تاندلیانوالہ: ’حوالات میں قید میرے سوتے ہوئے بیٹوں کو قتل کر دیا گیا، یہ کیسے ممکن ہے‘

چھ جنوری کی صبح پانچ بجے کا وقت تھا کہ مسلح افراد فیصل آباد کی تحصیل تاندلیانوالہ کے تھانہ صدر میں داخل ہوئے، حوالات میں قید تین ملزمان کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا کیا اور پھر وہاں سے فرار ہوگئے۔ بی بی سی نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسلح افراد کون تھے اور تھانے کے اندر داخل ہونے میں کیسے کامیاب ہو گئے؟
پاکستان، جیل
Getty Images

چھ جنوری کی صبح پانچ بجے کا وقت تھا کہ کم از کم آٹھ افراد ضلع فیصل آباد کی تحصیل تاندلیانوالہ کے تھانہ صدر میں داخل ہوتے ہوئے اور حوالات میں قید تین ملزمان کو فائرنگ کر کے قتل کیا اور پھر وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب رہے۔

اس واقعے میں تین حوالاتی عثمان، بلال اور ناصر موقع پر ہلاک ہو گئے۔ یہ تینوں بھائی تھے۔ ان کے علاوہ آصف نامی حوالاتی کو زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا۔

ہلاک ہونے والے بھائیوں پر تین افراد کو سرِعام قتل کرنے کا الزام تھا اور حال ہی میں تھانہ سٹی پولیس نے عدالت سے ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کیا تھا لیکن پھر تفتیش کے لیے انھیں تھانہ صدر کی حوالات میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

پولیس کے مطابق اس منتقلی کی وجہ بھی ان افراد کا تحفظ تھا کیونکہ ’خاندانی دشمنی کی وجہ سے ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا تھا‘ اور تھانہ صدر کی عمارت نسبتاً زیادہ محفوظ تھی۔ ان دونوں تھانوں کی عمارتیں ساتھ ساتھ ہیں۔

ان تین بھائیوں کے قتل کے مقدمے کی ایف آئی آر پولیس کی مدعیت میں درج کی گئی ہے اور اس کے مطابق جب ان پر حملہ ہوا تو حوالات میں قید ملزمان کی حفاظت پر صرف ایک سپاہی موجود تھا۔

پولیس کے مطابق مسلح افراد نے جب تھانے کی دائیں حوالات کے سامنے پہنچ کر اس کے اندر اندھا دھند فائرنگ کی تو سنتری نے ان کو روکنے کی کوشش کی۔

ایف آئی آر کے مطابق ’پانچ مسلح افراد نے جواب میں پولیس پر سیدھی فائرنگ کی تاہم سنتری نے ستون کی اوٹ لے کر ملزمان پر فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھا جس پر وہ فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہو گئے۔‘

حوالات میں قتل اور سوالات

پنجاب پولیس نے معاملے کی تحقیقات کے لیے ڈی آئی جی انٹیلیجنس سپیشل برانچ فیصل علی راجا کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے جو تاندلیانوالہ پہنچ کر معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے تاہم ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین نے اس تمام واقعے میں پولیس کے کردار پر سوالات اٹھائے ہیں۔

ہلاک ہونے والے تینوں افراد کی والدہ نے مقامی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ’کچھ لوگ پولیس تھانے کے اندر گھس کر میرے سوتے ہوئے بیٹوں کو قتل کر کے فرار ہو جائیں، یہ کیسے ممکن ہے؟‘

مرنے والوں کی چچا زاد بہن نمرہ نے پولیس کی طرف سے از خود پولیس کی مدعیت میں اس واقعے کا مقدمہ درج کرنے پر بھی اعتراض اٹھایا ہے کہ ’وہ خود کیسے اس مقدمے کی مدعی بن سکتی ہے۔‘

انھوں نے سوال اٹھایا کہ’ مسلح افراد اتنی بڑی تعداد میں کیسے تھانے کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوئے؟ حوالات کے پہرے پر صرف ایک پولیس سنتری ہی کیوں موجود تھا؟‘

حوالات کے اندر قتل کے اس واقعے کے حوالے سے بہت سے ایسے سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں۔ ہلاک ہونے والوں کو پولیس نے قتل کے جس واقعے میں گرفتار کیا تھا وہ گزشتہ ماہ کے شروع میں پیش آیا اور اس کے کچھ روز بعد ہی ان کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

ان کے خلاف اگر مقدمہ تھانہ سٹی میں درج تھا تو انھیں تھانہ صدر کی حوالات میں کیوں بند کیا گیا؟ اور پھر اس بات کا علم مسلح افراد کو کیسے ہوا؟

