پی ٹی آئی کارکن قیادت پر برہم: ’سب مرنے والوں کو ڈھونڈ رہے ہیں مگر اُن 300 زندوں کو نہیں جو خان کے نام پر اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں‘

سوشل میڈیا پر نظر ڈالی جائے تو ایک جانب پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکن سکیورٹی فورسز کی جانب سے منگل کی شب کیے گئے آپریشن کی مذمت کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اس ایک ’سانحہ‘ قرار دے رہے ہیں تو دوسری طرف ان کی جانب سے پی ٹی آئی قیادت پر بھی شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
PTI
Getty Images

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی سڑکیں اب کنٹینرز اور مظاہرین سے خالی ہو چکی ہیں لیکن لگ بھگ چار روز تک گومگو کی کیفیت اور ہر لمحہ بدلتی صورتحال کے بعد اب اس حوالے سے بحث محض سوشل میڈیا اور ٹی وی سکرینز تک محدود ہو چکی ہے۔

سوشل میڈیا پر نظر ڈالی جائے تو ایک جانب پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکن سکیورٹی فورسز کی جانب سے منگل کی شب کیے گئے آپریشن کی مذمت کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اسے ایک ’سانحہ‘ قرار دے رہے ہیں تو دوسری طرف اُن کی جانب سے پی ٹی آئی قیادت پر بھی شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

پی ٹی آئی کے حامیوں کو ناصرف ’قیادت کا ورکرز کو آپریشن کے دوران چھوڑ کر واپس جانے‘ پر غصہ ہے بلکہ صوبہ پنجاب کی قیادت کا ’فائنل کال‘ سے مکمل طور پر غائب ہونے کا بھی گلہ ہے۔

گذشتہ شام پی ٹی آئی کے کارکنان کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر مختلف ’سپیسز‘ میں ایسے ہی تاثرات کا کُھل کر اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ اس دوران متعدد حامیوں کی کارکنان کی حالتِ زار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے آواز بھرا گئی۔

دوسری جانب ٹی وی سکرینز پر نظر آنے والی پی ٹی آئی قیادت یا تو اپنی ہی جماعت پر تنقید کرتی دکھائی دیتی ہے اور اُن کے پاس فائنل کال میں شرکت نہ کرنے کا کوئی خاطر خواہ جواز موجود نہیں ہے۔

پی ٹی آئی کے ترجمان شیخ وقاص اکرم نے ’اے آر وائے‘ کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں میزبان کاشف عباسی کے بارہا استفسار پر کہ پی ٹی آئی کی قیادت کہاں غائب تھی؟ جواب دیا کہ ’جو نہیں تھے عمران خان کی اس کال پر تو وہ نہیں تھے، وہ جہنم میں جائیں گے اور کیا کر سکتے ہیں اُن کا ہم۔ خان نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ پھر اس کا اور میرا تعلق نہیں ہو گا۔‘

یہاں یہ بتانا اہم ہے کہ منگل کی شام آپریشن کے بعد پولیس کے مطابق پی ٹی آئی کے گرفتار کارکنوں کی مجموعی تعداد 900 سے کچھ زیادہ ہے تاہم اس میں پی ٹی آئی کی قیادت سے کوئی شامل نہیں۔ نہ ہی تاحال کسی بڑے رہنما کے سکیورٹی حکام سے ہونے والی جھڑپوں میں زخمی ہونے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔

سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی پنجاب کی قیادت کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور بطور خاص سلمان اکرم راجہ اور حماد اظہر کارکنان کے نشانے پر دکھائی دیے۔

سلمان اکرم راجہ پر زیادہ تنقید اس لیے کی جا رہی ہے کیونکہ وہ جماعت کے سیکریٹری جنرل ہیں اور 24 نومبر کو جب قیادت کی جانب سے لاہور میں احتجاج کی کال دی گئی تھی تو ان کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ اپنی گاڑی میں اپنی لوکیشن کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کر رہے ہیں اور ان کے پیچھے معمولاتِ زندگی رواں دواں پہیں۔

سلمان اکرم راجہ کی جانب سے گذشتہ شام جاری ایک ویڈیو پیغام میں کہا گیا ہے کہ ’بہت سے لوگوں نے اعتراض کیا کہ بہت سے لوگ بشمول میرے اسلام آباد کیوں نہیں پہنچے۔ میں پورا دن لاہور کی سڑکوں پر تھا اور یہاں یہ عالم تھا کہ اگر 20، 30 لوگ بھی ایک جگہ جمع ہوتے تو ان پر لاٹھیاں برسائی جاتیں اور ان کو گرفتار کیا جاتا تھا۔‘

’تمام راستوں کو بند کیا گیا، چناب اور راوی پر پلوں کو بند کیا گیا اور جو میرے دوست اسلام آباد پہنچنا چاہتے تھے، ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔ میرے لیے یہ مناسب نہیں تھا کہ میں ڈی چوک پر جا کر تصویریں بناؤں۔ 24 نومبر کو کسی کے لیے لاہور سے باہر نکلنا ممکن نہیں تھا۔‘

PTI
Getty Images

سلمان اکرم راجہ کی اس ویڈیو تلے موجود پیغامات کا جائزہ لیا جائے تو پی ٹی آئی کے حمایتی خاصے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔

ایک صارف راحیل خان نے لکھا کہ ’آپ کے تمام بہانے بے معنی اور کھوکھلے ہیں۔ کیونکہ آپ ایک منتخب نمائندے نہیں ہیں اس لیے مجھے آپ سے مجمع جمع کرنے یا اس کی قیادت کرنے کی امید نہیں ہے، لیکن جماعت کے اعلیٰ عہدیدار کی حیثیت سے آپ کو فرنٹ سے قیادت کرنی چاہیے تھی۔‘

