آرمی چیف کا پاکستان کو ’ہارڈ سٹیٹ‘ بنانے کا بیان: ’طاقت کے زور پر مسائل حل کرنے کی پالیسی اختیار کر لی گئی ہے‘

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری آرمی چیف کے بیان میں کہا گیا تھا کہ ’ہمیں بہتر گورننس کے ساتھ پاکستان کو ایک ہارڈ سٹیٹ بنانے کی ضرورت ہے، ہم کب تک سافٹ سٹیٹ کی طرز پر بے پناہ جانوں کی قربانی دیتے رہیں گے۔‘

پاکستان میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے ایک نئے عزم اور ولولے کا اعلان کیا ہو۔ منگل کے دن بھی پاکستان میں دہشتگردی کے بڑھتے واقعات کا جائزہ لینے کے لیے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس ہوا، جس میں ’نیشنل ایکشن پلان اور عزم استحکام کی حکمتِ عملی پر فوری عمل درآمد پر زور دیا گیا ہے۔‘

قومی اسمبلی کے سپیکر کی زیر صدارت اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف، پارلیمانی کمیٹی کے ارکان، سیاسی قائدین، آرمی چیف جنرل عاصم منیر، اہم وفاقی وزرا اور فوج اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کمیٹی نے ریاست کی پوری طاقت کے ساتھ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے سٹریٹجک اور متفقہ سیاسی عزم پر زور دیتے ہوئے انسداد دہشت گردی کے لیے قومی اتفاق کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ تاہم اس اجلاس میں تحریک انصاف سمیت چند جماعتیں شریک نہیں تھیں۔

خیال رہے کہ یہ اجلاس جعفر ایکسپریس پر عسکریت پسندوں کے حملے، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں گذشتہ دو ہفتوں کے دوران متعدد حملوں اور ہلاکتوں کے بعد منعقد ہوا ہے۔

اعلامیے کے مطابق ’کمیٹی نے پروپیگنڈا پھیلانے، اپنے پیروکاروں کو بھرتی کرنے اور حملوں کو مربوط کرنے کے لیے دہشت گرد گروہوں کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے بڑھتے ہوئے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کیا اور اس کی روک تھام کے لیے اقدامات پر زور دیا۔‘

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’کمیٹی نے دہشت گردوں کے ڈیجیٹل نیٹ ورکس کے سدباب کے لیے طریقہ کار وضع کرنے پر بھی زور دیا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ دشمن قوتوں کے ساتھ ملی بھگت سے کام کرنے والے کسی بھی ادارے، فرد یا گروہ کو پاکستان کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘

اعلامیے میں کمیٹی نے حزب اختلاف کے بعض اراکین کی عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اعادہ کیا کہ اس بارے میں مشاورت کا عمل جاری رہے گا۔

پاکستان تحریکِ انصاف اور قوم پرست جماعتوں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی جانب سے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی نے عمران خان کی پیرول پر رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔

پاکستان کو ایک ہارڈ سٹیٹ بنانا ہو گا: آرمی چیف

اس اعلامیے کے بعد فوج کے میڈیا ونگ آئی ایس پی آر کی طرف سے قومی سلامتی کے اجلاس سے آرمی چیف کے خطاب کی بھی تفصیلات شیئر کی گئیں۔

اگرچہ وزیراعظم شہباز شریف نے اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنایا تھا مگر اس میں آرمی چیف کے خطاب کی تفصیلات شامل نہیں تھیں۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری آرمی چیف کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہمیں بہتر گورننس کے ساتھ پاکستان کو ایک ہارڈ سٹیٹ بنانے کی ضرورت ہے، ہم کب تک سافٹ سٹیٹ کی طرز پر بے پناہ جانوں کی قربانی دیتے رہیں گے۔‘

آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ ’ملک کی سلامتی سے بڑا کوئی ایجنڈا نہیں، کوئی تحریک نہیں، کوئی شخصیت نہیں۔ پائیدار استحکام کے لیے قومی طاقت کہ تمام عناصر کو ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ ہماری اور ہماری آنے والی نسلوں کی بقا کی جنگ ہے۔ علما سے درخواست ہے کہ وہ خوارج کی طرف سے اسلام کی مسخ شدہ تشریح کا پردہ چاک کریں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر یہ ملک ہے تو ہم ہیں، لہٰذا ملک کی سلامتی سے بڑھ کر ہمارے لیے کوئی چیز نہیں۔ پاکستان کے تحفظ کے لیے یک زبان ہو کر اپنی سیاسی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ایک بیانیہ اپنانا ہو گا۔‘

آرمی چیف کے بیان کے مطابق ’جو سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان کو ان دہشتگردوں کے ذریعے کمزور کر سکتے ہیں آج کا دن ان کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ہم متحد ہو کر نہ صرف ان کو بلکہ ان کے تمام سہولتکاروں کو بھی ناکام کریں گے۔‘

فوج
Getty Images
انسداد دہشتگردی کے ادارے نیٹکا کے سابق سربراہ احسان غنی نے بی بی سی کو بتایا کہ حالات ایسے دکھائی دے رہے ہیں کہ یہ ’فوجی ایکشن‘ کی طرف بڑھ رہے ہیں