متعلقہ تھانے کے اہلکاروں یا فیصل آباد پولیس نے اس حوالے سے آن ریکارڈ بی بی سی سے بات نہیں کی تاہم پنجاب کے انسپکٹر جنرل آف پولیس نے حقائق معلوم کرنے کے لیے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی ہے جو تاندلیانوالہ پہنچ کر تحقیقات کر رہی ہے۔

مسلح افراد تھانے میں کیسے گئے اور اس کے بعد کیا ہوا؟

بی بی سی نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسلح افراد کون تھے اور تھانے کے اندر داخل ہونے میں کیسے کامیاب ہو گئے؟ کیا پولیس کی طرف سے واقعی ان کو روکنے کی کوشش کی گئی؟

اس واقعے کی ایک سی سی ٹی وی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس کے مختلف زاویوں میں مسلح افراد کو تھانے سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے برعکس اس ویڈیو میں نظر آنے والے مسلح افراد کی تعداد پانچ نہیں آٹھ ہے۔

پولیس کی ابتدائی رپورت کے مطابق ’مسلح افراد سیڑھی لگا کر تھانے کی عقبی دیوار سے اندر داخل ہوئے۔ اس وقت تھانے کے احاطے کی لائیٹیں جل رہی تھیں اور تھانے میں چار پولیس اہلکار موجود تھے جن میں حوالات کی حفاظت پر معمور سنتری بھی شامل تھا۔‘

پولیس رپورٹ کے مطابق ’اچانک تھانے کی دائیں حوالات کے باہر سے پانچ افراد جو آتشین اسلحہ سے مسلح تھے نے حوالات کے اندر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔‘

پولیس رپورٹ کے مطابق ’پولیس سنتری نے ان کو روکنے کی کوشش کی تو ملزمان نے سیدھی فائرنگ کر دی۔ سنتری نے حفاظت خود اختیاری میں برآمدے کے ستون کی اوٹ لے کر جوابی فائرنگ کی جس پر ملزمان مین دروازہ کھول کر فرار ہو گئے۔‘

تاہم تاندلیانوالہ پولیس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کی۔ انھوں نے بتایا کہ اس واقعہ سے متعلق ان کی اس تھانے میں تعینات اپنے ساتھیوں سے بات ہوئی ہے۔

ان کے مطابق دونوں تھانوں کی دیوار ایک ہی ہے۔ ’مسلح افراد تھانہ سٹی کی دیوار پھلانگ کر تھانہ صدر میں داخل ہوئے۔ وہ جدید اسلحہ سے لیس تھے۔ تھانہ صدر کی حدود میں داخل ہوکر سب سے پہلےانھوں نے تفتیشی افسران کے کمروں کو باہر سے تالا لگایا۔‘

’جن کمروں میں پولیس کے ملازمین رہتے ہیں اور سرکاری اسلحہ پڑا ہوتا ہے ان کو بھی انھوں نے باہر سے تالا لگایا گیا۔‘

پولیس اہلکار کے مطابق ’ملزمان نے تھانے میں فائرنگ کی جس کے نتیجے میں محرر کے کمرے میں موجود ایک پولیس اہلکار اور تھانے کے گیٹ پر تعینات پولیس اہلکار دونوں وہاں سے فرار ہو گئے۔‘

’اس کے بعد مسلح افراد نے حوالات کا رُخ کیا اور قتل کے مقدمے میں گرفتار تینوں افراد کو شناخت کرنے کے بعد گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔ حوالات میں موجود ایک اور ملزم زخمی ہوگیا۔‘

پولیس اہلکار کے مطابق ملزمان یہ کارروائی کرنے کے بعد جائے حادثہ سے فرار ہوگئے۔

ان تفصیلات اور سی سی ٹی وی فوٹیج سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلح افراد کو تھانے کے اندر پولیس کی اہلکاروں کی موجودگی کی جگہوں کا پہلے سے علم تھا۔ ان کو یہ بھی علم تھا کہ تھانے کے صرف داخلی راستے پر کیمرے نصب ہیں۔

باہر جاتے ہوئے ان میں زیادہ تر نے اپنے چہرے چھپا رکھے تھے یا چھپانے کی کوشش کرتے نظر آ رہے ہیں۔

ملزمان اتنے عرصے سے حوالات میں کیوں تھے؟

تاہم ایک سوال یہ بھی ہے کہ جن تین ملزمان کو قتل کیا گیا ان کو دوسرے تھانے کے حوالات میں کیوں رکھا گیا تھا۔ اور گرفتار کرنے کے بعد روزنامچے میں ان کی گرفتاری کیوں نہیں ڈالی گئی تھی؟

