دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں یہ واضح نہیں کیا کہ پاکستانی سفارت کار کو امریکہ میں داخلے کی اجازت کیوں نہیں ملی تاہم یہ ضرور کہا ہے کہ اس معاملے پر قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ ترکمانستان میں تعینات پاکستانی سفیر احسن وگن کو امریکی حکام کی جانب سے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نے دینے اور واپس بھیجنے کے معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
منگل کو ایک بیان میں دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ احسن وگن کسی سرکاری دورے پر امریکہ نہیں گئے تھے بلکہ یہ ان کا نجی دورہ تھا۔
دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں یہ واضح نہیں کیا کہ پاکستانی سفارت کار کو امریکہ میں داخلے کی اجازت کیوں نہیں ملی تاہم یہ ضرور کہا ہے کہ اس معاملے پر قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے۔
پاکستانی سفارت کار کو امریکہ سے ڈی پورٹ کیے جانے کا واقعہ پیر کے روز ریاست کیلیفورنیا کے دارالحکومت لاس اینجلس کے ہوائی اڈے پر پیش آیا تھا۔
بی بی سی نے اس حوالے سے مزید تفصیلات جاننے کے لیے احسن وگن سے رابطہ کرنے کی کوشش بھی کی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
احسن وگن کون ہیں؟
سندھ کے شہر نوشہروفیروز سے تعلق رکھنے والے احسن وگن سنہ 1996 میں پاکستان کی فارن سروس کا حصہ بنے۔
ابتدائی چند برس دفتر خارجہ میں فرائض انجام دینے کے بعد وہ 2000 سے 2004 تک نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں پاکستانی سفارتخانے میں سیکنڈ سیکریٹری رہے۔
احسن وگن اس سے قبل امریکہ میں بھی سفارتی فرائض انجام دے چکے ہیں۔ وہ 2006 سے 2009 تک لاس اینجلس میں پاکستانی سفارت خانے میں ڈپٹی قونصلر جنرل رہ چکے ہیں۔
وہ 2009 سے 2013 تک عمان میں پاکستان کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن رہے۔ سنہ 2015 سے 2019 تک احسن وگن نائجر میں پاکستانی سفارتخانے کے ’ہیڈ آف مشن‘ رہ چکے ہیں۔
اس کے بعد وہ سنہ 2019 سے 2022 تک مسقط میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔ وہ 2022 کے بعد اسلام آباد میں دفتر خارجہ میں ڈی جی اوورسیز پاکستانیز، قونصلر افیئرز اور کرائسسز مینجمنٹ یونٹ میں فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔
’ایک سفارت کار کو واپس بھیجنا غیر معمولی واقعہ ہے‘
واشنگٹن میں پاکستان کی سابق سفیر عابدہ حسین نے کہا کہ یہ ایک غیرمعمولی واقعہ ہے کہ ایک سفارت کار کو مکمل دستاویزات کے باوجود داخلے کی اجازت نہ مل سکے۔
بی بی سی کی طرف سے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ جب کوئی سفارت کار نجی دورے پر بھی جاتا ہے تو وہ وزارت خارجہ سے اجازت لے کر جاتا ہے۔
ان کے مطابق کسی بھی ملک میں کوئی سفیر یا سفارت کار وہ سٹیشن چھوڑے گا تو اس کی پیشگی اطلاع وزات خارجہ کو کرے گا۔ ان کے مطابق سالانہ چھٹیوں تک کی بھی معلومات دینا ہوتی ہیں کہ اس دوران کوئی سفارت کار کہاں یہ چھٹیاں گزارے گا یا گزارے گی۔
دفتر خارجہ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ سفارت کار جب سرکاری دورے پر جاتے ہیں تو پھر انھیں پروٹوکول ملتا ہے وگرنہ اسے سفارتی پروٹوکول نہیں دیا جاتا۔
ان کے مطابق اس طرح کسی سفارت کار کو روکنے کا مطلب ہے کہ کوئی ’ریڈ فلیگ‘ ضرور ہے، جس کی ابھی وزارت خارجہ تحقیقات کر رہی ہے۔
ان کے مطابق ویزے کے باوجود امیگریشن آفیسر کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دے یا نہ دے۔
امریکی سفری پاپندیوں والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا بھی امکان
احسن وگن کا واقعہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ امریکی سفری پابندی میں ممکنہ طور پر شامل ممالک میں پاکستان بھی شامل ہو گا۔ اگرچہ ابھی تک اس حوالے سے کوئی سرکاری اعلان نہیں ہوا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے ذرائع سے یہ خبر شائع کی تھی کہ پاکستان اس فہرست میں شامل ہے۔
اس خبر کے مطابق اس فہرست میں جن دیگر ممالک پر امریکہ کے سفر کرنے پر پابندی لگائی جائے گی، ان میں ممکنہ طور پر افغانستان، عراق، ایران، لبنان، لیبیا، فلسطین، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن شامل ہیں۔

دہشتگردی کے خطرات کے سبب پاکستان سفر کرنے پر نظرِثانی کریں، امریکہ کی اپنے شہریوں کو تجویز
امریکی محکمہ خارجہ نے حال ہی میں اپنے شہریوں کو پاکستان کا سفر کرنے پر نظرِثانی کرنے کی تجویز دی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے بیورو آف قونصلر افیئرز کی جانب سے 8 مارچ کو جاری کی گئی ٹریول ایڈوائزری میں کہا گیا کہ امریکی شہری ’دہشتگردی‘ کے خطرات کے پیشِ نظر بلوچستان اور خیبر پختونخوا کا سفر نہ کریں۔
اس ٹریول ایڈوائزری میں امریکی شہریوں کو لائن آف کنٹرول کے اطراف انڈیا اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں جانے سے بھی منع کیا گیا۔
امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے یہ ٹریول ایڈوائزری ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب گذشتہ ہفتے صدر ڈوبلڈ ٹرمپ نے سنہ 2021 میں کابل ایئرپورٹ پر امریکی فوجیوں پر ہونے والے خودکش حملے کے ایک منصوبہ ساز کی گرفتاری میں مدد کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا تھا۔
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے منگل کو محکمہ دفاع کے ایک سینیئر اہلکار نے بی بی سی کے پارٹنر ادارے سی بی ایس نیوز کو بتایا تھا کہ شریف اللہ کو تقریباً دس روز قبل پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے ایک مشترکہ کارروائی میں گرفتار کیا تھا۔