’اب آپریشن ہو گا‘

دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے اور آرمی چیف کے خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اب ایسا لگتا ہے کہ آپریشن ہو گا۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ ان کا تجزیہ ہی نہیں بکہ انھیں اس حوالے سے ایک پیغام بھی موصول ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’جعفر ایکسپریس پر حملے کے آلہ کاروں کے خلاف آپریشن تو ہوگا۔‘

اعجاز اعوان نے کہا کہ ابھی یہ تفصیلات آنا باقی ہیں کہ یہ آپریشن کس طرح ہو گا اور اس میں کون کون سی فورسز کی شرکت ہو گی۔

عزم استحکام کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ایک ایسی صورتحال تو بنی ہوئی ہے کہ انٹیلیجنس بیسڈ کئی آپریشن ابھی ہوں گے۔‘

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’اس وقت اہم بات یہ نہیں ہے کہ انتخابی عمل کتنا شفاف ہے بلکہ ابھی یہ دیکھنا ہو گا کہ عوام میں اس کی مقبولیت کتنی ہے۔‘ ان کی رائے میں عوام میں مقبولیت کے بغیر کسی بھی آپریشن کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اعجاز اعوان کے مطابق وہ سوات میں فوجی آپریشن کا حصہ تھے اور اس وقت عوام کی اتنی حمایت حاصل تھی کہ 22 لاکھ لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر راضی ہوئے اور پھر ’چھ ہفتوں میں ہم نے ملاکنڈ کے آٹھ اضلاع میں فوجی آپریشن کر کے شدت پسندوں کا قلع قمع کر دیا تھا۔‘

انسداد دہشتگردی کے ادارے نیٹکا کے سابق سربراہ احسان غنی نے بی بی سی کو بتایا کہ حالات ایسے دکھائی دے رہے ہیں کہ یہ ’فوجی ایکشن‘ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

ان کی رائے میں ’اس بار انھوں نے اعلامیے میں زیادہ واضح نہیں لکھا جس سے لگتا ہے کہ وہ اس بار خاموشی سے یہ سب کرنا چاہتے ہیں تاکہ عزم استحکام آپریشن کی طرح کا زیادہ شور شرابہ نہ مچے۔‘

’ہارڈ سٹیٹ کا مطلب ہے کہ یہ پالیسی اب طویل عرصے تک رہے گی‘

احسان غنی کا کہنا ہے کہ ’ہارڈ سٹیٹ کی اصطلاح سے تو یہی پتا چلتا ہے کہ اب سافٹ آپشن کی جگہ نہیں رہی اور طاقت کے زور پر مسائل کے حل کی پالیسی اختیار کر لی گئی ہے اور یہ طویل عرصے تک اب ایک ایسی ہی پالیسی چلتی رہے گی۔‘

ان کی رائے میں ’یہ غلط پالیسی ہوگی کیونکہ آپ طاقت سے تو ایسے مسائل کا حل نہیں نکال سکتے ہیں کیونکہ اس طرح زیادہ سے زیادہ آپ کچھ لوگوں کو مار دیں گے۔ مگر سوال اپنی جگہ ہی رہے گا کہ آگے کیا ہوگا؟‘

احسان غنی کی رائے میں ’پہلے سافٹ انٹروینشن کی ضرورت ہے اور ترجیح اعتماد بحالی اقدامات کو دی جائے۔‘ ان کے مطابق اس وقت بلوچوں کو ریاست پر اعتماد نہیں رہا ہے۔

میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان اس نکتے پر احسان غنی کی رائے سے متفق نہیں ہیں۔ ان کی رائے میں بلوچستان میں ’بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ریاست کے خلاف ہیں مگر اکثریت ریاست کے ساتھ چلنے کی حامی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ایک کمیشن بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ایک ہی بار جس نے جو انکشاف کرنا ہے وہ کر لے اور بات آگے بڑھے۔‘ ان کی رائے میں ’سیاسی قیادت کو بھی اپنی نااہلی تسلیم کرنا ہوگی کیونکہ ایک بھائی بی ایل اے کا سربراہ ہوتا ہے تو دوسرا رکن اسمبلی بن کر تنقید کر رہا ہوتا ہے۔‘

احسان غنی کے مطابق ’ہمیں پہلے اپنا بیانیہ تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ ابھی تک ہم نے وہی سوچ اختیار کی ہوئی ہے جو آبپارہ اور راولپنڈی کو تو سمجھ آتی ہے مگر ملک میں بلوچ اور عام نوجوان کی سمجھ میں وہ بات نہیں آتی ہے۔‘

ان کے مطابق ’اس وقت ملک میں چھ طرح کے تو سکیورٹی کے ادارے موجود ہیں اور یہ سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ کس نے کیا کام کرنا ہے۔‘

احسان غنی کے مطابق ’من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے ملک سے سیاسی انجنیئرنگ سے گورننس کے ماڈل متعارف کرنا بند کرنا ہوں گے ورنہ یہ ایسے ہی چلے گا۔‘