قانون کے مطابق پولیس کے لیے یہ لازم ہوتا ہے کہ کسی بھی ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد 24 گھنٹے کے اندر اس کو عدالت کے سامنے پیش کر کے اس کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرے۔ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر عدالت ملزمان کو جیل بھجوا دیتی ہے۔

پولیس اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ مرنے والے تین افراد اور ان کے ساتھیوں نے گزشتہ برس نومبر میں فائرنگ کر کے دو افراد کو اس وقت ہلاک کر دیا تھا جب وہ عدالت سے ٍضمانت لے کر واپس آ رہے تھے۔ اس فائرنگ میں ایک راہگیر بھی ہلاک ہوا تھا۔

تاہم پولیس نے کچھ ہی روز بعد ان تین بھائیوں اور ان کے چوتھے ساتھی کو گرفتار کر لیا تھا۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرنے والے پولیس اہلکار کے بقول ’کاغذوں میں ان کی گرفتاری نہیں ڈالی گئی تھی۔ اس سال کے شروع میں ملزمان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرکے ان سے تفتیش کی جارہی تھی۔‘

عام طور پر پاکستان کے تھانوں میں یہ رواج بہت زیادہ نظر آتا ہے جہاں ملزمان کو گرفتار کر کے ان کی ’گرفتاری ڈالے بغیر‘ انھیں کئی روز تک حوالات میں رکھا جاتا ہے جس دوران پولیس ان سے تفتیش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

پولیس اہلکار کے مطابق پیر کے روز تھانہ صدر کے حوالات میں جن افراد کو قتل کیا گیا ان کے خلاف مقدمہ تھانہ سٹی تاندلیاوالہ میں درج تھا تاہم ’سکیورٹی وجوہات‘ کی بنا پر انھیں تھانہ صدر میں رکھا گیا تھا۔

ہلاک ہونے والے کون تھے؟

فیصل آباد کے مقامی صحافی حسام احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ قتل ہونے والے تین افراد کا تعلق سکیھیرا برادری سے تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے ایک مقدمے کی پیشی پر آنے والے کھرل برادری کے دو افراد کو ضلع کچہری کے قریب فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔

مقامی صحافی حسام احمد کے مطابق ان دونوں گروپوں کا شمار علاقے کے بااثر افراد میں ہوتا ہے اور ان دونوں گروپوں کی آپس میں دشمنی گزشتہ تین سال قبل شروع ہوئی۔

ان کے مطابق ’سکھیرا برادری کے افراد نے کھیتوں کو ٹیوب ویل کے ذریعے پانی دینے کی غرض سے ایک ٹرانسفارمر لگوایا۔ کھرل برادری نے ان سے تقاضا کیا کہ انھیں بھی ٹیوب ویل کے لیے بجلی اسی ٹرانسفارمر سے دی جائے تاہم سکھیرا برادری کے لوگوں نے انکار کردیا۔ نتیجے میں ان دونوں گروپوں کی آپس میں مخالفت پیدا ہوگئی۔‘

انھوں نے کہا کہ ان دونوں گروپوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ایک دوسرے کے خلاف متعدد مقدمات پہلے بھی درج کروا رکھے تھے۔ ’ان ہی مقدمات اور لڑائی جھگڑوں کی بنیاد پر پہلی مرتبہ ایک برادری کے افراد نے دوسرے کے لوگوں پر گولیاں چلائیں جس میں دو افراد ہلاک ہوئے۔‘

پولیس کی تحقیقات میں کیا ہوا؟

پولیس نے دعوٰی کیا ہے کہ انھوں نے حوالات کے اندر قتل اور پولیس پر فائرنگ کرنے کے الزام میں دس سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا ہے جن سے تفتیش جاری ہے۔

پنجاب پولیس نے معاملے کی تحقیقات کے لیے ڈی آئی جی انٹیلیجنس سپیشل برانچ فیصل علی راجا کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے جو تاندلیانوالہ پہنچ کر معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔

وہ ان تمام الزامات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں کہ کیا پولیس کی طرف سے غفلت کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔ اپنی تٍحقیقاتی رپورٹ وہ آئی جی پنجاب کو پیش کریں گے۔ ریجنل پولیس آفیسر فیصل آباد بھی معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

پولیس افسران نے ہلاک ہونے والے افراد کے اہل خانہ کو یقین دلایا ہے کہ اس واقعے کے مقدمے کے مدعیان میں لواحقین کو شامل کیا جائے گا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.