نوکری کے دھوکے میں پاکستان پہنچنے والی حمیدہ بانو کی 22 سال بعد انڈیا واپسی: ’اتنے سال کسی زندہ لاش کی طرح گزارے‘

سنہ 2002 میں انڈیا سے لاپتہ ہونے والی حمیدہ بانو دو دہائیوں بعد پاکستان میں پائی گئیں اور ان کی اور ان کے اہل خانہ کے لیے ان کی وطن واپسی کا انتظار 16 دسمبر کو اس وقت ختم ہوا جب وہ واہگہ-اٹاری بارڈر کے ذریعے اپنے وطن انڈیا واپس آئیں۔
حمیدہ بانو
BBC
حمیدہ بانو 22 سال بعد پاکستان سے انڈیا پہنچیں

'میں نے اپنی زندگی کے 22 سال کسی زندہ لاش کی طرح گزارے، مجھے ذرا بھی امید نہیں تھی کہ میں کبھی انڈیا پہنچ بھی سکوں گی۔'

یہ الفاظ دو دہائیوں سے زیادہ وقت پاکستان میں گزارنے کے بعد انڈیا واپس پہنچنے والی خاتون حمیدہ بانو کے ہیں۔ جب وہ بی بی سی سے بات کر رہی تھیں تو ان کی آنکھوں میں چمک صاف دیکھی جا سکتی تھی۔

سنہ 2002 میں انڈیا سے لاپتہ ہونے والی حمیدہ بانو دو دہائیوں بعد پاکستان میں منظرِ عام پر آئیں تھیں اور ان کی اور ان کے اہل خانہ کے لیے ان کی وطن واپسی کا انتظار 16 دسمبر کو اس وقت ختم ہوا جب وہ واہگہ-اٹاری بارڈر کے ذریعے وطن انڈیا واپس آئیں۔

بی بی سی پنجابی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ اب 75 برس کی ہیں اور 22 سال پاکستان میں گزار چکی ہیں۔

حمیدہ بانو کی پیدائش انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک میں ہوئی تھی لیکن وہ بچپن میں ہی ممبئی چلی گئیں تھیں۔ ان کی شادی ایک انڈین شہری سے ہوئی جن سے ان کی دو بیٹیاں ہیں۔

انڈیا کی سرزمین پر قدم رکھتے ہوئے حمیدہ بانو نے کہا کہ ’میں بہت خوش ہوں کہ اب میں اپنے بچوں کے ساتھ رہوں گی۔‘

حمیدہ بانو پاکستان کیسے پہنچیں؟

حمیدہ بانو نے سنہ 2002 میں اس وقت انڈیا چھوڑا تھا جب ایک ملازمت دلانے والے ایجنٹ نے انھیں یقین دلایا کہ انھیں دبئی میں کھانا پکانے کی ملازمت مل جائے گی۔

حمیدہ بانو کا کہنا ہے کہ انھیں نوکری دلانے کے نام پر دھوکہ دیا گیا اور انھیں دبئی کے بجائے پاکستان پہنچا دیا گیا۔

ممبئی میں رہائش پزیر حمیدہ بانو کے اہل خانہ نے دو سال قبل ان کا سراغ سوشل میڈیا کے ذریعے لگایا تھا۔ اس وقت ان کے اہلخانہ نے مراٹھی سروس کو بتایا تھا کہ ان کا خاندان گذشتہ 20 برسوں سے حمیدہ بانو کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔

سنہ 2022 میں ایک انڈین اور ایک پاکستانی شہری کی مدد سے ان کا پتہ لگایا جا سکا تھا۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدہ تعلقات کی وجہ سے پاکستانی اور انڈین شہریوں کو سرحد عبور کرنے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور حمیدہ بانو بھی پیسے کی کمی اور مقامی معلومات کی کمی کا شکار تھیں۔

