چکوال کے گاؤں ’گاہ‘ کا ’موہنا‘ جس کے بچپن کے دوست اُس کی راہ ہی تکتے رہ گئے

گاہ کے ’موہنا‘ نہ رہے۔۔۔ بڑ کے درخت کے نیچے گلی ڈنڈا، قینچے اور کبڈی کھیلتے اُن کے بچپن کے دوست ہی انھیں اس نام سے پکارتے تھے۔ ورنہ جب وہ سنہ 1932 میں برطانوی ہندوستان کے ضلع جہلم کے گاؤں میں کپڑے کے دکاندار گرُمکھ سنگھ اور اُن کی اہلیہ امرت کور کے ہاں پیدا ہوئے تو اُن کا نام منموہن سنگھرکھا گیا تھا۔
Getty Images
Getty Images
ضلع چکوال کے گاؤں ’گاہ‘ کا ایک منظر

گاہ کے ’موہنا‘ نہ رہے۔۔۔ بڑ کے درخت کے نیچے گلی ڈنڈا، قینچے اور کبڈی کھیلتے اُن کے بچپن کے دوست ہی انھیں اس نام سے پکارتے تھے۔ ورنہ جب وہ سنہ 1932 میں برطانوی ہندوستان کے ضلع جہلم کے گاؤں میں کپڑے کے دکاندار گرُمکھ سنگھ اور اُن کی اہلیہ امرت کور کے ہاں پیدا ہوئے تو اُن کا نام منموہن سنگھرکھا گیا تھا۔

اب یہ گاؤں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے 100 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ضلع چکوال کا حصہ ہے۔

جب سنہ 2004 میں منموہن سنگھ انڈیا کے وزیراعظم بنے اور اگلے دس سال اسی عہدے پر رہے اور کئی معاشی اصلاحات کیں، تو گویا شاہ ولی اور راجا محمد علی جیسے گاہ میں رہنے والے اُن کے کئی دوستوں کے لیے ان کے ساتھگزرے دنوں کی یادیں امڈ آئی تھیں ۔

ماہر سماجیات جارج میتھیو اُسی سال (2004 میں) ’گاہ‘ گئے تھے۔

ٹریبون انڈیا میں لکھے گئے ان کے مضمون کے مطابق یہاں سکول رجسٹر کے مطابق منموہن سنگھ کا نمبر 187 تھا، والد کا نام: گرمکھ سنگھ؛ ذات: [پنجابی کھتری] کوہلی: پیشہ: دکاندار: اور داخلے کی تاریخ 17 اپریل 1937 درج ہے۔

گاؤں میں منموہن سنگھ کے دوست شاہ ولی نےجارج میتھیو کو بتایا کہ ’دو کچے کمروں کے سکول میں تقریباً 100 طالب علم تھے۔‘

اس سکول کی موجودہ عمارت کئی سال بعد بنی۔

Getty Images
Getty Images
سکول رجسٹر میں منموہن کا سیریل نمبر 187 ہے

شاہ ولی کا کہنا تھا کہ ’ہمارے استاد دولت رام اور ہیڈ ماسٹر عبدالکریم تھے۔ بچیاں اور بچے اکٹھے پڑھتے تھے۔‘

ٹریبون پاکستان میں چھپے ایک مضمون کے مطابق اُن کے دوست غلام محمد خان نے خبر رساں اے ایف پی کو بتایا کہ ’موہنا ہماری کلاس کے مانیٹر تھے اور ہم اکٹھے کھیلتے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا ’وہ ایک شریف اور ذہین بچہ تھا۔ ہمارے استاد نے ہمیشہ ہمیں مشورہ دیا کہ اگر ہم کچھ سمجھ نہ پائیں تو ان کی مدد حاصل کریں۔‘

چوتھی جماعت پاس کرنے کے بعد من موہن اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنے گاؤں سے 25 کلومیٹر دور چکوال چلے گئے اور 1947 میں برطانوی ہندوستان کی انڈیا اور پاکستان میں تقسیم سے کچھ عرصہ قبل امرتسر چلے آئے۔

اور یوں اُن کے گاؤں کے دوست شاہ ولی انھیں پھر کبھی نہ مل سکے۔ البتہ منموہن سنگھ کی دعوت پر ان کے بچپن کے دوست راجا محمد علی سنہ 2008 میں اُن سے ملے تھے۔ بعدازاں سنہ 2010 میں راجا محمد علی کی وفات ہو گئی تھی۔

