشتہ دار کے الفاظ ہیں جنھوں نے بی بی سی سے ڈاکٹر شاہنواز کی موت اور انھیں دفنانے کی تگ و دو کے دوران پیش آنے والے واقعات سے متعلق بات کی۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’وکیل کی مشاورت سے ڈاکٹر شاہنواز کی گرفتاری پیش کی گئی تھی اور رات کو ہم کھانا کھا کر بے فکر ہو کر سو گئے تھے کہ پولیس کے ہاتھوں میں وہ محفوظ ہے۔‘

’رات کو میڈیا پر خبریں آئیں کہ اس کو مار دیا گیا۔ ہمارے ساتھ اتنا بڑا ظلم اور دھوکہ کیا گیا۔‘

صوبہ سندھ کے شہرعمرکوٹ میں توہینِ مذہب کے مقدمے کا سامنا کرنے والے مقامی ہسپتال کے ڈاکٹر شاہنواز کنبہار کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد ان کے لواحقین نے ان کی تدفین کی کوشش کی تاہم مشتعل مظاہرین نے ان کی لاش کو نذرِ آتش کر دیا تھا۔

ان کی ہلاکت سے قبل 17 اور 18 ستمبر کو عمر کوٹ میں توہینِ مذہب کے مبینہ واقعے کے خلاف مذہبی جماعتوں کی جانب سے پرتشدد احتجاج بھی ہوا تھا۔

ڈاکٹر شاہنواز کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ مقامی مسجد کے خطیب کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا جنھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ملزم نے سوشل میڈیا پر پیغمبر اسلام کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی اور اُن کی شان میں گستاخی کی۔

ڈاکٹر شاہنواز عمرکوٹ کے سول ہسپتال میں ملازم تھے اور ایف آئی آر درج ہونے کے بعد ہسپتال کے ایم ایس نے انھیں ملازمت سے فارغ کر دیا تھا۔

شاہنواز کے رشتہ دار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’ڈاکٹر شاہنواز ذہنی مریض تھے اور ان کا آغا خان میں علاج بھی جاری تھا۔ وہ ڈپریشن اور ہائپرٹینش کی ادویات لیتے تھے‘۔

مبینہ پولیس مقابلے سے متعلق کھڑے ہونے والے تنازعے کے بعد ڈی آئی جی میرپور خاص جاوید جسکانی اور ایس ایس پی اسد چوہدری کی معطلی کے نوٹیفیکیشن جاری کر دیے گئے ہیں۔

اس سے قبل ڈی آئی جیز پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے مبینہ پولیس مقابلے کی تحقیقات کرنی ہیں۔

حکومتِ سندھ کے زیر انتظام سندھ ہیومن رائٹس کمیشن نے بھی اپنی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔

کمیشن کے چیئرمین اقبال ڈیتھو نے عمر کوٹ میں متاثرہ خاندان، ایس ایس پی، ڈی سی اور سول سوسائٹی کے بیانات لیے جبکہ ممبر جوڈیشل جسٹس ریٹائرڈ ارشد نور نے ایس ایس پی میرپور خاص اور ایس ایچ او سمیت دیگر کے بیان قلمبند کیے اور مبینہ جائے وقوعہ کا معائنہ کیا۔

اقبال ڈیتھو نے بتایا کہ وہ اپنی رپورٹس اور سفارشات چیف سیکریٹری کو دیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

’خواتین ننگے سر اور پاؤں لاش لینے کے لیے دوڑتی رہیں‘

مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے ڈاکٹر شاہنواز کی کزن نے بی بی سی سے بات کی اور بتایا کہ کس طرح ان کے گھر کی خواتین گھنٹوں میت کا چہرہ دیکھنے کے لیے تگ و دو کرتی رہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہم خواتین بے پردہ گھر کی چار دیواری سے کبھی نہیں نکلیں لیکن لاش لینے لیکن آخری بار میت کا چہرہ دیکھنے کے لیے صحرا میں ننگے سر اور ننگے پاؤں دوڑتی رہیں۔‘

ڈاکٹر شاہنواز کی کزن نے بتایا کہ انھیں پتہ چلا کہ لاش کو گاؤں کے اندر نہیں آنے دیا جا رہا، تو وہ اور گھر کی دیگر خواتین بنا چپلیں پہنے اور ننگے سر وہاں دوڑیں۔

’پہلے ہم گاؤں کے وڈیرے کے گھر گئیں تاکہ ان کی مدد لے سکیں لیکن انھوں نے دورازے نہیں کھولے، اس کے بعد مساجد کے خطیبوں کے گھروں پر گئے انھوں نے بھی دروازے نہیں کھولے۔ اس کے بعد ہم ایمبولینس کی طرف گئے لیکن ہمارے ماموں کار میں لاش لے گئے اور ہم واپس آ گئے۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’جب وہ گھر واپس آئے تو انھیں پتہ چلا کہ لاش کی بے حرمتی کر رہے ہیں اس کے بعد خواتین دوبارہ اس طرف زمین کی طرف دوڑیں جہاں لاش لے کر گئے تھے۔‘

’خاندان والے ابھی راستے میں تھے تو لوگ وہاں بھی پہنچ چکے تھے، جن کے پاس اسلحہ، پیٹرول، کلہاڑیاں تھیں اور وہاں انھوں نے لاش جلا دی تھی۔ اس دوران ہم جلتی لاش کے شعلے دیکھ رہے تھے اور آس پاس کھڑے لوگ نعرے لگا رہے تھے۔‘

’ماموں نے پانی ڈال کر آگ بجھائی اور وہ ہاتھوں میں لاش لے کر کبھی اس طرف جا رہے تھے، کبھی اس طرف۔ ہمیں چہرہ بھی نہیں دیکھنے دیا گیا۔ ہم کزنز اور دیگر خواتین روتے پیٹتے واپس آ گئیں۔‘

لاش دفنانے پر تنازع کیوں بنا؟

ڈاکٹر شاہنواز کے ایک قریبی رشتہ دار نے گذشتہ روز بی بی سی کو بتایا تھا کہ جب انھیں کسی مقامی قبرستان میں ڈاکٹر شاہنواز کی تدفین کی اجازت نہیں ملی تو انھوں نے لاش کو اپنی ملکیتی زمین پر دفنانے کا فیصلہ کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’صبح چار بجے کے قریب شاہنواز کے والد ایمبولینس میں لاش لے کر آئے لیکن مشتعل لوگوں نے ایمبولینس کو گاؤں میں آنے نہیں دیا۔ جس کے بعد ایمبولینس ڈرائیور نے لاش اتارنے کو کہا۔ ہم نے لاش ایک کار میں ڈالی جس کی کھڑکی سے اُس کے پاؤں بھی باہر تھے۔

ان کے مطابق ورثا میت کو تدفین کے لیے جہانرو لے گئے جو عمرکوٹ سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے لیکن مذہبی جماعتوں کے کارکن اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد وہاں بھی پہنچ گئی۔

کسی قبرستان میں تدفین کی اجازت نہیں دی گئی تو ہم میت کو صحرائی علاقے میں اپنی زمین پر لے گئے جہاں تدفین کی کوشش کی لیکن وہاں بھی مشتعل لوگ آ گئے اور دھمکیاں دیں۔ لوگوں نے لاش چھین کر اس کو آگ لگا دی جس سے وہ پچاس فیصد جھلس گئی۔‘

ایس ایس پی عمرکوٹ آصف رضا بلوچ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’لاش پولیس تحویل میں تھی اور علاقے میں صورتحال خراب تھی جس وجہ سے شاہنواز کی تدفین ان کی خاندانی زمین پر کی گئی۔‘

ان کا دعویٰ تھا کہ ’اگر قبرستان میں تدفین ہوتی تو اس بات کا قوی امکان تھا کہ بعد میں لاش کو نکال کر اس کی بےحرمتی کی جاتی۔‘

