سیف علی خان کی 15 ہزار کروڑ کی جائیداد اور ’اینیمی پراپرٹی ایکٹ‘ کا تنازع: عدالت کا ایک سال کے اندر فیصلے کا حکم

انڈین خبررساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق گذشتہ ہفتے عدالت عالیہ نے سیف علی خان اور ان کے خاندان کو بھوپال کے سابق حکمرانوں سے وراثت میں ملنے والی تقریبا 15,000 کروڑ روپے کی جائیداد پر ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس کیس کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا ہے۔
نواب سیف علی خان اپنی والدہ اداکارہ شرمیلا ٹیگور کے ساتھ
Getty Images
نواب سیف علی خان اپنی والدہ اداکارہ شرمیلا ٹیگور کے ساتھ

بالی وڈ اداکار سیف علی خان اور ان کے خاندان کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کی جانب سے ایک بڑا مالی جھٹکا ملا ہے۔

انڈین خبررساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق گذشتہ ہفتے عدالت عالیہ نے سیف علی خان اور ان کے خاندان کو بھوپال کے سابق حکمرانوں سے وراثت میں ملنے والی تقریبا 15,000 کروڑ روپے کی جائیداد پر ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس کیس کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا ہے۔

ٹرائل کورٹ نے تقریبا دو دہائی قبل بھوپال کے نواب کی جائیداد کا فیصلہ نواب منصور علی خان اور ان کے وارثوں کے حق میں دیا تھا۔

لیکن گذشتہ دنوں 30 جون کو جسٹس سنجے دویدی کی ہائی کورٹ کی سنگل بنچ نے ٹرائل کورٹ کے سنہ 2000 میں دیے جانے والے فیصلے اور حکم نامے کو ایک طرف رکھ دیا ہے جس میں پٹودیوں (سیف علی خان، ان کی والدہ شرمیلا ٹیگور اور ان کی دو بہنوں سوہا علی خان اور صبا) کو بھوپال کے نواب کی جائیدادوں کا مالک قرار دیا تھا۔

انھوں نے ٹرائل کورٹ کو یہ بھی ہدایت دی ہے کہ وہ ایک سال کے اندر اس معاملے کو طے کرنے اور فیصلہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔

یہ معاملہ ذرا پیچیدہ اس لیے ہو گیا ہے کہ سنہ 2015 میں حکومت ہند کے 'کسٹوڈین آف اینیمی پراپرٹی فار انڈیا' نے اس زمین کو 'دشمن کی جائیداد' قرار دیا جس کے بعد 15 ہزار کروڑ کی جائیداد سیف علی خان اور ان کے خاندانوں کے ہاتھوں سے جاتی ہوئی نظر آنے لگی ہے۔

یہ تنازعہ ریاست بھوپال کے آخری حکمران نواب حمید اللہ خان کی جائیداد کے متعلق ہے۔ ان کی پہلی بیوی میمونہ سلطان سے انھیں تین بیٹیاں عابدہ سلطان، ساجدہ سلطان اور رابعہ سلطان تھیں۔

عابدہ نے پاکستان آئیں تو ساجدہ نے سیف علی خان کے دادا افتخار علی خان پٹودی سے شادی کی۔ ان کے بیٹے منصور علی خان پٹودی انڈین کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان نے اداکارہ شرمیلا ٹیگور سے شادی کی۔

سیف علی خان اپنی والدہ شرمیلا ٹیگور اور اپنے والد نواب منصور علی خان پٹودی کے ساتھ
Getty Images
سیف علی خان اپنی والدہ شرمیلا ٹیگور اور اپنے والد نواب منصور علی خان پٹودی کے ساتھ

فیصلہ عدالت میں چیلنج ہوا تھا

جب سنہ 2000 میں ٹرائل کورٹ نے فیصلہ پٹودی خاندان کے حق میں دیا تو اس حکم کو حمید اللہ خان کے بڑے بھائی عبید اللہ خان کی پوتی بیگم ثریا راشد اور رابعہ سلطان نے ہائی کورٹ میں الگ الگ درخواستوں کے ذریعے چیلنج کیا۔

ان کا دعویٰ تھا کہ 1960 میں حمید اللہ خان کی موت کے بعد مسلم پرسنل لا کے مطابق جائیدادوں کو پٹیشنرز اور مدعا علیہان یعنی پٹودی خاندان میں تقسیم کیا جانا چاہیے تھا۔

انھوں نے مرکزی حکومت کے 1962 کے اس حکم کو بھی چیلنج کیا جس میں ساجدہ سلطان کو ان کے والد کی موت کے بعد بھوپال کا نواب قرار دیا گیا تھا جائیدادوں کی واحد جانشین کے طور پر تسلیم کیا گيا تھا۔