لیکن حمیدہ بانو نے اتنے برسوں بعد بھی اپنے بچوں سے ملنے کی امید نہیں چھوڑی تھی۔

اس سے قبل پاکستان کے سماجی کارکن ولی اللہ معروف کو دیے گئے ایک انٹرویو میں حمیدہ بانو نے بتایا کہ وہ اپنے شوہر کے انتقال کے بعد اپنے بچوں کی دیکھ بھال کر رہی تھیں۔

وہ دوحہ، قطر، دبئی اور سعودی عرب میں باورچی کے طور پر بھی کام کر چکی ہیں۔

حمیدہ کا کہنا ہے کہ سنہ 2002 میں انھوں نے دبئی میں ملازمت حاصل کرنے کے لیے ایک خاتون ریکروٹمنٹ ایجنٹ سے رابطہ کیا تھا جس نے حمیدہ سے 20 ہزار روپے ایڈوانس مانگے تھے۔

بانو اپنے انٹرویو میں کہتی ہیں کہ دبئی لانے کے بجائے انھیں پاکستان کے شہر حیدرآباد لایا گیا جہاں انھیں تین ماہ تک قید رکھا گیا۔

اس کے بعد اگلے چند سالوں میں حمیدہ نے کراچی میں رہنے والے ایک شخص سے شادی کر لی تھی۔ لیکن وہ شخص کورونا وائرس کے سبب چل بسا۔ اس کے بعد سے حمیدہ بانو پاکستان میں اپنے سوتیلے بیٹے کے ساتھ رہ رہیں تھیں۔

پاکستان میں زندگی کیسی تھی؟

حمیدہ بانو کہتی ہیں کہ جب تک ان کے پاکستانی شوہر زندہ تھے ان کی زندگی اچھی گزر رہی تھی، لیکن شوہر کے انتقال کے بعد ان کی زندگی درہم برہم ہو گئی۔

انھوں نے بتایا کہ ان کے پاکستانی شوہر کے بچے بے روزگار ہیں اور ان کا اپنا ایک خاندان ہے جس کی وجہ سے وہ حمیدہ کا مزید بوجھ نہیں اٹھا سکتے تھے۔

انھوں نے بتایا: ’میرے شوہر گلی میں دکان چلاتے تھے۔ لیکن انھوں نے مجھے کبھی کسی چیز کی تکلیف نہیں ہونے دی۔ لیکن بچوں کو مجھے سے اتنا لگاؤ نہیں تھا۔ وہ نئی نسل کے ہیں، وہ سوچتے ہیں کہ ہم جو کچھ کمائیں اسے کھائیں اور اپنا خیال رکھیں۔‘

’وہ سوچتے ہیں کہ شادی والد نے کی ہے تو اب ہم ان کا بوجھ کیوں اٹھائیں؟ً‘

’لیکن پھر بھی ان کے لیے دعا ہی نکلتی ہے۔ انھوں نے مجھے گھر سے نہیں نکالا۔ اللہ ان کی کمائی میں برکت دے۔‘

حمیدہ بانو کا مزید کہنا ہے کہ انڈیا جانے کے بعد بھی وہ کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتیں۔

انھوں نے کہا: ’میں ممبئی پہنچ کر دکان کھولوں گی یا کوئی کام کروں گی۔ یہاں (پاکستان میں) خواتین کے کام کرنے کو ناپسند کیا جاتا ہے۔ لیکن انڈیا میں عورتیں بھی کام کر رہی ہیں۔ حالانکہ وہاں میرے بھائی، بہنیں، بچے ہیں، لیکن میں کسی پر بوجھ بننا نہیں چاہتی۔‘

واپسی کیسے ممکن ہوئی؟

حمیدہ بانو کی کراچی میں موجودگی کی اطلاع ملنے پر اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن نے ولی اللہ معروف سے رابطہ کیا اور حمیدہ بانو سے بات کی۔

معروف نے کہا کہ پاکستان میں انڈین سفارت خانے کے اہلکاروں نے ان سے رابطہ کیا اور ان سے حمیدہ بانو سے بات کروانے کی درخواست کی تاکہ وہ انھیں انڈیا بھیجنے میں مدد کرسکیں۔

ان سے بات کے دوران حمیدہ نے بتایا کہ وہ کراچی میں ہیں اور انڈیا واپس جانا چاہتی ہیں۔

حمیدہ بانو نے انڈیا واپس جانے کی درخواست دی۔ اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن نے حمیدہ بانو سے متعلق دستاویزات (تصاویر، ممبئی میں جاری کردہ راشن کارڈ، حمیدہ بانو کی دو بیٹیوں کے آدھار کارڈ وغیرہ) وزارت خارجہ کے ساتھ شیئر کیں۔

انڈین وزارت خارجہ نے وزارت داخلہ سے قومیت کی تصدیق کی درخواست کی۔ ادھر پاکستان کی وزارت خارجہ نے تصدیق کی کہ حمیدہ بانو پاکستانی شہری نہیں ہیں۔

انڈین وزارت خارجہ نے پولیس انسپکٹر، آئی برانچ اور سی آئی ڈی ممبئی کی رپورٹ کی بنیاد پر کہا کہ حمیدہ بانو انڈین شہری ہیں۔

اس کے بعد انڈین وزارت خارجہ نے اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن کے ذریعے 18 اکتوبر سنہ 2024 کو پاکستانی وزارت خارجہ کو حمیدہ بانو کی انڈین شہریت کی تصدیق کی اور پھر 16 دسمبر کو حمیدہ بانو نے سرحد عبور کرکے اپنے وطن میں 22 سال بعد دوبارہ قدم رکھا۔

’انسانیت کی جیت‘

حمیدہ بانو کی کراچی میں موجودگی کا سراغ لگانے والے ولی اللہ معروف پاکستان کے شہر کراچی کی ایک مقامی مسجد کے امام ہیں۔

معروف بتاتے ہیں کہ ان کی اس خاتون (حمیدہ بانو) سے تقریباً 15 سال پہلے ملاقات ہوئی ہو گی جب ان کے شوہر نے معروف کے علاقے میں دکان کھولی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ: ’میں انھیں بچپن سے دیکھتا آ رہا ہوں۔ وہ ہمیشہ پریشان نظر آتی تھیں۔‘

معروف گذشتہ کئی سالوں سے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کی مدد سے بنگلہ دیش سے پاکستان سمگل ہونے والی خواتین کو ان کے اہل خانہ کے ساتھ ملواتے رہے ہیں۔

اپنے دوسرے شوہر کی موت کے بعد حمیدہ اپنی ساس سے کہتی رہیں کہ وہ معروف کو ان کی مدد کے لیے راضی کریں۔

معروف کا کہنا ہے کہ وہ ان کی کہانی سن کر جذباتی ہو گئے لیکن دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے ہچکچا رہے تھے۔

معروف کہتے ہیں: ’میرے دوستوں نے مجھے انڈیا سے دور رہنے کو کہا، مجھے کہا گیا کہ اس سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ لیکن مجھے ان کی حالت دیکھ کر اتنا برا لگا کہ میں خود کو روک نہیں سکا۔‘

لیکن اب جبکہ حمیدہ بانو انڈیا پہنچ چکی ہیں تو ولی اللہ معروف کا کہنا ہے کہ پہلے تو انھیں ڈر تھا کہ حمیدہ بانو پاکستان اور انڈیا کے درمیان جاری کشیدگی کا شکار ہو جائیں گی۔

’میں انڈیا اور پاکستان کی حکومتوں کا شکر گزار ہوں جنھوں نے اپنی سیاست کو اس معاملے پر اثر انداز ہونے نہیں دیا۔ انھوں نے حمیدہ کو ایک انسان کے طور پر دیکھا، ان کے درد کو محسوس کیا اور ان کی وطن واپسی میں مدد کی۔ یہ انسانیت کی فتح ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.