شام کے ساحلی شہر بانیاس میں علوی اکثریتی القصیر کے علاقے کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ سڑکوں پر ہر طرف خون میں لت پت لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ یہاں بچوں، خواتین اور نہتے لوگوں کو بھی ہلاک کیا گیا ہے۔
شام کے ساحلی شہر بانیاس میں علوی اکثریتی القصیر کے علاقے کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ سڑکوں پر ہر جانب خون میں لت پت لاشیں بکھری پڑی تھیں۔شام کی عبوری حکومت نے اتوار کو اس وقت عوام کو متحد رہنے کی اپیل کی جب ملک کے سابق سربراہ بشارالاسد کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں میں تشدد اور ہلاکتوں کے واقعات پھوٹ پڑے۔
اطلاعات کے مطابق شام کے ساحلی شہروں لازقیہ اور طرطوس کے ان علاقوں سے سینکڑوں لوگ اپنے گھر چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں اور لوٹ مار ہوئی۔ ان کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں بچے، خواتین اور نہتے لوگ بھی شامل تھے۔
شام کے ساحلی شہر بانیاس میں علوی اکثریتی القصیر کے علاقے کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ سڑکوں پر ہر جانب خون میں لت پت لاشیں بکھری پڑی تھیں۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ یہاں بچوں، خواتین اور نہتے لوگوں کو بھی بے دردی سے ہلاک کیا گیا۔
شام کے سابق صدر بشارالاسد بھی علوی کمیونٹی سے ہی تعلق رکھتے تھے جو ملک کی آبادی کا دس فیصد بنتی ہے۔ یہ گروپ اہل تشیع کا ہی ایک فرقہ ہے۔ شام کی اکثریتی آبادی سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
لوگ اتنے خوفزدہ تھے کہ وہ اپنے گھروں کی کھڑکیوں سے بھی باہر نہیں دیکھ رہے تھے۔ انٹرنیٹ کی سروسز معطل تھیں مگر جیسے ہی یہ بحال ہوئیں تو لوگوں کو اس بارے میں پتہ چلا کے فسادات کے دوران اُن کے پڑوسی بھی مارے گئے ہیں۔
ایمن فارس نامی ایک شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ حالیہ دنوں میں ہی جیل سے رہا ہو کر آئے ہیں۔ ان کے مطابق انھوں نے اگست 2023 میں فیس بک پر ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں انھوں نے اس وقت شام کے حکمران بشارالاسد پر تنقید کرتے ہوئے انھیں ایک بدعنوان حکمران قرار دیا تھا۔
ان کے مطابق اس ویڈیو پوسٹ کرنے کے فوراً بعد انھیں گرفتار کر لیا گیا تھا اور پھر جب گذشتہ برس دسمبر میں بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو انھیں رہائی ملی۔
القصیر کے علاقے میں جن جنگجوؤں نے دھاوا بولا تھا انھوں نے ایمن فارس کو پہچان لیا اور انھیں قتل نہیں کیا مگر ان کا سامان لوٹ لیا۔ وہ ایمن کی گاڑیاں ساتھ لے گئے اور دیگر گھروں پر بھی انھوں نے چھاپے مارے۔
ایمن فارس نے فون پر بتایا کہ ’وہ اجنبی لوگ تھے، مجھے ان کی شناخت اور زبان کے بارے میں کچھ علم نہیں مگر بظاہر وہ ازبک او چیچن لگ رہے تھے۔‘ ان کے مطابق ’ان جنگجوؤں کے ہمراہ کچھ شامی بھی تھے مگر وہ شامی فوج کے لوگ نہیں تھے۔ لوگوں کو قتل کرنے والے کچھ سویلین بھی ان شدت پسندوں کے ساتھ آئے تھے۔‘
برطانیہ میں مقیم سریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق لازقیہ، جبلہ اور بانیاس میں 740 عام شہری مارے گئے ہیں۔ بشارالاسد دور کے 300 سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی ان جھڑپوں میں مارے گئے ہیں۔ایمن فارس کا کہنا ہے کہ انھوں نے لوگوں کو ان کے گھروں میں قتل ہوتے دیکھا ہے۔ ان کے مطابق ’بچے اور خواتین بھی خون میں لت پت تھیں۔‘ ان کے مطابق کچھ خاندان اپنے گھروں کی چھتوں پر بھاگ کر چلے گئے مگر پھر بھی ان کی جان بخشی نہ ہو سکی۔ ان کے مطابق ’یہ سب بہت ہی وحشت ناک تھا۔‘