لیکن گذشتہ دنوں 30 کو جسٹس دویدی نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے 'معاملے کے دیگر پہلوؤں پر غور کیے بغیر' اور الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم پر انحصار کرتے ہوئے جسے بعد میں سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا تھا، مدعی کے مقدمے کو خارج کر دیا تھا۔

انھوں نے مزید کہا: 'میری رائے میں یہ غیر قانونی فیصلہ اور حکم نامے کے مستحق ہیں اور اس لیے اسے ایک طرف رکھا جاتا ہے۔ معاملات کو نئے سرے سے فیصلہ کرنے کے لیے دوبارہ ٹرائل کورٹ میں بھیج دیا جاتا ہے اور اگر ضرورت ہو تو ٹرائل کورٹ فریقین کو بعد میں ہونے والی پیشرفت اور تبدیل شدہ قانونی پوزیشن کے پیش نظر مزید شواہد پیش کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔

'یہ واضح ہے کہ چونکہ مقدمے ابتدائی طور پر 99 سال میں دائر کیے گئے تھے، اس لیے تمام مقدمات کو مقدمے کی سماعت 9 سال میں ممکن بنایا جائے گا۔ یہ نتیجہ اخذ کریں اور اس کا فیصلہ تیزی سے کریں، ترجیحاً ایک سال کی مدت کے اندر۔'

اس اقدام کو پٹودی خاندان کے لیے ایک دھچکے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ ہائی کورٹ نے دسمبر 2024 میں پہلے ہی مسٹر علی خان کی 2015 کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے جس میں مرکزی حکومت کے اس حکم کو چیلنج کیا گیا تھا جس میں 15,000 کروڑ روپے کی وراثت میں ملنے والی جائیداد کو اینیمی پراپرٹی ایکٹ کے تحت 'دشمن کی جائیداد' قرار دیا گیا تھا۔

اینیمی پراپرٹی ایکٹ کیا ہے؟

پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1965 کی جنگ کے بعد 'اینیمی پراپرٹی ایکٹ' پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔

اس قانون کے مطابق یہ طے کیا گیا کہ جو لوگ انڈیا چھوڑ کر پاکستان چلے گئے ان کی چھوڑی ہوئی جائیداد کا کیا کرنا ہے۔

اس ایکٹ کے تحت حکومت نے پاکستان یا چین کی شہریت اختیار کرنے والوں کی ملکیت والی جائیدادوں اور کاروباروں کا کنٹرول سنبھال لیا۔

دشمن جائیداد ایکٹ 1968 کے تحت جن جائیدادوں کو دشمن کا اثاثہ قرار دیا جاتا ہے وہ مستقل طور پر نگہبان کے پاس رہتی ہیں اور وراثت یا منتقلی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

یہ قانون مرکزی حکومت کو مختلف ریاستوں میں 'دشمن کی جائیدادوں' کا انتظام کرنے اور کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے قانونی فریم ورک فراہم کرتا ہے۔

دشمن جائیداد (ترمیمی اور توثیق) ایکٹ 2017 نے قانون کو مزید مضبوط کیا اور اس کے دائرہ کار کو وسعت دی۔

ان ترامیم میں 'اینیمی سبجیکٹ' اور 'اینیمی فرم' کی تعریف کو وسیع کرتے ہوئے قانونی وارثوں اور جانشینوں کو شامل کیا گیا ہے، چاہے ان کی شہریت کچھ بھی ہو چاہے۔ وہ انڈین ہوں یا کسی 'غیر دشمن' ملک سے۔

اس میں طے کیا گیا تھا کہ دشمن کی جائیداد ان صورتوں میں بھی متولی کے پاس رہے گی جہاں موت، معدومیت یا کاروبار کی بندش کی وجہ سے دشمن کے اثاثے یا فرم کا وجود ختم ہو گیا ہو۔

ترامیم نے وراثت کے دعوؤں کو مؤثر طریقے سے کالعدم قرار دے دیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ ایسی جائیدادیں غیر معینہ مدت تک حکومت کے کنٹرول میں رہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون انفرادی املاک کے حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے جبکہ اس کے حامی قومی سلامتی کے لیے اس کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔

اب اس ایکٹ کے تحت سیف علی خان سے جو جائیداد چھن جانے کا خطرہ ہے اس میں فلیگ سٹاف ہاؤس (جہاں سیف نے اپنا بچپن گزارا)، لگژری ہوٹل نور الصباح پیلس، دارالسلام، حبیبی بنگلہ، احمد آباد پیلس اور کوہِ فضا پراپرٹی شامل ہیں۔

سیف علی خان کی پاکستان آنے والی رشتہ دار کون ہیں؟

عابدہ سلطان بھوپال کے نواب حمید اللہ خان کی سب سے بڑی بیٹی تھیں۔ ان کی شادی کوروائی کے نواب سرور علی خان سے ہوئی۔