Getty Images
Getty Images
من موہن سنگھ راجہ محمد علی سے ملتے ہوئے

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق راجا محمد علی نے ’موہنا‘ کو شال، چکوالی جوتی اور گاہ کی مٹی اور پانی دیااور بدلے میں انھیں پگڑی اور کڑھائی والی شال تحفے میں ملی۔

اقتدار سنبھالنے کے کچھ ہی عرصہ بعد منموہن سنگھ نے پاکستان کے اس وقت کے حکمران جنرل پرویز مشرف کو خط لکھا جس میں کہا گیا کہ ’گاہ‘ گاؤں کو ترقی کے لیے مختص کیا جائے۔

ٹائمز آف انڈیا اخبار کے مطابق یکم اپریل 2010 کو ایک غیر معمولی طور پر جذباتی قومی خطاب میں سنگھ نے کہا کہ انھوں نے مٹی کے تیل کے چراغ کی روشنیمیں تعلیم حاصل کی ہے کیونکہ ان کے گاؤں میں بجلی نہیں تھی۔ کانپتی آواز میں انھوں نے کہا کہ ’میں آج جو کچھ ہوں تعلیم کی وجہ سے ہوں۔‘

منموہن سنگھ نے کیمبرج اور پھر آکسفورڈ جانے سے پہلے انڈیا میں معاشیات کی تعلیم حاصل کی تھی۔

سنہ 1991 میں جب وہ انڈیا کے وزیر خزانہ بنے تو معیشت تباہی کے دہانے پر تھی مگر پھر 2007 تک انڈیا نے اپنی بلند ترین جی ڈی پی کی شرح نمو (نو فیصد) حاصل کر لی۔

گاہ گاؤں میں منموہن سنگھ کے دیگر دوست منتظر رہے کہ کب وہ پاکستان کا دورہ کریں اور وہ اُن سے ملیں گے کیونکہ انھوں نے پاکستان آنے کی دعوت تو قبول کر لی تھی مگر بوجوہ آ نہ سکے۔

انھیں ’موہنا‘ کے آنے کی امید اس لیے بھی تھی کہ منموہن سنگھ کی اہلیہ گرشرن سنگھ کا خاندان بھی تقسیم سے پہلے پنجاب کے ضلع جہلم کے گاؤں ڈھکو میں رہتا تھا۔

تصویر
Getty Images

انڈیا اور پاکستان کے رہنماؤں کا عجب رویہ ہوتا ہے۔ ملنا ہو تو بہانہ ڈھونڈ لیتے ہیں، نہ ملنا ہو تو پاس سے گزرتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے آنکھ نہیں ملاتے۔

16واں ساؤتھ ایشیئن ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن (سارک) کا سربراہی اجلاس 2010 میں بھوٹان میں تھا۔ میں جنوبی ایشیا کے صحافیوں کی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے وہیں پر موجود تھا۔

سارک کے دیگر ممالک سمجھتے ہیں کہانڈیا اور پاکستان کے مابین تنازعات اور بات چیت نہ ہونا جنوبی ایشیا کی ترقی میں رکاوٹ ہے اور اپنے ان جذبات کا انھوں نے اجلاس میں کُھل کر اظہار کیا۔

شاید اسی لیے سربراہی اجلاس کے میزبان بھوٹان نے دارالحکومت تھمپو کے سارک ولیج میں انڈیا کے وزیراعظم منموہن سنگھ اور پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو ہمالیہ کی بلندیوں میں صحت بخش پہاڑی ہوا کے درمیان زمینی رنگ کے دو منزلہ ولاز میں پڑوسی بنایا گیا کہ شاید آتے جاتے، دن میں کسی وقت ایک دوسرے سے حال احوال ہی پوچھ لیں گے۔

تھمپو کے ایک ٹیبلوئڈ، بھوٹان ٹوڈے کے مطابق سنگھ اور گیلانی کو کم از کم پڑوسیوں کی طرح ملنے پر مجبور کرنے کے لیے ’یہ قدیم، دیہاتی لیکن مؤثر بھوٹانی چال‘ تھی۔ لیکن دونوں وزرائے اعظم نے یہ ’چال‘ ناکام بنا دی۔ جنھیں نہیں ملنا تھا، وہ نہیں ملے۔

