ڈی چوک تک جانے کے ’متنازع‘ فیصلے سے ’لاپتہ‘ قیادت کے مانسہرہ پہنچنے تک: حالیہ احتجاج سے تحریک انصاف نے کیا کھویا اور کیا پایا؟

وفاقی حکومت تین روز کی جدوجہد کے بعد پشاور سے اسلام آباد پہنچنے والے تحریک انصاف کے احتجاجی قافلے کو کامیابی سے منتشر کرنے میں کامیاب رہی ہے تاہم بہت سے سوالات ایسے ہیں جو جواب طلب ہیں۔ مبینہ طور پر مرکزی قائدین کی مرضی کے برخلاف بشری بی بی کا یہ فیصلہ کہ احتجاج ڈی چوک میں ہی کیا جائے، کتنا درست ثابت ہوا اور اس پورے معاملے میں تحریک انصاف نے بطور سیاسی جماعت کیا کھویا اور کیا پایا؟
تصویر
Getty Images

جیل میں قید پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کا مطالبہ لیے تحریک انصاف کے سینکڑوں کارکنوں پر مشتمل احتجاجی جلوس لگ بھگ تین روز کے بعد منگل کی دوپہر اسلام آباد پہنچا تھا اور قائدین کی جانب سے مطالبات کی منظوری تک وہاں دھرنے کا اعلان کیا گیا تاہم چند ہی گھنٹے بعد حکومت کی طرف سے کریک ڈاؤن کیے جانے پر یہ پورا مجمع اُسی رات منتشر ہو گیا۔

چند عینی شاہدین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ سکیورٹی اہلکاروں نے اس آپریشن کے دوران مظاہرین پر فائرنگ کی جس میں چند مظاہرین کی ہلاکتیں ہوئیں، تاہم اسلام آباد پولیس اور وفاقی وزرا ان دعوؤں کی تردید کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر عطا اللہ تارڑ کا کہنا ہے کہ ’نہ تو لاشیں گریں اور نہ ہی مذاکرات ہوئے، اور معاملہ حل ہو گیا۔۔۔‘

تاہم تحریک انصاف کے رہنماؤں کا بدستور الزام ہے کہ ’حکومت مرنے والوں کی تعداد کو چھپا رہی ہے اور ہسپتالوں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ درست معلومات جاری نہ کریں۔‘

دھرنے کے شرکا کے منتشر ہونے کے فوراً بعد حکومتی وزرا کا کہنا تھا کہ اس جلوس کی قیادت کرنے والے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی موقع سے ’فرار‘ ہو گئے ہیں جن کی تلاش جاری ہے۔

تاہم بدھ کی صبح معلوم ہوا کہ بشریٰ بی بی، علی امین گنڈاپور اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب مانسہرہ پہنچ چکے تھے اور کچھ ہی دیر میں پریس کانفرنس کریں گے۔ بدھ کی دوپہر جب علی امین گنڈاپور اور عمر ایوب پریس کانفرنس کے لیے آئے تو بشری بی بی اُن کے ہمراہ نہیں تھیں۔

بدھ کی رات نجی ٹی وی چینل ’اے آر وائی‘ کے اینکر محمد مالک کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے بشریٰ بی بی کی بہن مریم ریاض وٹو نے الزام عائد کیا کہ اُن کا اپنی بہن سے رابطہ نہیں ہو پا رہا اور یہ کہ وہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی ٹیم کے حبس بے جا میں ہیں۔ علی امین کی جانب سے اس الزام پر تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ’اُن کا دھرنا ایک تحریک ہے اور اب بھی جاری ہے۔ یہ اس وقت ختم ہو گا جب عمران خان اس کا اعلان کریں گے۔‘

یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنان اور قائدین مختصر عرصے میں دوسری مرتبہ احتجاج کے لیے اسلام آباد آئے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد سے اس وقت تک واپس نہیں لوٹیں گے جب تک ’عمران خان کو رہا نہیں کیا جاتا، 26 ویں آئینی ترمیم واپس نہیں لی جاتی اور تحریک انصاف کا چھینا ہوا مینڈیٹ واپس نہیں کیا جاتا۔‘

ان میں سے کسی بھی مطالبے پر حکومت سے سنجیدگی سے بات ہونے سے پہلے ہی تحریک انصاف کا یہ قافلہ واپس گیا تاہم جاتے ہوئے وہ کئی سوالات بھی چھوڑ گیا۔ اس میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آیا قائدین کی مرضی کے برخلاف بشری بی بی کا یہ مبینہ فیصلہ کہ احتجاج ڈی چوک میں ہی کیا جائے، کتنا درست ثابت ہوا؟ اور یہ بھی کہ اس پورے معاملے میں تحریک انصاف نے بطور سیاسی جماعت کیا کھویا اور کیا پایا؟

Ali Amin
Getty Images

پی ٹی آئی نے کیا کھویا، کیا پایا؟

جب پی ٹی آئی کا مرکزی مارچ خیبرپختونخوا سے روانہ ہوا تو اسلام آباد میں حکومت نے اُن کو بتایا کہ انھیں اسلام آباد میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔

جگہ جگہ پاکستان تحریک انصاف کے مارچ کو روکنے کے لیے کنٹینرز لگا کر اور پولیس تعینات کر کے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ تاہم مارچ ان رکاوٹوں کو عبور کرتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔

اُسی وقت اسلام آباد میں ہلچل شروع ہوئی۔ اچانک پی ٹی آئی کے چند مرکزی رہنماؤں کو اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی اجازت دی گئی جو اُن سے ایک سے زیادہ مرتبہ ملے۔

بظاہر ان رہنماؤں کے ذریعے عمران خان، حکومت اور مارچ کے قائدین کے درمیان پیغام رسانی ہوتی رہی۔ اور جب یہ قافلہ اسلام آباد کے نزدیک تر پہنچا تو حکومت نے عمران خان کو اسلام آباد شہر سے باہر سنگجانی کے مقام پر اجتجاجی جلسہ یا دھرنا دینے کی اجازت دینے کی پیشکش کی، جس کی تصدیق خود وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی کی۔

پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں نے بعد ازاں اس بات کی تصدیق کی کہ عمران خان اس پیشکش پر راضی ہو گئے تاہم ان کی اہلیہ بشری بی بی نہیں مانیں اور وہ آخری وقت تک ڈی چوک جانے پر بضد رہیں۔

صحافی اور تجزیہ نگار ماجد نظامی کہتے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی کے اس مارچ اور دھرنے کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دیکھا جائے تو پہلے تو یہ داد بنتی ہے کہ ’پی ٹی آئی، بشری بی بی اور علی امین گنڈاپور لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو نکالنے میں کامیاب رہے۔‘

اُن کے مطابق یہ 22 مئی 2023 کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے بڑے احتجاج کے بعد سے اب تک کا پی ٹی آئی کا سب سے بڑا احتجاج تھا۔

’بشری بی بی کی موجودگی کی وجہ سے کارکنان نکلے اور بڑی تعداد میں نکلے۔ انھوں نے تقریر بھی اچھی کی اور کارکنان کو لے کر چلیں۔‘

تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے حصے میں جب بات حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے اپنے مطالبات منوانے کی آئی تو ’وہاں بشری بی بی بُری طرح ناکام رہیں۔ یہ ظاہر ہو گیا کہ اُن میں سیاسی پختگی بہت کم ہے۔‘

ماجد نظامی سمجھتے ہیں کہ ’اُن کے پاس یہ ایک اچھا موقع ہوتا کہ اتنے زیادہ لوگوں کے ساتھ وہ اپنے مطالبات پر حکومت کے سامنے رکھ سکتے تھے اور کچھ فائدہ لے سکتے تھے، مگر ایسا نہیں ہو سکا۔‘

نظامی کے مطابق ’پی ٹی آئی کے کارکنان کے پاس قیادت نہیں تھی اور جو تھی اُن کے پاس بظاہر کوئی حکمت عملی نہیں تھی، کوئی منصوبہ نہیں تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخری وقت میں کارکنان نے خود کو تنہا محسوس کیا۔‘

’انھیں سیاست کرنی ہے تو سیاسی لبادہ اوڑھنا پڑے گا‘

D Chowk
Getty Images

اس سوال پر کہ پی ٹی آئی نے حالیہ احتجاج سے کیا پایا، کیا گنوایا، صحافی اور تجزیہ نگار وجاہت مسعود نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے خیال میں پاکستان تحریک انصاف نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھا نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ انھوں نے کیا کھویا، کیا پایا لیکن ایسا لگتا ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت کو اب تک یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ ہاتھ سے بنائے شطرنج کے مہرے تھے۔ جنھوں نے بنایا تھا وہ نہیں رہے اور جس مقصد کے لیے بنایا تھا وہ پورا ہو چکا۔‘

وجاہت مسعود کے خیال میں ’ان کو بنانے کا مقصد پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کو ناکارہ کرنا تھا، وہ ناکارہ ہو چکے۔ وہ اب ار ریلیونٹ (یعنی غیر متعلقہ ہو چکے) ہیں۔‘

اُن کے خیال میں پی ٹی آئی کے لیے اسلام آباد کی طرف مارچ کر کے آنا ہی بے کار تھا۔ وجاہت مسعود سمجھتے ہیں کہ ’عمران خان اب تک سنہ 2011 میں رہ رہے ہیں، جب ان کے پاس لاؤ لشکر تھا، اسٹیبلشمنٹ کی قوت تھی۔‘

وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ اگر عمران خان کو سیاست کرنا ہے تو ان کو ایسی تمام غلط فہمیوں سے باہر نکل کر سیاستدان بننا ہو گا۔ ’ان کی اہلیہ میں یہ اہلیت نہیں ہے۔ اگر عمران خان کو پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر رہنا ہے تو پھر سیاسی لبادہ اوڑھنا پڑے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اور ان کی جماعت بہت سی سیاسی غلطیاں کر چکی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس وقت ان کے پاس کوئی خاص سیاسی بیانیہ نہیں ہے۔

