بنگلہ دیش نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے حامیوں کے خلاف اتوار کو ’آپریشن ڈیول ہنٹ‘ شروع کر دیا ہے۔فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق حکومت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ آپریشن اُس وقت شروع ہوا جب ’معزول آمرانہ حکومت سے منسلک گینگ نے طلباء کے گروپ پر حملہ کیا جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے۔‘
عبوری حکومت میں وزارتِ داخلہ کے سربراہ جہانگیر عالم چودھری جنہوں نے اگست 2024 میں حسینہ واجد کی معزولی کے بعد اقتدار سنبھالا تھا، نے اسے ’آپریشن ڈیول ہنٹ‘ کا نام دیا ہے۔
انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’یہ (آپریشن) اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہم شیطانوں کو جڑ سے ختم نہیں کر دیتے۔‘
یاد رہے کہ چند ماہ پیشتر شورش کے نتیجے میں حکومت کھونے والی وزیراعظم حسینہ واجد کی ایک تقریر بدھ کو سوشل میڈیا پر سامنے آئی تھی جس میں انہوں نے اپنے حامیوں سے کہا کہ وہ عبوری حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
سابق وزیراعظم کے خطاب سے پہلے ڈھاکہ میں ہزاروں مظاہرین جمع ہوئے اور شیخ حسینہ کے آبائی گھر پر حملہ کر کے اسے جلا دیا جو ان کے والد اور ملک کے بانی شیخ مجیب الرحمان کے دور میں بنایا گیا تھا۔بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس کے پریس آفس نے جمعرات کو کہا تھا کہ مجیب الرحمان کی رہائش گاہ پر حملہ حسینہ واجد کے ’پُرتشدد رویے‘ کا ردّعمل ہے۔بعدازاں جمعے کو محمد یونس نے بھی پُرامن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’قانون کی حکمرانی کا احترام وہ چیز ہے جو نئے بنگلہ دیش جس کی تعمیر کے لیے ہم کوشاں ہیں، کو فاشسٹ حکومت کے پرانے بنگلہ دیش سے مختلف بناتی ہے۔‘بنگلہ دیش میں اگست 2024 سے شورش جاری ہے جب ملک میں بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے بعد وزیراعظم اقتدار اور ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئیں اور پڑوسی ملک انڈیا میں پناہ لی۔
موجودہ عبوری حکومت کی قیادت کرنے والے نوبیل انعام یافتہ محمد یونس صورت حال کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم ملک میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