برطانیہ میں مقیم سریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق لازقیہ، جبلہ اور بانیاس میں 740 عام شہری مارے گئے ہیں۔ بشارالاسد دور کے 300 سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی ان جھڑپوں میں مارے گئے ہیں۔
بی بی سی آزادانہ طور پر ان ہلاکتوں کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔ ایمن فارس کا کہنا ہے کہ ’جب شامی فوجی اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار بانیاس شہر میں آئے تو پھر حالات قابو میں آ گئے۔‘ ان کے مطابق ’شامی فوجیوں نے دیگر گروہوں کو اس شہر سے باہر نکال دیا اور یہاں سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کو محفوظ جگہوں تک پہنچنے کے لیے رستہ دیا۔‘
بانیاس کے ایک اور شہری علی جو اپنا پورا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے ہیں نے بھی ایمن فارس کی باتوں کی تصدیق کی ہے۔ علی اپنی اہلیہ اور 14 برس کی بیٹی کی ساتھ القصیر کے علاقے میں ہی رہ رہے تھے یہاں سے شامی فوج اور سکیورٹی فورسز کی مدد سے ہی اپنا گھر چھوڑ کر دوسرے علاقے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’وہ (شدت پسند جنجگو) ہماری بلڈنگ میں آئے۔ ہم فائرنگ اور پڑوس میں لوگوں کی چیخیں سن کر بہت خوفزدہ تھے۔‘ ان کے مطابق ’ہمیں انٹرنیٹ تک رسائی کے بعد یہ فیس بک سے پتا چلا کہ یہاں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ مگر جب وہ ہماری بلڈنگ میں آئے تھے تو ہمیں لگا کہ بس اب ہم نہیں بچیں گے اور وہ ہمیں مار دیں گے۔‘ ان کے مطابق ’وہ پیسے لینا چاہتے تھے۔ انھوں نے ہمارے پڑوسیوں کے گھر پر بھی دستک دی اور ان کے گھر سے پیسہ، سونا، کار اور دیگر قیمتی اشیا لے کر چلتے بنے۔ مگر انھیں قتل نہیں کیا۔‘
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ بشارالاسد کے دور کے سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے ہتھیار پھینکنے سے انکار کر دیا ہے اور اب وہ پہاڑوں میں مزاحمت کی تحریک چلانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔علی اور ان کے خاندان کو ان کے سنی پڑوسی خاندان نے پناہ دی۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم بلاتفریق علوی، سنی اور مسیحی کئی برسوں سے اکھٹے رہ رہے ہیں۔‘ ان کے مطابق سنی آبادی علوی کمیونٹی کو بچانے کے لیے آگے بڑھی اور اب شام کی فوج اس علاقے میں امن بحال کرنے کے لیے موجود ہیں۔‘
ہلاکتوں کے ذمہ دار شدت پسندوں کی شہر سے انخلا تک علی اور ان کے خاندان کو پڑوس میں ایک سکول میں لے جایا گیا ہے جہاں زیادہ سنی آبادی ہے۔
اس علاقے میں جمعرات سے پرتشدد کارروائیوں کا آغاز ہوا۔ یہاں بشارالاسد کے حامیوں نے ہتھیار پھینکنے سے انکار کر دیا تھا اور انھوں نے شام کے ساحلی شہروں لازقیہ اور جبلہ میں سکیورٹی فورسز پر حملہ کر دیا اور درجنوں فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔
بشارالاسد کی فوج میں شامل سابق بریگیڈیئر جنرل غايث نے موجودہ حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ شام کی آزادی کے لیے ایک ’فوجی کونسل‘ تشکیل دے رہے ہیں۔
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ بشارالاسد کے دور کے سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے ہتھیار پھینکنے سے انکار کر دیا ہے اور اب وہ پہاڑوں میں مزاحمت کی تحریک چلانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
ایمن فارس کا کہنا ہے کہ علوی کمیونٹی کی اکثریت ان سابق سکیورٹی اہلکاروں کے مؤقف سے متفق نہیں ہیں اور وہ غايث اور ان کے شدت پسند ساتھیوں کو ان ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
