’انڈیا کی بدنام زمانہ سیریل کلرز‘، بچوں کو اغوا و قتل کرنے والی ماں بیٹیاں

image

’پوشم پا بھائی پوشم پا‘ انڈیا میں ایک معروف نرسری گیت ہے جس پر بچے اپنے حساب سے کہانیاں بناتے اور گرہیں لگاتے ہیں۔

آج سے پانچ سال قبل 2019 میں ’پوشم پا‘ نام کی ایک فلم آئی جو بچوں کے گیت کے بجائے بچوں کی قاتل خواتین پر مبنی دل ہلا دینے والی فلم ہے۔ یہ اس وقت مزید خوفناک ہو جاتی ہے جب یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ سچی کہانی پر مبنی ہے۔

اس کہانی میں کئی موڑ ہیں اور انگریزی کی مشہور کہاوت ’جسٹس ڈلیڈ از جسٹس ڈینائیڈ‘ اس پر صادق نظر آتی ہے کیونکہ عدالت عالیہ کو مجرموں کی سزائے موت کو عمرقید کی سزا میں تبدیل کرنا پڑتا ہے وہ بھی اس لیے کہ حکومت کی جانب سے اس میں اتنی تاخیر ہوتی ہے جس کا خاطر خواہ جواز پیش نہیں کیا جا سکا۔

دراصل یہ تین خواتین کی کہانی ہے جس میں غربت، افلاس، دھوکے اور بدلے کا عنصر نمایاں ہے۔

اگرچہ پہلی بار ان تینوں خواتین یعنی ماں انجنا بائی اور ان کی دو بیٹیاں رینوکا اور سیما 1996 میں اغوا اور قتل کے الزام میں پکڑی جاتی ہیں لیکن یہ کہانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب ناسک کی رہائیشی انجنا بائی ایک ٹرک ڈرائیور کے ساتھ پونے فرار ہو جاتی ہیں جہاں ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوتی ہے جس کا نام رینوکا رکھتے ہیں۔

بیٹی کی پیدائش کے بعد 1973 میں ٹرک ڈرائیور انھیں چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور ماں بیٹی کو چوری اور بھیک پر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ اسی دوران انجنا کی ملاقات موہن گاوت نام کے ایک ریٹائرڈ فوجی سے ہوتی ہے اور دونوں شادی کر لیتے ہیں۔

انجنا بائی کے ہاں موہن گاوت سے دوسری بیٹی سیما پیدا ہوتی ہے۔ لیکن موہن گاوت ان کی چوری اور جیب کترنے کی عادتوں سے تنگ آ کر انہیں چھوڑ دیتا ہے اور وہ خود دوسری شادی کر لیتا ہے۔

انجنا پھر سے تنہا ہو جاتی ہے اور اس طرح ایک ماں اپنی بیٹیوں کو ایسے جرائم کی دنیا میں دھکیل دیتی ہے جسے انڈیا کے سب سے زیادہ سنسنی خیز واقعات میں شمار کیا جاتا ہے۔

اکتوبر 1996 میں موہن گاوت کی دوسری بیوی پرتیبھا نے انجنا اور ان کی بیٹیوں کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی کہ ان تینوں نے ان کی نو سالہ بیٹی کرانتی کو اغوا کے بعد قتل کر دیا ہے۔

تفتیش کاروں نے انہیں گرفتار کر لیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس سے زیادہ بے درد مجرم سے کبھی سابقہ نہیں پڑا۔

سُہاس ناگوڈا اس وقت مہاراشٹر کریمنل انویسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ (سی آئی ڈی) میں پولیس انسپکٹر تھے۔ انہوں نے اخبار دی انڈین ایکسپریس کو ایک انٹرویو میں بتایا: ’انجنا بائی اور اس کی دو بیٹیوں، سیما گاوت اور رینوکا کی کہانی میں دو اہم موڑ ہیں۔‘

ناقدین کے مطابق ’پوشم پا‘ نامی فلم میں واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ فوٹو: سکرین گریب

’پہلا موڑ اُس وقت آیا جب ماں اور دونوں بہنوں نے اپریل 1990 میں پونے کے چِترشنگری مندر میں ایک پرس چھیننے کی کوشش کی اور پکڑی گئیں اور دوسرا موڑ اکتوبر 1996 ناسک کی مارکیٹ میں ایک حادثے کا رونما ہونا تھا۔‘

پولیس نے بتایا کہ یہ خواتین مختلف تقریبات، تہواروں، اور مشہور مندروں کے باہر خواتین سے قیمتی سامان چراتی تھیں۔ انجنا بائی پر 125 سے زیادہ چھوٹی موٹی چوری کے کیسز درج تھے۔

پولیس کے مطابق موہن گاوت نے 1990 میں دوسری شادی کی جس سے انجنا بائی میں غصہ پیدا ہو گیا۔ اس غصے نے اسے اپنی بیٹیوں رینوکا اور سیما کے ساتھ مل کر موہن گاوت اور اس کی دوسری بیوی پرتیبھا کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ انتقام کا آغاز تھا، جو بعد میں بچوں کے اغوا اور قتل میں بدل گیا۔

سُہاس ناگوڈا اس دوران مغربی مہاراشٹر کے مختلف اضلاع، تھانے، پونے، ناسک اور کولہاپور میں بچوں کے مسلسل اغوا اور قتل کی تحقیقات کر رہے تھے۔ ان اغوا ہونے والے بچوں کی عمریں پانچ سال سے کم تھیں۔

