وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان اس وقت سنگین چیلنجز سے گزر رہا ہے، جہاں دہشت گردی کا خاتمہ، قومی یکجہتی، اور معیشت کی بحالی سب سے اہم مسائل ہیں۔
منگل کو نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ اگر دہشت گردی پر قابو نہ پایا گیا تو ترقی و خوشحالی کے خواب ادھورے رہ جائیں گے۔ اجلاس میں سویلین قیادت اور فوجی افسران کے ساتھ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی نے بھی شرکت کی۔
شہباز شریف نے کہا کہ ’ملکی ترقی اور سیاسی اتحاد دہشت گردی کے خاتمے سے مشروط ہیں۔‘
شہباز شریف نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت پورا پاکستان خوفزدہ ہے کہ نہ جانے کب ان کے بچے یا گھر والے کسی واقعے کا شکار ہو جائیں گے۔
’خاص طور پر بلوچستان میں حالات بدترین ہیں، جہاں بی این اے کی کارروائیاں درندگی کی عکاسی کرتی ہیں۔‘
وزیراعظم کہا کہ دنیا حیران تھی کہ پاکستان نے دہشت گردی پر قابو پا لیا ہے، لیکن آج یہی دنیا ہمارا مذاق اڑا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امن و امان کی بحالی اولین ترجیح ہے، جس کے بغیر معیشت اور دیگر مسائل حل نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دھرنوں اور مظاہروں کے رویے سے اجتناب کرنا ہوگا، کیونکہ یہ اقدامات ملکی ترقی کو متاثر کرتے ہیں۔
انہوں نے تمام سیاسی قوتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ترقی اور خوشحالی عزیز ہیں تو فیصلہ کریں کہ ہم دھرنے دیں یا ترقی کے مینار کھڑے کریں۔ ‘
وزیراعظم نے آئی ایم ایف کے پروگرام کے لیے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور چین کی مدد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان اقدامات کے نتیجے میں معیشت میں استحکام آ رہا ہے۔
’مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجٹ پر آ چکی ہے اور سٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ 22 فیصد سے کم ہو کر 15 فیصد پر آ گیا ہے۔‘
وزیراعظم نے ملک کی اشرافیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ غریب عوام نے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں، لیکن اب وقت ہے کہ اشرافیہ قوم کے لیے کچھ کرے۔
وزیراعظم نے نیشنل ایکشن پلان کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ 2014 میں تمام سیاسی اور مذہبی قیادت نے مل کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اقدامات کا آغاز کیا تھا، جس کے نتیجے میں 2018 تک دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہوا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بھی اسی اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ تمام ترقیاتی اقدامات امن و امان کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمے سے جڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس میں موجود تمام وفاقی وزرا، چاروں وزرائے اعلیٰ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی قیادت، اور مسلح افواج کے افسران کو متحد ہو کر کام کرنا ہوگا۔