اس وقت شام کی 90 فیصد سے زیادہ آبادی خط غربت کے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور ہزاروں ایسے لوگ ہیں کہ جو بے روزگار ہیں تو ایسی بغاوت کے لیے یہ کافی سازگار فضا بن جاتی ہے۔کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو اس وقت ملک کے عبوری صدر احمد الشرع کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ انھوں نے ملک کی سکیورٹی، فوج اور پولیس کو بغیر کسی حکمت عملی اور وژن کے ہی ختم کر دیا اور اس سے ہزاروں اہلکار بے روزگار ہو گئے اور پھر ان کے لیے حکومت نے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے۔
ان کے مطابق بشارالاسد کے دور میں ان میں سے کچھ ایسے بھی سکیورٹی اہلکار تھے کہ جو کسی بھی قسم کی ہلاکتوں میں ملوث نہیں تھے۔ احمد الشرع کی نئی حکومت نے ہزاروں سرکاری ملازمین کو برطرف کر دیا۔
اس وقت شام کی 90 فیصد سے زیادہ آبادی خط غربت کے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور ہزاروں ایسے لوگ ہیں کہ جو بے روزگار ہیں تو ایسی بغاوت کے لیے یہ کافی سازگار فضا بن جاتی ہے۔
شام میں موجودہ حالات پر منقسم آرا پائی جاتی ہیں۔ زیادہ لوگوں نے نہتے لوگوں کی ہلاکتوں کی مذمت کی ہے اور انھوں نے ملک کے دارالخلافہ دمشق میں مظاہروں کا بھی انعقاد کیا ہے۔
گذشتہ دو دنوں میں شام کے مختلف علاقوں سے جہاد کے لیے بھی اعلانات کیے گئے۔ بانیاس کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ یہاں مسلح جنگجوؤں کے ساتھ سویلین نے بھی ہتھیار اٹھا کر ہلاکتوں میں حصہ لیا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ بشارالاسد حکومت کے دوران علوی سکیورٹی اہلکار ہزاروں شامیوں کے قتل اور تشدد میں ملوث تھے، جن میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے۔شام کی اکثریتی سنی آبادی کو گذشتہ 13 برس میں بشارالاسد حکومت کی افواج کے ہاتھوں مظالم کا سامنا ہے۔ اس صورتحال نے بنیادی طور پر علوی اقلیت کے خلاف فرقہ وارانہ نفرت کو ہوا دی کیونکہ اس کمیونٹی کے متعدد لوگوں کو جنگی جرائم میں ملوث ہیں۔
انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ بشارالاسد حکومت کے دوران علوی سکیورٹی اہلکار ہزاروں شامیوں کے قتل اور تشدد میں ملوث تھے، جن میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے۔
فوج اور سیکورٹی فورسز کے جو لوگ مارے گئے ان میں زیادہ تر کا تعلق سنی برادری سے ہے اور اب سنی برادری کے کچھ لوگ جوابی کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن صدر نے عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔
احمد الشرع جن اسلامی قوتوں کی مدد سے اقتدار میں آئے تھے ان میں سے کچھ دھڑے واضح طور پر ان کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ ان دھڑوں میں بنیاد پرست اسلام پسند ایجنڈے کے حامل غیر ملکی جنگجو بھی شامل ہیں۔
شام کو ایک محفوظ اور جمہوری مستقبل کی طرف لے جانے کے لیے، بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ احمد الشرع کو کسی بھی غیر ملکی جنگجو کی موجودگی کو ختم کرنے اور ایک ایسا آئین پیش کرنے کی ضرورت ہے جو تمام شامیوں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہو، چاہے ان کا پس منظر یا مذہب کچھ بھی ہو۔
نئے آئین اور نظام کو متعارف کرانے سے قبل شام کے عبوری صدر کے لیے شام سے پرتشدد دھڑوں پر قابو پانا اور غیر ملکی جنگجوؤں کو نکال باہر کرنا ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