کیا بشریٰ بی بی کا ڈی چوک جانے کا فیصلہ نقصان دہ ثابت ہوا؟

پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کو منتشر کرنے کے لیے آپریشن کرنے سے پہلے حکومتی وزرا نے مقامی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ عمران خان سمیت پی ٹی آئی کی قیادت حکومت کی احتجاج کو ڈی چوک کے بجائے سنگجیانی منتقل کرنے کی پیشکش قبول کر چکی تھی تاہم مارچ کی قیادت کرنے والی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے ایسا کرنے سے انکار کیا ہے۔

ایک مقامی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان اور پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما بیرسٹر محمد علی سیف نے بعد میں اس بات کی تصدیق کی۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ اُن کی موجودگی میں عمران خان کی ٹیلی فون پر بشریٰ بی بی سے بات کروائی گئی جس میں انھوں نے کہا کہ ’انھیں سنگجیانی کی طرف احتجاج منتقل کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘ لیکن اس کے بعد بھی بشری بی بی اپنے اس مؤقف پر قائم رہیں کہ مارچ کو ڈی چوک ہی جانا ہے۔

صحافی اور تجزیہ نگار ماجد نظامی سمجھتے ہیں کہ بشریٰ بی بی کے اس فیصلے کا پی ٹی آئی کو نقصان ہوا۔ ان کے خیال میں یہ ایک تاثر پایا جاتا تھا کہ شاید پی ٹی آئی کی قیادت عمران خان کے ساتھ مخلص نہیں ہے۔

’ایسا لگتا ہے کہ اسی وجہ سے بشریٰ بی بی نے خود سامنے آنے اور قیادت کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور پھر انھوں نے ہی فیصلہ کیا کہ انھیں ڈی چوک جانا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ بشریٰ بی بی نے کارکنان سے جو خطاب کیے وہ بھی ٹھیک رہے اور جس طرح انھوں نے مارچ کی قیادت کہ وہ بھی ٹھیک رہا، تاہم حکومت سے کس طرح بات چیت کرنی ہے یا مذاکرات کرنے ہیں اس کے لیے ان میں سیاسی تجربے اور پختگی کا فقدان نظر آیا۔

صحافی اور تجزیہ نگار وجاہت مسعود بھی سمجھتے ہیں کہ بشریٰ بی بی کے ڈی چوک جانے کے فیصلے نے پی ٹی آئی کو سیاسی نقصان پہنچایا ہے۔

’ان کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں ہے، ان کی کوئی سیاسی تربیت نہیں ہے، ان کو نہیں معلوم سیاست کیسے ہوتی ہے۔ ان کے اقدامات کی وجہ سے عمران خان کو کافی نقصان ہو چکا ہے۔‘

یوں پی ٹی آئی کے اس بڑے احتجاج اور اکٹھ کے بعد بھی ان کے مطالبات جوں کے توں ہیں۔ وہ جن توقعات کے ساتھ اسلام آباد آئے اُن پر بات آگے بڑھنے سے پہلے ہی ختم ہو گئی۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا وہ دوبارہ آئیں گے۔

وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اس بات کا اشارہ دے چکے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ عمران خان کریں گے۔ تو کیا یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔

اس معاملے کا اختتام کیا ہو گا؟

PTI
Getty Images

صحافی اور تجزیہ نگار ماجد نظامی کہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں پاکستان تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست کو حالیہ ناکام مارچ سے نقصان ہوا ہے۔

وہ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت میں ایک متفقہ حکمتِ عملی کی کمی نظر آ رہی ہے۔ ’وہ یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ انھیں پارلیمان کے اندر رہ کر اپنی طاقت منوانی ہے یا پھر پارلیمان سے باہر احتجاجی سیاست کرنا ہے۔ ان کے پاس حکمت عملی کا فقدان نظر آ رہا ہے۔‘

مجید نظامی کے مطابق ’حالیہ احتجاج میں بھی یہ نظر آیا ہے کہ پی ٹی آئی کے حکومت کے ساتھ مذاکرات تو ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ رکا نہیں ہے اس لیے ایسا نہیں ہے کہ مذاکرات کا امکان ہی ختم ہو گیا ہے۔ ہاں اس میں پی ٹی آئی کی بارگیننگ پوزیشن کمزور ضرور ہوئی ہے۔‘

تاہم وہ کہتے ہیں کہ اصل مسئلہ موجودہ حکومت کے مینڈیٹ کا ہے اور جب تک یہ مسئلہ رہے گا، ملک سیاسی ہلچل رہے گی اور اس کی اثرات معیشت پر بھی پڑیں گے۔

صحافی اور تجزیہ نگار وجاہت مسعود سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں حالیہ قائم کیا گیا نظام زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گا۔

ان کے مطابق ’پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی اس قدر بالادستی پاکستان کی انٹیلیجینسیا یا پڑھے لکھے طبقے کے ساتھ ریزونیٹ (مطابقت) نہیں کرتی۔‘ ان کے خیال میں یہ مثال زیادہ دیر چلنے والی نہیں ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.