زیلنسکی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ، ’میری جگہ لینا آسان نہیں ہو گا‘

image

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ اگرچہ صدر کی حیثیت سے ان کی جگہ لینا آسان نہیں ہو گا تاہم وہ نیٹو کی رکنیت کے بدلے مستعفی ہونے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے لندن میں میڈیا سے گفتگو میں اس پیشکش کو دہرایا جو وہ پہلے بھی کر چکے ہیں۔

وائٹ ہاؤس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ میڈیا کے سامنے ملاقات میں تلخ کے بعد ریپبلکنز کی جانب سے یہ تجویز دی گئی تھی کہ ان کو استعفیٰ دینا چاہیے۔

یہ ملاقات جمعے کو اوول آفس میں ہوئی، جس میں روس اور یوکرین کی جنگ کے حوالے سے گفتگو ہونا تھی۔

ولادیمیر زیلنسکی نے برطانوی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں اگر وہ میری جگہ کسی اور کو دیتے ہیں تو یہ سادہ یا آسان نہیں ہو گا۔

’یہ صرف ایک الیکشن تک محدود نہیں ہو گا، آپ کو مجھے جانے نہیں دینا چاہیے، ایسا کچھ مشکل ہو گا اور ایسا لگ رہا ہے کہ آپ کو مجھ سے ہی بات کرنا پڑے گی۔‘

انہوں نے ایک بار پھر دُہرایا کہ ’میرا یہ کہنا کہ میں نیٹو کے بدلے میں مستعفی ہونے کو تیار ہوں، تو اس سے میرا مشن پورا ہو گیا۔‘

اوول آفس میں امریکی صدر کے ساتھ تلخی کے بعد ولادیمیر زیلنسکی یوکرین کے معدنی ذخائر کے حقوق کے حوالے سے معاہدے پر دستخط کیے بغیر ہی وائٹ ہاؤس چھوڑ گئے تھے۔

تاہم اس کے بعد یورپی رہنما یوکرین کی حمایت میں جمع ہو گئے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے تلخ کلامی کے بعد یوکرین کے معدنیات کے حوالے سے معاہدہ پر دستخط نہ ہو پائے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

ریپبلکنز کے عہدیدار اتوار کو نیوز پروگراموں میں یہ سوال اٹھاتے دیکھے گئے کہ کیا زیلنسکی کی موجودگی میں روس کے ساتھ کوئی معاہدہ انجام پا سکتا ہے۔

قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹرز نے سی این این کو بتایا کہ ’ہمیں ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو ہمارے ساتھ ڈیل کر سکے اور آگے چل کر روس کو ڈیل کرے اور اس جنگ کا خاتمہ ختم کر سکے۔‘

ان کے مطابق ’اگر ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ زیلنسکی کے ذاتی یا سیاسی خیالات لڑائی ختم کرنے کے علاوہ کچھ اور ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں ایک بڑا مسئلہ درپیش ہے۔‘

ریپبلکنز سے ہی تعلق رکھنے والے ایوان نمائندگان کے سپیکر مائیک جانسن کی جانب سے بھی سوال اٹھایا گیا ہے کہ آیا زیلنسکی اس کام کے لیے موزوں ہیں؟

ان کے مطابق ’انہیں اپنے حواس میں واپس آنے اور شکریے کے ساتھ ٹیبل پر لوٹنے کی ضرورت ہے یا پھر کسی اور ملک کی قیادت کرنے کی ضرورت ہے۔‘

دوسری جانب ڈیموکریٹس کی جانب سے جمعے کو وائٹ ہاؤس میں بننے والی صورت حال پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ روس کو گلے لگانے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔

زیلنسکی جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والی کسی بھی ڈیل میں یوکرین کو نیٹو کی رکنیت دینے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں تاہم واشنگٹن کی قیادت اس کو تسلیم کرنے سے گریزاں رہی ہے۔

فرانس اور برطانیہ کی یوکرین میں ایک ماہ کی جنگ بندی کی تجویز

فرانس کے صدر ایمانوئل میکخواں نے کہا ہے کہ فرانس اور برطانیہ یوکرین میں ایک ماہ کی جنگ بندی کی تجویز پیش کرنے جا رہے ہیں۔

لندن میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں یورپی رہنماؤں نے یوکرین کا ساتھ دینے کا عزم ظاہر کیا (فوٹو: اے ایف پی)

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدر میکخواں نے فرانسیسی اخبار لی فگارو کو انٹرویو میں انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ امریکہ کی ترجیحات کی تبدیلی کے بعد یورپی ممالک کو اپنے دفاعی اخراجات کو بڑھانا چاہیے اور اس پر جی ڈی پی کا تین سے ساڑھے تین فیصد تک خرچ کرنا چاہیے۔

ان کے مطابق ’روس نے تین سال تک اپنے جی ڈی پی کا دس فیصد دفاع پر خرچ کیا، اس لیے ہم کو بھی آنے والے وقت کے تیار ہونا ہے۔‘

صدر میکخواں کی جانب سے اس تجویز کا اعلان ایسے وقت میں کیا گیا جب وہ اتوار کو لندن میں سربراہی اجلاس کے بعد وطن واپس پہنچے۔

اس سربراہی اجلاس میں یورپی یونین کے رہنماؤں نے کیئف کی حمایت پر اتفاق کیا اور دفاع پر زیادہ خرچ کرنے اور یوکرین میں جنگ بندی تک پہنچنے کا عزم ظاہر بھی کیا۔

18 اتحادیوں کو ایک صف میں لانے کا یہ موقع امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی ملاقات کے دو روز بعد سامنے آیا ہے، جس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں میڈیا پر نشر ہونے والی براہ راست گفتگو میں یوکرینی صدر کے ساتھ نامناسب رویہ اختیار کیا تھا۔

اس کے بعد برطانیہ کے وزیراعظم کیئر سٹارمر نے کہا کہ برطانیہ، فرانس اور دوسرے ممالک جنگ روکنے کے منصوبے پر یوکرین کے ساتھ مل کر کام کریں گے اور یہ منصوبہ واشنگٹن کو بھی پیش کی جائے گا۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.