اس دوران رینوکا کی شادی ہو گئی اور اس کا ایک بیٹا پیدا ہوا۔ اپریل 1990 میں سیما اور رینوکا اپنے بیٹے کے ساتھ پونے کے چترشنگری مندر گئے۔ رینوکا نے ایک پرس چھیننے کی کوشش کی، لیکن پکڑی گئی۔ اس موقع پر رینوکا بچے کا بہانہ بنا کر بچ گئی۔

انسپکٹر ناگوڈا کے مطابق دوسرا اہم واقعہ 1996 میں رونما ہوا جب ناسک سے کرانتی نام کی ایک لڑکی اغوا ہوئی جو انجنا کی سوتن کی بیٹی تھی۔

یہ اغوا انتقام کے طور پر کیا گیا تھا۔ رینوکا اور سیما نے کرانتی کو اس کے سکول سے انجنا بائی سے ملوانے کے بہانے سے اٹھایا اور پھر چند ماہ بعد لڑکی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

تفتیش کاروں کے مطابق پرتیبھا نے انجنا بائی، رینوکا اور سیما کے خلاف اغوا کی رپورٹ درج کرائی۔ تینوں خواتین پولیس کی تفتیش سے بچنے کے لیے زیرِزمین چلی گئیں۔ پھر چند ماہ بعد وہ ایک اور بچی کو اغوا کرنے کی نیت سے باہر آئیں تو پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔

پولیس نے جب ان کے گھر کی تلاشی لی تو انہیں وہاں سے کئی دوسرے بچوں کے کپڑے اور کچھ مشتبہ تصاویر ملیں، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ یہ خواتین بچوں کے اغوا میں ملوث تھیں۔

تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ان تینوں نے 13 بچوں کو اغوا کیا تھا جن میں سے نو، 10 بچوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔

لیکن دوسری رپورٹس میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے کئی درجن یا 40 سے زیادہ بچوں کو اغوا اور قتل کیا۔

سفاکانہ قتل

پولیس نے ان سے سختی سے تفتیش شروع کی تو سیما نے سب سے پہلے اعتراف جرم کیا اور پھر رینوکا کے شوہر نے پولیس کی جانب سے سزا سے بچنے کی پیشکش پر انہیں ان تینوں کی کارروائیوں کا داستان سنائی جن میں وہ خود بھی شامل تھا۔

ان کی کارروائیوں میں کئی بچوں کو بے دردی سے مارا گیا، جن میں سنتوش، شردھا، گوری، سوپنل اور پنکج نام کے بچے شامل تھے۔ ایک بچے کو سر دیوار سے ٹکرا ٹکرا کر مار دیا گیا، ایک بچی کو باتھ روم میں ڈبو دیا گیا، جبکہ ایک دو سال کی بچی کو سینما تھیٹر میں قتل کر کے اس کی لاش کو خواتین کے واش روم میں پھینک دیا گیا۔

ممبئی پولیس کی جانب سے جاری کیا گیا ہینڈ آؤٹ۔ 

ان معاملات پر گہرائی سے نظر رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن عاصم سارودے نے ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب میں نے ان سے ملاقات کی تو میرے دل میں خوف پیدا ہو گیا۔ ان بہنوں نے نہ تو کوئی ندامت یا شرمندگی دکھائی اور نہ ہی ان کے چہرے یا ان کی زبان پر اس بات کا اثر تھا کہ وہ جو کچھ بھی انہوں نے کیا وہ غلط تھا۔‘

اس دوران جیل میں انجنا بائی کی موت واقع ہو گئی جبکہ ان کے جرائم کی شدت دیکھتے ہوئے پولیس نے تفتیش کا دائرہ وسیع کیا اور متعدد کیسز کی تحقیقات کی۔ اس دوران 156 گواہوں کے بیانات لیے گئے اور 2001 میں کولہاپور کی سیشن کورٹ نے گاوت بہنوں کو ان کے بیشتر جرائم میں قصوروار قرار دیا اور انہیں موت کی سزا سنائی۔ بوبمے ہائی کورٹ نے 2004 میں ان کی سزا کی توثیق کی، اور 2006 میں سپریم کورٹ نے ان کی سزائے موت کی توثیق کی۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق انجنا بائی اور گاوت بہنوں نے 1990 سے 1996 کے درمیان 5 سال سے کم عمر کے 13 بچوں کو اغوا کیا اور کم از کم نو بچوں کو قتل کیا، جس پر ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

دریں اثنا گاوت بہنوں نے اپنی سزا کی معافی کے لیے پہلے ریاست کے گورنر اور پھر صدر جمہوریہ سے درخواست کی جنہیں مسترد کر دیا گیا۔ بہرحال معافی کی درخواستوں پر حکومت کی جانب سے بلاجواز تاخیر کی وجہ سے 2022 میں ممبئی ہائی کورٹ نے ان کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا۔

معروف مصنف انربھان بھٹاچاریہ نے ماں اور بیٹیوں کو اپنی کتاب ’دی ڈیڈلی ڈزن: انڈیاز موسٹ نوٹوریئس سیریل کلرز‘ میں شامل کیا ہے۔ لیکن فلم کے بارے میں ایک ریویو میں کہا گیا ہے کہ اس میں اصل واقعے سے زیادہ فکشن ہے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.