پاکستانی اداکار عدنان شاہ ٹیپو کو اس بات پر اعتراض ہے کہ پاکستانی فلموں اور ڈراموں میں اداکاری کی صلاحیت سے زیادہ ’ظاہری فیچرز کو ترجیح دی جاتی ہے۔‘
اداکار عدنان شاہ ٹیپو کا شکوہ ہے کہ پاکستانی فلموں اور ڈراموں میں کسی فنکار کی اداکاری کی صلاحیت سے زیادہ اس کی شکل و صورت کو ترجیح دی جاتی ہے۔
20 سال سے زیادہ عرصے سے پاکستانی ڈراموں میں اپنی منفرد اداکاری کے جوہر دکھانے والے ٹیپو آج کل دو پاکستانی ڈرامہ سیریلز میں نظر آ رہے ہیں اور دونوں میں ہی وہ ایک ’مولوی‘ کا کردار نبھا رہے ہیں۔
مگر یہ دونوں کردار ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔
بی بی سی کو دیے انٹرویو میں ٹیپو بتاتے ہیں کہ ڈرامہ ’من جوگی‘ کا مولوی کافی ’سپریسڈ‘ ہے جبکہ ’زرد پتوں کا بن‘ میں وہ ایک ’لبرل مولوی‘ ہیں جو ’عورتوں کی تعلیم کے حق میں ہے۔‘
ٹیپو اِن ’ورسٹائل‘ اداکاروں میں شمار ہوتے ہیں جنھیں الگ الگ رولز کو حقیقت کے قریب لے جانے پر کافی داد ملتی ہے۔
’زرد پتوں کا بُن‘ میں فیملی پلاننگ جبکہ ’من جوگی‘ میں حلالہ کے موضوع پر بات کی گئی ہے۔ یہ دونوں موضوعات پاکستان کے روایت پسند معاشرے کے لیے سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔
مگر ٹیپو کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بعض اوقات اداکاری سے زیادہ کسی اداکار کے ظاہری فیچرز کو ترجیح دی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ساتھ والے ملک میں دیکھیں تو نواز الدین صدیقی پر فلمیں بن رہی ہوتی ہیں۔ یہاں پر اگر ایسی کوئی فلم بنے گی بھی تو اس کے لیے بھی آپ ایسے لوگوں کو سلیکٹ کریں گے جو اس خاکے میں فٹ ہی نہیں ہو رہے۔ پھر آپ اپنا بھی نقصان کریں گے اور اُن کا بھی۔‘
وہ پاکستانی ڈراموں اور فلموں کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’پوری دنیا میں کرداروں کو دیکھا جاتا ہے۔ ایکٹنگ سکلز کو دیکھا جاتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوتا۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ہم ذرا دوسری طرح کی فلمیں بناتے ہیں۔ جس طرح کی کہانیاں ہمارے یہاں چل رہی ہیں اس میں تو ہم اس طرح سے فٹ نہیں ہوتے۔ اس میں ہم لڑکی کا باپ، گلی کا غنڈا یا اِس قسم کے کردار نبھا کر اپنا کام پورا کر لیتے ہیں۔‘
’جب کرداروں پر فلمیں نہیں بنیں گی تو پھر ہمارے جیسے لوگوں کو کم موقع ملے گا۔‘
’اگر میری داڑھی ہے تو کیا صرف مُلّا کا کردار کر سکتا ہوں؟‘
ٹیپو نے سنہ 1998 میں اپنے ایکٹنگ کیریئر کا آغاز کیا۔ ان 26 برسوں میں ہم نے انھیں اکثر معاون کاسٹ یا سائیڈ رولز میں ہی دیکھا ہے، چاہے وہ رول سنجیدہ ہو یا مزاحیہ۔
اپنے حالیہ رولز کے بارے میں وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’بیک لیش کا ڈر تو ہوتا ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہم نے پاکستان کے سب سے بڑے مسائل پر کبھی بات ہی نہیں کی: جہالت اور غربت۔ آپ کچھ بول ہی نہیں سکتے۔ اگر ہم معاشرے کے ٹیبوز پر بات نہیں کریں گے تو وہ کیسے ٹھیک ہوں گے؟‘
جیسے ’زرد پتوں کا بُن‘ میں جب ڈرامے کی مین لیڈ سجل علی ٹیپو کے کردار سے سوال کرتی ہیں کہ ’زیادہ بچے پیدا کرنے کا ذمہ دار مرد ہے یا عورت؟‘ تو وہ جواب دیتا ہے ’سوال کرنے کی بجائے دعا کر۔‘
ٹیپو نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کوئی بھی کردار، چاہے وہ ایک صفحے کا ہو یا سو صفحوں کا، میرے لیے اس کا امپیکٹ (ناظرین پر اثر) معنی رکھتا ہے۔ اگر اس سے معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی آتی ہے تو اس میں کیا بُرائی ہے؟ میں نے بہت سارے ایسے کردار ٹھکرائے ہیں جن میں بہت زیادہ کام تھا لیکن اُن کا کوئی سینس نہیں بن رہا تھا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ وہ اچھے رولز کے لیے بہتر کپڑے پہنیں اور جم جائیں ’پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کیا دیکھ رہے ہیں؟‘
’آپ کو جو نظر آ رہا ہے اسی کی بنیاد پر جج کریں گے؟ اگر میں نے داڑھی رکھی ہوئی ہے تو میں کیا صرف مُلّا ہی کا کردار ادا کر سکتا ہوں؟ ملّا ہی داڑھی رکھتے ہیں؟ ابھی میں بالوں کو بلیو ڈائی کر لوں گا، اسی داڑھی کو سیٹ کر لوں گا، ہاتھ میں سگار لے لوں گا تو ڈان بن جاؤں گا۔‘
’اسی کے ساتھ میں چیک والی شرٹ پہن لوں گا، پینٹ پہن لوں گا، سائیڈ کی مانگ نکال لوں گا تو ایک اچھا شوہر بن جاؤں گا۔ سول سرونٹ لگوں گا۔‘
’آپ کا کام ہی آپ کو ہیرو یا زیرو بناتا ہے‘
سنہ 2001 میں نشر ہونے والے سِٹ کام ’سب سیٹ ہے‘ سے پذیرائی حاصل کرنے کے باوجود ٹیپو کو کافی چیلینجز کا سامنا کرنا پڑا۔
اپنے اوپر سے کامیڈی رولز کی چھاپ ہٹانے اور سنجیدہ کرداروں میں اپنا لوہا منوانے کے لیے انھوں نے کافی ’دھکے کھائے۔‘
وہ یاد کرتے ہیں کہ ’کیریئر کے شروع میں ہی پاکستان اور انڈیا کی جوائنٹ پروڈکشن ’خاموش پانی‘ پر مجھے بین الاقوامی نقادوں سے داد ملی تھی کہ میں سنجیدہ کام کر سکتا ہوں۔ البتہ مجھے ’سب سیٹ ہے‘ کے بعد 62 سِٹ کامز آفر ہوئے جو میں نے مسترد کر دیے۔‘
ٹیپو کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے ان اداکاروں میں سے ہیں جنھوں نے ہِٹ ہونے کے بعد سٹرگل کی ہے۔
’میں کامیڈی سے ہٹ ہوا تھا، پر اپنے اوپر اس کی چھاپ نہیں لگنے دینا چاہتا تھا۔ میں نے دو سال تک بھوک کاٹی۔ مجھے کام نہیں مل رہا تھا۔ میں سب کے پاس گیا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’چیزیں بدلی ہیں پر اتنی نہیں جتنی ہمسائے ملک میں یا پوری دنیا میں۔ جب مارکیٹنگ والے ڈامینینٹ کرنا شروع کر دیں کہ انھیں کیا چاہیے تو اس سے کام پر فرق پڑتا ہے۔‘
ٹیپو کو بہترین اداکار اور بہترین سپورٹنگ اداکار کی کیٹگری کے 51 مختلف ایوارڈز مل چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جو میرے پاس ہے، میں اسی میں خوش ہوں۔ جو نہیں ملا اس کے بارے میں سوچتا ہی نہیں۔‘
’اس سے آپ کو تکلیف ہوتی ہے۔ میں کیریکٹر ایکٹر ہوں۔ میں نے تو اپنے آپ کو ہمیشہ ہیرو ہی سمجھا، چاہے میں ولن تھا یا دو سینز کے لیے تھا۔‘
’مجھے لگتا ہے آپ کا کام ہی آپ کو ہیرو یا زیرو بناتا ہے۔‘