گذشتہ سال جولائی میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کرنے اور اس کے بعد ان کے دوبارہ انتخاب کی مہم میں 25 کروڑ ڈالر خرچ کرنے کے بعد دنیا کے امیرترین شخص ایلون مسک نے بہت زیادہ سیاسی رسوخ حاصل کر لیا ہے اور اپنے آپ کو ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کے بااثر ترین اور کلیدی رکن کے طور پر منوایا ہے۔برطانوی اخبار گارڈین کی رپورٹ کے مطابق ایلون مسک اب نئی انتظامیہ میں صدر ٹرمپ کے بعد سب سے نمایاں فرد ہونے کی حیثیت کو استعمال کرکے ایسے فیصلے کرنا شروع کر دیے ہیں جس کے اثرات کروڑوں افراد کی صحت پر ہوں گے۔ ایلون مسک انتہائی حساس ڈیٹا تک رسائی حاصل کر رہے ہیں اور کوئی فرد ان کے اقدامات کی مخالفت کرتا ہے تو وہ ان پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ ٹرمپ کے اقدامات نے امریکہ کے حکومتی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کے غیرمنتخب رکن ہونے کے باوجود انہوں نے امریکہ کی مرکزی حکومت میں حیران کن اختیارات حاصل کر لیے ہیں۔
اختتام ہفتہ ٹرمپ کی سربراہی میں قائم ’ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ افیشینسی‘ (ڈوج) کے اہکار امریکی حکومت کی ایجنسییز کے کمپیوٹرز ڈیٹا تک بلاروک ٹوک رسائی کے لیے سول سرونٹس کے ساتھ لڑتے پائے گئے۔
جب ان جھگڑوں پر اڑتی دھول تھم گئی تو حکومتی اداروں پر کنٹرول کی مخالفت کرنے والے حکام کو باہر کا راستہ دکھایا گیا اور ایلون مسک کے وفادار سول سرونٹس نے ان کی جگہ لے لی۔ایلون مسک اب صدر ٹرمپ کی حمایت سے امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کو بند کرنے جارہے ہیں۔ اتوار کو انہوں نے کہا کہ ہم یو ایس ایڈ کے فنڈز ضائع کر رہے ہیں۔انہوں نے کئی ایک حکومتی ایجنسیز کو بھی نشانہ بنایا۔ وہ کئی حکومتی ایجنسیز اور محکموں کی نظریاتی بنیادوں پر تطہیر یا تنظیم نو کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے اقدامات کو کانگریس یا عدالتی نگرانی اور نظرثانی سے بچایا ہوا ہے۔
ایلون مسک نے یو ایس ایڈ کو ’کریمنل ادارہ‘ قرار دیا ہے۔ (فوٹو : گیٹی امیجز)
ایلون مسک نے کئی اقدامات بغیر کسی پیشگی اطلاع اور شفافیت کے اٹھائے ہیں جس کے سبب مذکورہ ایجنسیز میں افراتفری اور کنفیوژن کا دور دورہ ہے۔
امریکی امداد پر انحصار کرنے والے کئی انسانی امداد کے اداروں نے اپنے آپریشنز بند اور سٹاف کو فارغ کر دیا ہے۔ایلون مسک نے یو ایس ایڈ کو بغیر کسی ثبوت کے ایک ’کریمنل ادارہ‘ قرار دیا ہے۔ایلون مسک اعلان کر چکے ہیں کہ ان کی ٹیم کی مخالفت کرنے والوں کو سزا دی جائے گی۔ نیویارک سے ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر چک شومر نے لکھا کہ ’ایک غیرمنتخب شیڈو حکومت مرکزی حکومت کو معاندانہ طور پر کنٹرول کر رہی ہے۔ ڈوج حقیقی طور پر کوئی حکومتی ایجنسی نہیں۔ ڈوج کے پاس امریکی حکومت کے پروگرام کو بند کرنے یا قوانین کو نظرانداز کرنے کے اختیارات نہیں۔‘ایلون مسک نے چک شومر کو جواب دیا کہ ان کا ردعمل جنونی انداز (ہسٹریکل) کا ہے۔دوسرے ڈیموکریٹس اور حکومت کی نگرانی کرنے والے گروپوں کی جانب سے ڈوج کے اقدامات پر تنقید کے باوجود ایکس اور ٹیسلا کے مالک نے اپنے متنازع اقدامات جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں ایسا موقع پھر نہیں ملنے والا ہے۔‘صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھاتے ہی فوراً ایلون مسک کی سربراہی میں ڈوج کے قیام کی منظوری کے لیے ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیا تھا۔ تاہم مکمل طور پر ایک نیا محمکہ قائم کرنے کے بجائے اس آرڈر کے ذریعے پہلے سے قائم ڈیجیٹل سروس کو ڈوج کا نام دے دیا گیا۔
ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کا موقف ہے کہ ایلون مسک کے اقدامات قانونی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اس محکمے کے قیام کے فوراً بعد حکومت کے احتساب کے حوالے کام کرنے والے گروپوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا تھا۔ اس اقدام کے خلاف عدالتوں میں چار کسیز دائر کیے گئے ہیں جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ یہ اقدام مرکزی حکومت کے شفافیت سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
ٹرمپ کی ٹیم کو روکنے کی کوششوں کا نتیجہ مختلف ایجنسیوں کے اعلیٰ عہدیداروں کی سبکدوشی کی صورت میں نکلا ہے۔گذشتہ جمعے کو ٹریژری ڈیپارٹمنٹ کے ایکٹنگ سیکریٹری ڈیوڈ لیبریاک نے ایلون مسک کی ٹیم کو امریکیوں کو ادا کیے گئے کھربوں ڈالرز کے محفوظ ریکارڈ تک رسائی دینے سے انکار کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا۔اس کے اگلے دن دو سینیئر یو ایس ایڈ کے افسران نے ڈوج کے اہلکاروں کی ایجنسی کے ممنوعہ حصے تک جسمانی رسائی روکنے کی کوشش کی جس کے بعد دونوں اداروں کے اہلکاروں کے درمیان جھگڑا ہوا۔ اس پر مسک کے ایک ڈپٹی نے قانون نافذ کرنے والے مارشل سروسز کے اہلکاروں کو بلانے کی دھمکی دی۔بعد میں یو ایس ایڈ کے دونوں عہدیداروں کو معطل کیا گیا اور اتوار کو تمام یو ایس ایڈ کے ملازمین کو ای میلز موصول ہوئیں کہ اگلے دن آفس نہ آئیں۔ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کا موقف ہے کہ ایلون مسک کے اقدامات قانونی ہیں اور ان سے کسی سکیورٹی پروٹوکول کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ایلون مسک کا کہنا ہے کہ ان کے اقدامات غیر ضروری حکومتی اخراجات کو کم کرنے کے لیے ہیں اور ان سے حکومتی کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔صدر ٹرمپ نے حکومتی ایجنسیز کو ختم کرنے کی ایلون مسک کے جارحانہ اقدامات کی حمایت کی ہے۔ پیر کو ٹرمپ نے یو ایس ایڈ کو بند کرنے کے منصوبے کی تصدیق کرتے ہوئے ایلون مسک کو ’ بڑا اخراجات کم کرنے والا‘ ( big cost cutter) قراد دیا۔ایلون مسک کے اقدامات پر ردعمل میں اضافہ ہورہا ہے اور ڈیموکریٹس نے پیر کو مسک کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کر دیا۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’ایلون میری اجازت کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا اور وہ کچھ نہیں کرے گا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
ٹرمپ نے ایلون مسک کے بہت زیادہ بڑھتے اثر و رسوخ کے حوالے سے خدشات کو کم کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ وہ ہی (ٹرمپ) حکومت کے سربراہ ہیں۔
صدر ٹرمپ نے اوول آفس میں کہا کہ ’ایلون میری اجازت کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا اور وہ کچھ نہیں کرے گا۔‘’جہاں مناسب سمجھیں گے ہم ان کو اجازت دیں گے اور جہاں نامناسب سمجھیں گے تو ان کو اجازت نہیں ملے گی۔‘تاہم اب تک کوئی ایسا عندیہ نہیں ملا ہے کہ ٹرمپ نے ایلون مسک کو کسی بھی حوالے سے روکا یا انہیں تنازعات میں پڑنے سے منع کیا ہے۔صدر ٹرمپ کے حالیہ کئی پالیسی اعلانات نہ صرف ایلون مسک کے ورلڈ ویو کے مطابق ہیں بلکہ ان کی ذاتی شکایات پر بھی کیے گئے ہیں۔مذکورہ اقدامات کے ساتھ ساتھ ایلون مسک نے عندیہ دیا کہ آنے والے دنوں میں امریکی حکومت اداروں میں مزید کیا کچھ بند ہونے والا ہے یا تبدیلیاں آنی چاہییں۔ایلون مسک نے پیر کو کہا کہ ’ایکٹوسٹ ججوں کو بینچ سے ہٹانا چاہیے یا جہاں انصاف نہیں ہو رہا وہاں سے ججوں کو ہٹانا چاہیے۔‘