یہاں تک کہ سارک ممالک کے سربراہان کو ایک روز اصرار کرنا پڑا کہ ڈھلتے سورج میں وہ دونوں ایک جانب کو ٹہل لیں۔ اور پھر سارک پریس ریلیزکے مطابق ’وفود کے قائدین کے اصرار پر پاکستان اور انڈیا کے وزرائے اعظم نے سارک ولیج میں ایک ساتھ چہل قدمی کی اور تبادلہ خیال کیا۔ سارک ولیج میں اپنے اپنے ولا میں واپس آنے سے پہلے وہ کچھ دیر کے لیے ٹہلتے رہے۔‘

Getty Images
Getty Images

بہرحال پھر منموہن سنگھ اور گیلانی کی ملاقات ہوئی جہاں انھوں نے ’اعتماد‘ کی بحالی کے لیے بات چیت کے راستے کُھلے رکھنے کا فیصلہ کیا۔

اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی نے سنگھ کی کانگریس کی زیر قیادت انتظامیہ پر پاکستان کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرنے کا الزام لگایا۔

جنوری میں اپنی الوداعی نیوز کانفرنس میں منموہن سنگھ نے انکشاف کیا کہ اُن کی انتظامیہ پرویز مشرف حکومت سے کشمیر پر امن معاہدہ کرنے کے بہت قریب پہنچ چکی تھی لیکن پھر 2008 میں ممبئی میں دہشت گردانہ حملے ہوئے۔

سنگھ کا خیال تھا کہ اگر انڈیا کو اپنی معاشی خواہشات کی تکمیل کرنا ہے تو اس کے لیے کشمیر پر اختلافات کو حل کرنا ہو گا۔

مشرف کے بعد آنے والے صدر آصف علی زرداریسے منموہن سنگھ کی ملاقات نیویارک میں ہوئی۔ سنہ 2011 میں اس وقت کے پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو پنجاب کے شہر موہالی میں کرکٹ ورلڈ کپ کا میچ دیکھنے کی دعوت دی۔

صحافی ابھییک برمن نے لکھا کہ انڈیا نے کرکٹ میں پاکستان کو شکست دی لیکن ایک اور میدان کرکٹ ڈپلومیسی میں انڈیا اور پاکستان دونوں ہی فاتح ہیں۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ اور ان کے پاکستانی ہم منصب یوسف رضا گیلانی نے کرکٹ میچ اور ڈنر کے دوران میں ایک دوسرے سے بلا تعطل آٹھ گھنٹے بات چیت کی۔

getty
Getty Images
گاؤں ’گاہ‘ کا منظر

سنہ 2012 میں اس وقت کے انڈین وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا اور پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک نے ایک آزادانہ ویزا معاہدے پر دستخط کیے جس سے دونوں اطراف کے لوگوں کے لیے دوسرے ملک میں سفری ویزا حاصل کرنا آسان ہو گیا۔ اسی سال پنجاب اور بہار کی ریاستوں کے انڈین سیاست دانوں کے ایک وفد نے بھی پاکستان کا دورہ کیا۔

سنہ 2013 میں من موہن سنگھ اور پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر نیویارک میں ملے۔ دونوں نے ایک دوسرے کے ممالک کے دورے کی دعوتیں بھی قبول کیں، لیکن کوئی تاریخ طے نہیں ہوئی۔ اسی سال مئی میںنواز شریف کے منتخب ہونے کے بعد یہ اُن کی پہلی آمنے سامنے ملاقات تھی۔

اگلا سال منموہن سنگھ کی حکومت کا آخری سال تھا۔

سنہ 2019 میں منموہن سنگھ پاکستان آئے بھی تو بقول ان کے ’ایک عام آدمی‘ کے طور پر یاتریوں کے پہلے جتھے میں کرتارپور تک، جہاں سکھوں کے لیے مقدس گوردوارہ دربار صاحب تک انڈیا سے ڈیرہ بابا نانک کے راستے آنے کےلیے راہداری کا افتتاح ہوا تھا۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ ’کرتارپور ماڈل‘ مستقبل کے تنازعات کو حل کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’خوشحال مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے امن اور ہم آہنگی ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔‘

لیکن موہنا کی پاکستان میں اپنی جائے پیدائش کا دورہ کرنے کی خواہش پوری نہیں ہو سکی۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.