’برفانی تودوں کی ملکہ‘ کہلائے جانے والے آئس برگ کے برطانوی جزیرے سے ٹکرانے کا خطرہ: ’خوشی ہو گی اگر یہ ہم سے ٹکرائے بغیر چلا جائے‘

اے 23 اے دنیا کا سب سے بڑا آئس برگ ہے جو سنہ 1986 میں انٹارکٹکا کی ساحلی پٹی سے الگ ہوا تھا۔ تقریباً 3500 مربع کلومیٹر پر پھیلا یہ برفانی تودہ جنوبی جارجیا سے ٹکرانے جا رہا ہے جس سے وہاں موجود پینگوئین اور سیل کی آبادیوں کو خطرہ ہے۔
آئس برگ اے ۲۳
Getty Images

دنیا بھر سے سائنسدان بڑی بے چینی سے سیٹلائٹ تصاویر کو چیک کر رہے ہیں تاکہ ’برفانی تودوں کی ملکہ‘ کہلائے جانے والے آئس برگ کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکیں۔

’اے 23 اے‘ دنیا کا سب سے بڑا آئس برگ (برفانی تودا) ہے جو 1986 میں انٹارکٹکا کی ساحلی پٹی سے الگ ہوا تھا لیکن اس کے بعد یہ سمندر کی تہہ میں پھنس گیا۔ ایک لمبے عرصے تک اسے ’برف کا جزیرہ‘ سمجھا جاتا رہا جو اپنی جگہ سے نہیں ہلا تاہم 2020 میں یہ دوبارہ اپنی جگہ سے آہستہ آہستہ بہنا شروع ہو گیا۔

اپریل 2024 کے اوائل میں ’اے 23 اے‘ انٹارکٹک سرکوپولر کرنٹ (اے سی سی) نامی بحری رو میں داخل ہوا جو دنیا بھر میں زمین کے تمام دریاؤں کے مقابلے میں سو گنا زیادہ پانی منتقل کرتی ہے۔

اس کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ کھربوں ٹن وزنی اس برفانی تودے کی رفتار میں کئی گنا اضافہ ہو گا اور یہ جنوبی بحرِ اوقیانوس میں داخل ہو جائے گا اور پھر رفتہ رفتہ پگھل کر سمندر کا حصہ بن جائے گا تاہم ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ ایک بڑے بھنور میں پھنس گیا اور کئی ماہ تک اس میں تیزی سے گھومتا رہا۔

بالآخر گذشتہ سال دسمبر میں ’اے 23 اے‘ بھنور سے آزاد ہو گیا۔ اب اس آئس برگ کا رخ جنوبی جارجیا کی طرف ہے جو ایک دور دراز برطانوی جزیرہ اور جنگلی حیات کا مسکن ہے۔

آئس برگ
BBC

آئس برگ کے ٹکرانے سے اس جزیرے پر موجود پینگوئین اور سِیل کی آبادی کی بقا کو بھی خطرہ لاحق ہے۔

فی الحال یہ آئس برگ جزیرے سے 173 میل (280 کلومیٹر) کے فاصلے پر موجود ہے۔

جارجیا کے سرکاری جہاز فاروس کے کپتان سائمن والیس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’برفانی تودے فطری طور پر خطرناک ہوتے ہیں۔ مجھے بے حد خوشی ہو گی اگر یہ ہم سے ٹکرائے بغیر چلا جائے۔‘

ایک وقت میں ’اے 23 اے‘ 400 میٹر اونچا اور 3900 مربع کلو میٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا تھا تاہم انٹارٹیکا کے جنوب کا گرم پانی اسے آہستہ آہستہ پگھلا رہا ہے اور اس کا حجم کم ہو کر 3500 مربع کلو میٹر رہ گیا ہے۔

گرم پانیوں کی وجہ سے اس آئس برگ کے بڑے بڑے ٹکڑے ٹوٹ کر گر رہے ہیں۔ ایسا بھی عین ممکن ہے کہ اے 23 اے برف کے بڑے بڑے ٹکروں میں تقسیم ہو جائے جو جنوبی جارجیا کے ارد گرد تیرتے رہیں۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ کسی آئس برگ سے جنوبی جارجیا اور سینڈوچ آئی لینڈ کو خطرہ لاحق ہوا ہو۔

اس سے قبل سنہ 2004 میں اے 38 نامی آئس برگ ان جزائر سے ٹکرایا تھا جس کے نتیجہ میں پینگوئین اور سِیل کے بہت سے بچے ساحل پر جمع ہو جانے والے برف کے ٹکڑوں کے باعث خوراک تک رسائی حاصل نہ کر سکے اور مارے گئے۔