اس وقت عابدہ کی عمر صرف 17 سال تھی لیکن ان کی شادی شدہ زندگی میں بہت سی رکاوٹیں تھیں۔

عابدہ کے بیٹے شہریار خان پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ بنے تھے۔

نواب حمید اللہ خان اپنی بیٹی کو اپنا جانشین بنانے کی تیاری کر رہے تھے۔ لیکن باپ بیٹی کے اس رشتے میں تلخی پیدا ہو گئی۔ کیونکہ 1945 میں حمید اللہ نے دوسری شادی کر لی اور عابد کی والدہ کو یکسر نظر انداز کر دیا۔

جب ہندوستان آزاد ہوا تو عابدہ لندن میں تھیں۔ اس کے بعد وہ محمد علی جناح سے رابطے میں آئیں اور پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔

سنہ 1948 میں انھوں نے جناح کو فون کیا اور اس فیصلے کے بارے میں بتایا۔ اپنی بیٹی کا فیصلہ جاننے کے بعد نواب حمید اللہ انھیں راضی کرنے لندن گئے۔

پھر انھوں نے تجویز دی کہ 'میں پاکستان جاؤں گا اور تم بھوپال کے اس ادارے کو سنبھالو گی۔'

لیکن ہندوستان میں شاہی ریاستیں ضم ہوگئیں اور نواب برائے نام ہی رہ گئے۔ جناح بھی وفات پا گئے۔

تب عابدہ سلطان بھی پاکستان چلی گئیں۔ اس کے بعد وہ پاکستان کی سیاست میں بھی سرگرم ہوگئیں۔

سیف علی خان اپنے والد کی سنہ 2011 میں وفات کے بعد پٹودی کے نواب بنے
Reuters
سیف علی خان اپنے والد کی سنہ 2011 میں وفات کے بعد پٹودی کے نواب بنے

عابدہ کا سیف علی خان کی دولت سے کیا تعلق ہے؟

عابدہ ابھی بھوپال میں ہی تھیں جب نواب حمید اللہ علی خان کی 4 فروری 1960 کو وفات ہوئی۔ ان کے سامنے یہ تجویز پیش کی گئی کہ وہ اپنی پاکستانی شہریت ترک کر کے انڈیا واپس چلی آئیں۔

انھیں بھوپال کا نواب قرار دیا جائے گا۔

صدر پاکستان نے بھی اس پر رضامندی ظاہر کی لیکن عابدہ سلطان نے اس تجویز کو ٹھکرا کر سب کچھ اپنی چھوٹی بہن (سیف علی خان کی دادی) ساجدہ سلطان کے لیے چھوڑ دیا۔

ساجدہ کی شادی پٹودی کے نواب افتخار علی خان سے ہوئی تھی۔ افتخار علی خان پٹودی انڈیا کے سابق کپتان منصور علی خان پٹودی کے والد اور سیف علی خان کے دادا ہیں۔

سیف علی خان کے دادا اور منصور علی خان پٹودی کے والد نواب افتخار علی خان پٹودی کی شادی بھوپال کے نواب کی بیٹی ساجدہ سے ہوئی
Getty Images
سیف علی خان کے دادا اور منصور علی خان پٹودی کے والد نواب افتخار علی خان پٹودی کی شادی بھوپال کے نواب کی بیٹی ساجدہ سے ہوئی

بھوپال کی دولت پر سیف علی خان کا حق کیسے؟

یہ تمام جائیدادیں ساجدہ کے شوہر اور سیف علی خان کے دادا کی ہیں۔

فروری 2015 میں حکومت ہند کے کسٹوڈین آف اینیمی پراپرٹی میکانزم نے ان جائیدادوں کو دشمن کی جائیداد قرار دیا۔

شرمیلا ٹیگور اور سیف علی خان یعنی منصور علی خان پٹودی کی اہلیہ اور بیٹے نے اس کے خلاف عدالت کا رخ کیا۔

مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے دسمبر 2024 میں حکم دیا تھا کہ اینیمی پراپرٹی ایکٹ کے تحت اپیل دائر کی جائے۔

جب عابدہ سلطان انڈیا چھوڑ کر پاکستان چلی گئی تھیں اس نظام نے بھوپال کے نوابوں کی اس جائیداد کو دشمن کی جائیداد قرار دینے کا حکم جاری کر دیا تھا۔

لیکن سیف کے وکلا کا موقف ہے کہ یہ جائیدادیں ساجدہ سلطان کی ہیں اور ان کے وارث پہلے منصور علی خان پٹودی اور پھر سیف علی خان ہیں۔ ان کے مطابق چونکہ یہ پراپرٹی انڈیا میں واقع ہے اس لیے اسے دشمن کی ملکیت قرار نہیں دیا جا سکتا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts