بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں ہزاروں مظاہرین نے سابق وزیراعظم حسینہ واجد کے آبائی گھر پر حملہ کر کے جلا دیا جو ان کے والد اور ملک کے بانی شیخ مجیب الرحمان کے دور میں بنایا گیا تھا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق چند ماہ پیشتر شورش کے نتیجے میں حکومت کھونے والی وزیراعظم حسینہ واجد کی ایک تقریر گزشتہ روز بدھ کو سوشل میڈیا پر سامنے آئی جس میں انہوں نے اپنے حامیوں سے کہا کہ وہ عبوری حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
اسی دوران طلبا مظاہرین شیخ حسینہ کے تاریخی گھر اور آزادی کی یادگار کے قریب جمع ہونا شروع ہو گئے جنہوں نے لاٹھیاں، ہتھوڑے اور دوسرے اوزار اٹھا رکھے تھے۔ چند مظاہرین عمارت کو گرانے کے لیے کرین اور ایکسکویٹر بھی ساتھ لے آئے۔
شیخ حسینہ نے بدھ کی رات 9 بجے آن لائن خطاب کرنا تھا جس میں خلل پیدا کرنے کے لیے ریلی نکالی گئی۔ جبکہ اس کے ساتھ ہی ’بلڈوزر جلوس‘ کے نام سے بڑے پیمانے پر احتجاج کی کال دی گئی تھی۔
مظاہرے میں بڑی تعداد میں طلبا بھی شامل تھے اور انہوں نے حسینہ واجد کی تقریر پر انتہائی سخت ردعمل کا اظہار کیا اور اس کو نئی عبوردی حکومت کے لیے ایک ممکنہ مشکل کے طور پر دیکھا۔
بنگلہ دیش میں اگست 2024 سے شورش پائی جاتی ہے جب ملک میں بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے بعد وزیراعظم اقتدار اور ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئیں اور پڑوسی ملک انڈیا میں پناہ لی۔
موجودہ عبوری حکومت کی قیادت کرنے والے نوبیل انعام یافتہ محمد یونس صورت حال کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم ملک میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
اگست 2024 میں احتجاجی تحریک کے نتیجے میں حسینہ واجد کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
اس سے قبل بھی مظاہرین حسینہ واجد کے دور حکومت کی اہم نشانیوں پر حملے کر چکے ہیں، جن میں شیخ مجیب الرحمان کا گھر بھی شامل تھا، جس کا کچھ حصہ اگست میں جلا دیا گیا تھا۔
ملک کے قیام کی علامت یہ وہی گھر تھا جہاں سے دسمبر 1971 میں پاکستان سے علیحدگی اور آزادی کا اعلان کیا گیا تھا۔
چار سال بعد ہی یہ گھر ایک بڑے غم سے اس وقت دوچار ہوا جب 1975 میں شیخ مجیب الرحمان اور زیادہ تر رشتہ داروں کو قتل کر دیا گیا تھا۔
اس واقعے میں بچ جانے والی ان کی بیٹی حسینہ واجد نے بعدازاں اس عمارت کو میوزیم میں تبدیل کر دیا تھا۔
حسینہ واجد نے بدھ کو اپنی تقریر میں کہا کہ ’وہ عمارت کو منہدم کر سکتے ہیں مگر تاریخ کو نہیں۔ تاریخ اپنا انتقام لیتی ہے۔‘
انہوں نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ عبوری حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اس پر غیرآئینی طور پر اقتدار حاصل کرنے کا الزام لگایا۔
احتجاج کے پیچھے کارفرما طلبا کی تحریک نے ملک کے 1972 کے آئین کو ختم کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ حسینہ واجد کے والد کی میراث ہے۔