ان جزائر پر کنگ ایمپرر پینگوئین اور، ایلیفینٹ اور فر نسل کے سِیل کی آبادیاں ہیں۔

جنوبی جارجیا کی حکومت کے ساتھ کام کرنے والے میرین اکالوجسٹ مارک بیلچیئر کہتے ہیں کہ جنوبی جارجیا آئس برگز سے گھرا ہوا ہے سو اس سے ماہی گیری اور جنگلی حیات دونوں پر اثرات پڑ سکتے ہیں تاہم ان کا ماننا ہے کہ ماہی گیر اور جنگلی حیات دونوں ہی ان مشکلات کے باوجود زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

دوسری جانب ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ آئس برگ کا مسئلہ دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

2023 میں ’اے 76‘ نامی ایک برفانی تودے نے اس وقت ماہی گیروں میں کھلبلی مچا دی تھی جب وہ جزیرے کے قریب آگیا تھا۔

مارک کہتے ہیں کہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے جس سے ایسا لگ رہا جیسے افق پر ایک برف کا شہر ابھر آیا ہو۔

آئس برگ
BBC

اے 76 کے ٹکڑے آج بھی جزیروں کے ارد گرد تیر رہے ہیں۔

اینڈریو نیومین کا تعلق جنوبی جارجیا میں کام کرنے والی ماہی گیری کی کمپنی آرگوس فروئینس سے ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ برف کے ان ٹکڑوں کا حجم کئی ویمبلے سٹیڈیم کے برابر سے لے کر میز کی سائز تک ہوتا ہے۔

کیپٹن سائمن کا کہنا ہے کہ برف کے یہ ٹکڑے تقریباً پورے ہی جزیرے کے چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں اور انھیں ان کے درمیان سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جہاز پر موجود ملاحوں کو ہمہ وقت خبردار رہنا ہوتا ہے۔

’ہم پوری رات سرچ لائٹ جلا کر رکھتے ہیں تاکہ برف پر نظر رکھ سکیں – یہ کسی بھی طرف سے نمودار ہو سکتے ہیں۔‘

یہ سب لوگ اس بات سے متفق ہیں کہ ماحول بہت تیزی سے بدل رہا ہے اور گلیشیئرز کے پگھلنے کے ساتھ ساتھ سمندر میں برف کی موجودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

’اے 23 اے‘ کے وجود میں آنے کے پیچھے تو شاید ماحولیاتی تبدیلی کا ہاتھ نہ ہو کیونکہ یہ کئی دہائیوں پہلے انٹارٹیکا سے الگ ہوا تھا مگر سمندر میں تیرتے بڑے بڑے آئس برگ یقیناً اب ہمارے مستقبل کا حصہ ہیں۔

آئس برگ اے 23 اے نے اپنی تباہی سے پہلے سائنسدانوں کے لیے ایک تحفہ چھوڑا ہے۔

سر ڈیوڈ اٹنبرو تحقیقی جہاز پر موجود برطانوی انٹارکٹک سروے کی ایک ٹیم سنہ 2023 میں اتفاق سے ’اے 23 اے‘ کے قریب پہنچ گئی۔

اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سائنس دانوں نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ ان میگا آئس برگ سے ماحول پر کیا اثر پڑتا ہے۔

جہاز اس آئس برگ میں موجود دراڑ میں داخل ہوا اور پی ایچ ڈی ریسرچر لورا ٹیلر برفانی تودی سے محض 400 میٹر کی دوری سے پانی کا نمونہ حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔

آئس برگ
Getty Images

وہ کہتی ہیں کہ ’میں جہاں تک دیکھ سکتی تھی مجھے اپنی قد سے اونچی برف کی دیوار نظر آ رہی تھی۔ اس کے مختلف حصوں کے مختلف رنگ تھے۔ اس کے ٹکڑے (ٹوٹ کر) گر رہے تھے، یہ بہت شاندار (نظارہ) تھا۔‘

لورا ٹیلر اب کیمبریج میں واقع اپنی لیبارٹری میں پانی کے ان نمونوں کی جانچ کر رہی ہیں جو انھوں نے وہاں سے جمع کیے تھے۔

وہ یہ دیکھنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ پگھلنے والے پانی کا جنوبی سمندر کے کاربن سائیکل پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’یہ اس عام پانی کی طرح نہیں جو ہم پیتے ہیں۔ یہ غذائی اجزا اور کیمیکلز سے بھرا ہوا ہے۔‘

جیسے جیسے یہ برفانی تودہ پگھلتا ہے اس میں موجود کیمیکلز اور دوسرے عناصر سمندر میں شامل ہو کر اس کی جگہ کی طبیعیات اور کیمسٹری کو بدل دیتے ہیں۔

اس سے سمندر میں جمع ہونے والی کاربن کی مقدار میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ماحولیاتی تبدیلی کا باعث بننے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ میں کمی آسکتی ہے۔

فطری طور پر برفانی تودے بہت غیر متوقع ہوتے ہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ ’اے 23 اے‘ آگے جا کر کیسے برتاؤ کرے گا لیکن جلد ہی جزیرے کے سامنے افق پر اس کے اپنے حجم جتنا بڑا ایک برفانی تودا ضرور نمودار ہو گا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.