انڈیا کے شہر بریلی میں ایک نامکمل پل سے گاڑی نیچے گرنے کے واقعے میں تین افراد کی ہلاکت کے بعد حکام اور گوگل میپ کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔
انڈیا کی ریاست اترپردیش کے شہر بریلی میں اتوار کو پیش آئے کار حادثے میں محکمہ تعمیرات عامہ کے چار افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ پولیس کو دی گئی شکایت میں گوگل میپس کے ریجنل منیجر کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
اتوار کی صبح کار میں سفر کر رہے تین نوجوانوں کی لاپرواہی کی وجہ سے موت ہو گئی تھی۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ نوجوان گوگل میپس کو استعمال کرتے ہوئے ایک پل پر چڑھے تھے۔ یہ پل ابھی مکمل طور پر تیار نہیں ہوا تھا کہ گاڑی تیز رفتاری کے باعث آگے جا کر نامکمل پل سے سیدھی نیچے گر گئی تھی۔
ادھر گوگل کے ترجمان نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات میں تعاون کریں گے۔
انتظامیہ کی جانب سے داتا گنج چھاویرام کے نائب تحصیلدار نے انڈین جسٹس کوڈ (بی این ایس) کی دفعہ 105 کے تحت قتل کا مقدمہ درج کیا ہے۔
دستیاب معلومات کے مطابق تین نوجوان; اجیت، نتن اور امیت کار سے بداون سے بریلی کے علاقے فرید پور جا رہے تھے۔ جب وہ رام گنگا ندی کے قریب پہنچے تو مبینہ طور پر گوگل میپ کا استعمال کرتے ہوئے ایک نامکمل پل پر چڑھ گئے اور ان کی گاڑی آگے بڑھتے ہوئے پل سے نیچے گر گئی اور تینوں کی موقع پر ہی موت ہو گئی۔
گوگل میپس کے خلاف شکایت درج
ایف آئی آر میں محکمہ تعمیرات عامہ کے دو اسسٹنٹ انجینئرز ابھیشیک کمار اور محمد عارف کے علاوہ دو جونیئر انجینئررز مہاراج سنگھ اور اجے گنگوار کو نامزد کیا گیا ہے۔
درج ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا ہے کہ ’محکمہ تعمیرات عامہ کے ان عہدیداروں نے جان بوجھ کر پل کے دونوں اطراف مضبوط بیریکیڈس، بیریئرز یا ریفلیکٹر بورڈ نہیں لگائے اور نہ ہی نامکمل سڑک یا زیر تعمیر پل کی اطلاع دینے والے بورڈز آویزاں کیے۔‘
رپورٹ کے مطابق ماضی میں اس پل پر حفاظت کے لیے ایک کمزور دیوار ہوا کرتی تھی جسے نامعلوم افراد نے توڑ دیا تھا۔ رپورٹ میں مزید دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’گوگل میپس میں بھی اس راستے پر کوئی رکاوٹ نظر نہیں آئی اور راستہ منزل تک ہموار دکھائی دے رہا ہے۔‘
داتا گنج کے نائب تحصیلدار نے اپنی ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ ’یہ واقعہ مذکورہ افراد کی سنگین غفلت کی وجہ سے پیش آیا ہے، لہٰذا محکمہ تعمیرات عامہ کے مذکورہ عہدیداروں سمیت گوگل میپس اور نامعلوم افراد کے خلاف متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی جاتی ہے۔‘
تاہم داتا گنج پولیس سٹیشن کے انچارج گورو ویشنوئی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’معاملہ زیر تفتیش ہے۔ اگر گوگل میپس کے ملازمین قصوروار ہیں تو انھیں بھی ملزم بنایا جائے گا۔ تاہم تا حال ایف آئی آر میں گوگل حکام کا نام نہیں لیا گیا ہے۔‘
گوگل کی جانب سے جواب میں کیا کہا گیا ہے؟
واقعے کے بارے میں بی بی سی کی جانب سے گوگل میپس کو ای میل بھیجی گئی تھی۔ ای میل کے جواب میں گوگل کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’ہمیں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ سے پوری ہمدردی ہے۔ ہم متعلقہ حکام کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور تحقیقات میں تعاون کر رہے ہیں۔‘
ہلاک ہونے والوں میں 30 سالہ نتن کمار اور ان کے کزن امیت کمار اور اجیت کمار شامل ہیں۔ نتن اور امیت فرخ آباد کے رہنے والے تھے جبکہ اجیت ان کے دور کا رشتہ دار تھے اور امین آباد سے تعلق رکھتے تھے۔