ڈاکٹر عثمان نامی صارف نے لکھا کہ ’معذرت کے ساتھ آپ کے بیان کا اب کوئی فائدہ نہیں سلمان بھائی، پنجاب ردِعمل دینے میں ناکام ہوا۔‘

حسن نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’آپ نے اس وقت کارکنوں سے منھ موڑا جب انھیں سب سے زیادہ ضرورت تھی۔‘

عامر ملک نامی صارف نے پوچھا کہ ’آپ لاہور میں کیوں تھے، جب ہر بچے کو پتا تھا کہ 24 کو لاہور سے باہر جانے کی اجازت نہیں ملے گی۔‘

سعدیہ نامی صارف نے لکھا کہ ’آپ نے ہمیں بہت مایوس کیا، پنجاب نے عمران خان کو ناکام بنا دیا۔‘

ایک صارف نے لکھا کہ ’آپ نے پہلے لوگوں سے باہر نکلنے کا مطالبہ کیا اور پھر انھیں بربریت کا نشانہ بننے کے لیے چھوڑ دیا۔ اگر آپ قیادت نہیں کر سکتے تھے تو لوگوں کو باہر نکلنے کا کیوں کہا؟‘

پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما اور سابق صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی کی جانب سے قیادت اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر سخت تنقید کی گئی ہے۔

انھوں نے مختلف ٹاک شوز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کو فائنل کال کا نام نہیں دینا چاہیے تھا۔ ہم دو دن تک سڑکوں پر رہے لیکن کوئی مشاورت نظر نہیں آئی۔ ہماری قیادت کہاں غائب تھی، بیرسٹر گوہر، سلمان اکرم راجہ اور حماد اظہر کہاں تھے۔‘

حماد اظہر نے یوں تو تاحال کوئی وضاحتی بیان جاری نہیں کیا ہے تاہم کارکنوں کی جانب سے اُن پر تنقید کی جا رہی ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’اُن تمام لوگوں کو شرم آنی چاہیے جو اُس وقت نہ پہنچے جب اُن کی ضرورت تھی۔‘

خیال رہے کہ سلمان اکرم راجہ نے 17 نومبر ایک ٹویٹ میں حماد اظہر کی 24 نومبر کی کال کی ایک ویڈیو کو ری ٹویٹ کر کے لکھا گیا کہ ’حماد اظہر صاحب کی جانب سے واضح اور اہم پیغام۔ قوم کو اپنی بقا کے لیے 24 نومبر کو احتجاج کے لیے نکلنا ہے۔‘

پی ٹی آئی کے سابق ترجمان اور پالیسی تھنک ٹینک کے سربراہ رؤف حسن نے نیوز چینل اے آر وائے کے پروگرام الیونتھ آور میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس حوالے سے انکوائری کی جائے گی اور دیکھا جائے گا کہ کون کون سا پارٹی لیڈر موجود نہیں تھا، وہ بھی ہم پبلک کریں گے۔‘

جب ان سے میزبان وسیم بادامی نے پوچھا کہ آیا وہ خود شرکت کر پائے تھے تو اس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’نہیں میں جاتا ہی نہیں ہوں سیاسی مظاہروں میں، کیونکہ میں پارٹی کے باقی کام کرتا ہوں۔ کبھی کبھی چلا جاتا ہوں لیکن منگل کو نہیں تھا۔‘

نہ صرف دیگر پارٹی قیادت بلکہ مرکزی قیادت جن میں علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی شامل ہیں بھی تنقید کی زد میں ہیں۔ پی ٹی آئی کارکن سوال اٹھا رہے ہیں کہ دونوں کی جانب سے واضح طور پر ہدایات کیوں جاری نہ کی گئیں اور کیوں دونوں ہی اچانک کارکنوں کو اکیلا چھوڑ کر چلے گئے۔

اس بارے میں علی امین گنڈاپور کی جانب سے بدھ کی دوپہر مانسہرہ میں کی گئی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’ان پر قاتلانہ حملہ ہوا جس کی وجہ سے انھیں فوری طور پر وہاں سے نکلنا پڑا۔‘

دوسری جانب بشریٰ بی بی کی جانب سے تاحال اس حوالے سے کوئی وضاحت جاری نہیں کی گئی ہے۔ تاہم ان کی بہن مریم وٹو کی جانب سے جاری بیانات میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ بشریٰ بی بی اپنی مرضی سے اسلام آباد سے نہیں آئی تھیں۔

خیال رہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے عوام کو اسلام آباد پہنچنے کے حوالے سے بیانات دیے گئے تھے تاہم پنجاب اور سندھ کے متعدد رہنما موقع پر نہیں پہنچ پائے تھے۔ سابق صدر عارف علوی اور تیمور جھگڑا بھی ان رہنماؤں میں شامل تھے جو ڈی چوک پہنچنے میں ناکام رہے۔

ایک صارف نے پی ٹی آئی رہنما زرتاج گل کی ٹویٹ کے نیچے لکھا کہ ’بھگوڑے عوام کو مرنے کے لیے چھوڑ کر خود بھاگ جاتے ہیں۔ کوئی نام نہاد مشہور نام وہاں گولیاں کھانے کے لیے نہیں تھا۔‘

صارف حیدر نقوی نے کہا کہ ’سب دو سو مرنے والوں کو تو ڈھونڈ رہے ہیں مگر تین سو اُن زندوں کو نہیں ڈھونڈ رہے جو عمران خان کے نام پر اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں، مگر دھرنے میں کہیں نظر نہ آئے۔۔۔ اصل مردے تو وہ ہی ہیں!‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.