عمر کوٹ کی ضلعی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ افسر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ڈاکٹر شاہنواز کی لاش کو نذرِ آتش کیا گیا تاہم ایس ایس پی عمر کوٹ کا دعویٰ ہے کہ سوشل میڈیا پر موجود اس واقعے کی ویڈیوز ایڈٹ کی گئی ہیں اور تدفین پولیس کی موجودگی میں کر دی گئی تھی۔

ڈاکٹر شاہنواز کے رشتہ دار کے مطابق پولیس مشتعل ہجوم کی جانب سے لاش کو آگ لگانے کے بعد بہت دیر سے آئی اور پولیس کے آنے کے بعد ہی ان کے خاندان کے لوگ جمع ہوئے اور تدفین کی گئی۔

سندھ
Getty Images

ڈاکٹر شاہنواز پر توہین مذہب کا الزام کیوں لگا؟

ڈاکٹر شاہنواز کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ مقامی مسجد کے خطیب کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا جنھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ملزم نے سوشل میڈیا پر پیغمبر اسلام کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی اور اُن کی شان میں گستاخی کی۔

ڈاکٹر شاہنواز عمرکوٹ کے سول ہسپتال میں ملازم تھے اور ایف آئی آر درج ہونے کے بعد ہسپتال کے ایم ایس نے انھیں ملازمت سے فارغ کر دیا تھا۔

مقدمے کے اندراج کے بعد سوشل میڈیا پر ڈاکٹر شاہنواز کا ایک ویڈیو بیان بھی سامنے آیا تھا جس میں انھوں نے کہا کہ مذکورہ فیس بک آئی ڈی بہت پرانی ہے، جو وہ اب استعمال نہیں کرتے۔

انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ’انھوں نے تو فیس بک استعمال کرنی ہی چھوڑ دی تھی۔‘

انھوں نے اپنے پیغام میں لوگوں سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ ’پولیس، ایف آئی اے یا رینجرز کو اپنا کام کرنے دیں، ہر چیز واضح ہوجائے گی۔‘

جس روز ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا اس روز پیغمبرِ اسلام کی ولادت کا دن تھا اور اس سلسلے میں عمرکوٹ میں نکالے جانے والے جلوس نے ڈاکٹر شاہنواز کے خلافپرتشدد احتجاج کی شکل اختیار کر لی تھی اور مشتعل ہجوم نے اس دوران ایک پولیس موبائل کو بھی نذرِ آتش کر دیا تھا۔

ڈاکٹر شاہنواز ’ذہنی مریض‘ تھے

شاہنواز کے رشتہ دار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’ڈاکٹر شاہنواز ذہنی مریض تھے اور ان کا آغا خان میں علاج بھی جاری تھا۔ وہ ڈپریشن اور ہائپرٹینش کی ادویات لیتے تھے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ دنوں ان کا سڑک پر حادثہ ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے انھوں نے اپنی ادویات بند کر دیں۔ ادویات بند ہونے کی وجہ سے وہ ہائپر (جلدی غصے میں آ جانا) ہو جاتے اور گھر سے نکل جاتے تھے۔‘

انھوں نے بی بی سی کے ساتھ شاہنواز کا میڈیکل ریکارڈ بھی شیئر کیا جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ زیرِ علاج تھے۔

ایچ آر سی پی کی مذمت

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انھیں توہین مذہب کے الزام میں کوئٹہ اور عمرکوٹ میں دو افراد کے ’ماروائے عدالت قتل‘ پر گہری تشویش ہے۔

جمعے کو جاری ایک بیان میں ایچ آر سی پی کا کہنا تھا کہ توہینِ مذہب کے الزام میں تشدد اور اس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مبینہ طور پر ملوث ہونا ایک پریشان کُن رجحان ہے۔

ایچ آر سی پی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان واقعات کی آزادانہ تحقیقات کروائیں اور عمرکوٹ میں ڈاکٹر کی موت کے ذمہ داران کو کیفرِ کردار تک پہنچائیں۔

انسانی حقوق کمیشن نے مزید کہا ہے کہ ریاست کو بڑھتی ہوئی شدت پسندی کو روکنے کے لیے اقدامات لینے چاہییں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.