نتن اور اجیت گروگرام میں ڈرائیور کے طور پر کام کرتے تھے۔
یہ تینوں گروگرام سے نکلے تھے اور بداؤں کے علاقے داتا گنج سے رام گنگا پل پر چڑھے تھے۔
نتن کے ماموں راجیش کمار نے بتایا کہ نوجوان فرید پورمیں ان کے گھر شادی کے لیے آ رہے تھے۔ انھوں نے کہا ’یہ لوگ صحیح راستے پر سفر کرنے کے لیے موبائل فون پر نیوی گیشن کو فالو کر رہے تھے۔ جب یہ لوگ بریلی کے علاقے فرید پور میں کھالپور گاؤں کے نزدیک رام گنگا پُل پر پہنچے تو نیچے گر گئے۔‘
ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ شاید نیوی گیشن سسٹم نے بھی انھیں خبردار نہیں کیا کہ آگے رام گنگا پل ٹوٹا ہوا ہے۔
تاہم حادثے کے بعد جب مقامی لوگوں نے نیوی گیشن سسٹم کو چیک کیا تو اس میں بھی راستہ مکمل طور پر ہموار دکھائی دے رہا ہے۔
حادثہ کیسے ہوا، ذمہ دار کون؟
فرید پور کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس بریلی آشوتوش شیوم کا کہنا ہے کہ پل نامکمل تھا اور پل پر کوئی بورڈ یا بیریئر نہیں لگا ہوا جس کی وجہ سے تیز رفتار سے آنے والی ان نوجوانوں کی گاڑی نیچے دریا میں گر گئی۔ انھوں نے کہا کہ بظاہر یہی لگتا ہے کہ گاڑی اس پل سے گری ہے اور گاڑی میں سوار تینوں نوجوانوں کی موقع پر ہی موت ہوئی۔
تاہم خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق اس پل کا ایک حصہ سیلاب کی وجہ سے گر گیا تھا۔ اس کے بعد سے یہاں پر لوگوں کی نقل و حرکت بند ہو گئی۔
اس بارے میں مقامی لوگوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ جب سنہ 2022 میں دریا میں سیلاب آیا تو پل کا ایک حصہ بہہ گیا تھا۔
فرید پور کے ایس ڈی ایم گلاب سنگھ نے میڈیا کو بتایا کہ ’یہ پل یوپی سٹیٹ برج کارپوریشن کے زیر انتظام تعمیر کیا جا رہا تھا۔ بداؤں سے اس کی جانب آنے والی سڑک کھلی تھی اس لیے یہ حادثہ پیش آیا۔ ہم نے واقعہ کی تحقیقات کے احکامات دے دیے ہیں اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔‘
پولیس کے مطابق مقامی لوگوں نے پولیس کو صبح تقریباً 9:30 بجے حادثے کی اطلاع دی۔ تاہم بظاہر لگتا ہے کہ حادثہ صبح سویرے پیش آیا۔
موقع پر موجود مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پل پر کسی قسم کی رکاوٹیں موجود نہیں ہیں جبکہ صبح کے وقت دھند چھائی ہوئی تھی۔ یہ بھی حادثے کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔
تاہم بریلی کے پوسٹ مارٹم ہاؤس کے باہر ہلاک ہونے والوں کے رشتہ داروں نے انتظامیہ کو واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
نوجوانوں کے ایک رشتہ دار منوج کمار سنگھ کا کہنا ہے کہ اگر انتظامیہ نے پل پر رکاوٹیں نصب کی ہوئی ہوتیں تو یہ حادثہ پیش نہ آتا۔ منوج نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسا حادثہ کسی اور کے ساتھ نہ ہو اس لیے قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
تاہم فرید پور تھانے کے انچارج راہول سنگھ کا کہنا ہے کہ موقع پر موجود گاؤں والوں نے بتایا کہ جب نوجوانوں کے موبائل فون نکالے گئے تھے تو ان میں کوئی نیوی گیشن سسٹم آن تھا۔
’لیکن اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے کہ ہلاک ہونے والے نوجوانوں کے موبائل فون پر کون سی نیویگیشن ایپ چل رہی تھی۔‘
بداؤں ضلع مجسٹریٹ ندھی سریواستو نے کہا کہ اس واقعے کے بعد محکمہ تعمیرات عامہ اور برج کارپوریشن کو تمام سڑکوں اور پلوں کی جانچ کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
قانون کیا کہتا ہے؟
نیویگیشن سسٹمز کے حوالے سے قانون واضح نہیں ہے۔ پھر بھی لاپرواہی کا ذمہ دار عہدیداروں کو ٹھہرایا جا سکتا ہے کیونکہ زیر تعمیر پل پر رکاوٹیں کھڑی کرنا ان کا کام ہے۔
الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ سے تعلق رکھنے والی وکیل صائمہ خان کہتی ہیں کہ ’آئی ٹی ایکٹ کا سیکشن 79 گوگل میپس جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو ’ثالث‘ کا درجہ دیتا ہے۔‘
’اس شق کے تحت اگر کوئی پلیٹ فارم کسی تیسرے فریق کی طرف سے فراہم کردہ معلومات جیسے کہ سڑکیں، مقامات وغیرہ کو پھیلاتا ہے اور اس میں براہ راست کوئی دخل نہیں دیتا ہے تو اسے قانونی طور پر ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔‘
انھوں نے کہا ’تاہم اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ پلیٹ فارم میں غلط ڈیٹا تھا اور پھر بھی اسے درست نہیں کیا گیا تو پھر ’سیف ہاربر پروٹیکشن‘ اس پلیٹ فارم پر لاگو نہیں ہو سکتا۔‘
’سیف ہاربر پروٹیکشن‘ ایکٹ کے تحت ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو فریق ثالث یا صارفین کی جانب سے شیئر کی گئی غیر تصدیق شدہ معلومات بڑھانے کی ذمہ داری لینے سے محفوظ رکھتا ہے۔ کسی حادثے کی صورت میں ایپ کی ذمہ داری تب ہی ثابت ہو سکتی ہے اگر ان کی براہ راست غفلت کے ثبوت مل جائیں۔
اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھنؤ میں ہائی کورٹ کے وکیل ابھیشیک ڈکشٹ نے بتایا کہ ’اگر واقعہ پیش آنے سے پہلے کسی پلیٹ فارم کا استعمال کیا جائے اور اس پر موجود غلط معلومات کی وجہ سے کوئی افسوسناک واقعہ پیش آتا ہے تو قانونی طور پر کون ذمہ دار ہے، اس کا فیصلہ کرنا کافی پیچیدہ ہو سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’سڑکوں، انفارمیشن بورڈز اور انفراسٹرکچر کو محفوظ رکھنا مقامی انتظامیہ کا کام ہے۔ اگر کسی حادثے کی وجہ سڑکوں کی خراب حالت یا مناسب وارننگ کی کمی کا مسئلہ نمایاں ہوتا ہے تو انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔‘
ابھیشیک ڈکشٹ کہتے ہیں کہ ’بعض اوقات انتظامیہ نیوی گیشن کمپنیوں کے ساتھ مل کر عوامی انفراسٹرکچر کے بارے میں درست معلومات کو یقینی بنانے کے لیے کام کرتی ہے۔ اگر انتظامیہ اپ ڈیٹس شیئر نہیں کرتی تو یہ بھی حادثے کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔‘
تاہم ’اگر سڑک سفر کے قابل نہیں تھی اور انتظامیہ نے مسافروں کو خبردار کرنے کے لیے کوئی اشارہ نہیں دیا تو انھیں ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔‘
سوشل میڈیا پر ردعمل
ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا میں تقریباً 46 کروڑ لوگ سوشل میڈیا کا باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں۔ اربن موبلٹی کے مطابق تقریباً 45 فیصد موبائل صارفین سمارٹ فون استعمال کرتے ہیں۔
ان میں سے 26 فیصد لوگ راستہ تلاش کرنے کے لیے نیوی گیشن سسٹم کا استعمال کرتے ہیں۔
زیادہ تر لوگ شارٹ کٹس اور سفر کے لیے بہترین طریقہ، ٹریفک کی معلومات اور سفر کے اوقات تلاش کرنے کے لیے ان ایپس پر انحصار کرتے ہیں۔
دنیا میں نیوی گیشن ایپس کی کئی اقسام ہیں جن میں گوگل میپس، ایپل میپس، ویز، یاہو، سِجِک اور ٹوم ٹوم شامل ہیں۔
تاہم صارفین ان میں سے سب سے زیادہ گوگل میپس استعمال کرتے ہیں۔ گوگل میپش کی ایپ سفر میں پیش آنے والی مشکلات اور تبدیلیوں کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے۔ لیکن ایپ پردستیاب معلومات عوام کی جانب سے فراہم کی جاتی ہیں۔
حادثے کے بعد فیس بک کی ایک صارف لبنیٰ شاہ نے پوسٹ میں لکھا کہ یہ حکام کی غفلت کا نتیجہ ہے، ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟
اُن کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کامران صدیقی نے لکھا کہ ہر کوئی نیویگیشن کی بات کر رہا ہے لیکن حکام نے پُل کی داخلے پر کوئی رکاوٹ کیوں نہیں ڈالی؟
ساتھ ہی کشمیرا کولہ لکھتی ہیں ’کیا ایک کلومیٹر پہلے ڈائیورشن کا نشان نہیں ہونا چاہیے تھا؟ افسران اور ٹھیکیدار کیا کر رہے تھے؟‘