’ہم کئی دہائیوں بعد بھی پوائنٹ زیرو پر ہی کھڑے ہیں‘

قائد اعظم یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر اشتیاق احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم کئی دہائیوں بعد بھی پوائنٹ زیرو پر ہی کھڑے ہیں۔‘

ان کی رائے میں ’تین دہائیوں سے ہم مذہبی شدت پسندی سے لڑ رہے ہیں جبکہ دو دہائیوں سے ہمارا واسطہ نسلی علیحدگی پسندوں سے ہے اور اب نیشنل ایکشن پلان بنائے ہوئے بھی ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ ابھی تک ہم اس جانب ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔‘ ان کے مطابق اس بار کی منصوبہ بندی کے ساتھ بھی وہی ہوگا کہ جو ماضی میں ہوتا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ہماری بحث یہی ہے کہ اب ہم نے ہارڈ پالیسی کی طرف جانا ہے یا سافٹ حکمت عملی کو اختیار کرنا ہے۔‘

اشتیاق احمد کے مطابق ’ہم تین دہائیوں سے یہ باتیں سن رہے ہیں جو آج قومی سلامتی کے اعلامیے اور آرمی چیف کے خطاب میں سننے کو ملی ہیں۔ اب سوال یہی ہے کہ ان باتوں کی عملی شکلی کہاں ہے؟‘

ان کے مطابق ’دہشتگردی کا خاتمہ فوج تو نہیں کر سکتی یہ تو پولیس کے کرنے کے کام ہیں کیونکہ ان کا عوام سے براہ راست رابطہ بھی ہوتا ہے اور انسانی وسائل بھی ان کے پاس بہتر دستیاب ہوتے ہیں۔‘ ان کی رائے میں وقتاً فوقتاً ہونے والے فوجی آپریشن میں دہشتگردی کے نیٹ ورک کمزور پڑ جاتے ہیں مگر پھر وہ کچھ عرصے بعد کسی نہ کسی صورت سر اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔

وہ احسان غنی کی رائے سے متفق ہیں کہ ریاست کو اپنا بیانیہ بدلنے کی ضرورت ہے اور ایسا نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ جہاں ریاست خود پہلے مذہب کے کٹہرے سے باہر نکلے اور مذہبی شدت پسند گروہوں کے لیے سازگار ماحول ہی فراہم نہ کرے۔

اشتیاق احمد کے مطابق ’ہم بات تو ہارڈ سٹیٹ کی کرتے ہیں مگر گذشتہ پانچ برسوں میں ہمارے ملک کے اندر انڈیا آ کر قتل و غارت گری کر کے چلا جاتا ہے اور ہم کچھ نہیں کر پا رہے ہیں۔‘ ان کی رائے میں ’اس وقت ہمارے اندر عزم، ارادے اور صلاحیت کی کمی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’عالمی سطح پر بھی ہماری ساکھ مجروح ہوئی ہے اور اب ہم دنیا میں تنہا ہوتے جا رہے ہیں یہاں تک کہ ہمارے چین جیسے پڑوسی بھی اب ہم پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ ہم ان کے شہریوں کو بھی سکیورٹی فراہم نہ کر سکے۔‘

ان کے مطابق تحریک انصاف سمیت سیاسی جماعتوں کو قومی مفاد پر سیاست ختم کرنا ہوگی۔ تاہم ان کے مطابق ’اس وقت پوری ریاست اور حکومت کا زور تحریک انصاف پر ہے اور کسی دوسری طرف ان کا دھیان جا ہی نہیں رہا ہے۔‘

اشتیاق احمد کے مطابق نیشنل ایکشن پلان میں سب کچھ تو شامل ہے مگر بات یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔

ریٹائرڈ میجر جنرل اعجاز اعوان بھی پروفیسر اشتیاق احمد کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر کسی نے عملدرآمد نہیں کیا ہے۔

ان کی رائے میں اس پلان پر نہ پہلے عمل ہوا ہے اور نہ آگے ہوگا۔ ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ جب تک ’پولٹیکل وِل‘ یعنی سیاسی عزم موجود نہ ہو تو پھر اس پر عملدرآمد ممکن نہیں ہے۔

حالیہ دنوں میں قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے نیشنل ایکشن ٹو کا مطالبہ کیا ہے۔

انھوں نے کہا ہے کہ اگر سانحہ اے پی ایس کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سب جماعتوں کو اکٹھا کر کے نیشنل ایکشن پلان بنا سکتے ہیں تو آج جب صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہے تو وزیر اعظم شہباز شریف نیشنل ایکشن پلان ٹو کیوں نہیں بنا سکتے۔

انھوں نے کہا کہ ’اس وقت ہم ماضی سے زیادہ خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔‘

بلاول بھٹو کے مطابق ’وزیراعظم نواز شریف تھے جب ہم نے پہلی بار نیشنل ایکشن پلان بنایا تھا۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ اب شہباز شریف نیشنل ایکشن پلان ٹو نہ بنا سکیں۔‘

نیشنل ایکشن پلان کیا تھا؟

  • سزا یافتہ دہشت گردوں کی سزائے موت پرعملدرآمد کیا جائے گا۔
  • دوسال کے لیے فوجی افسران کی سربراہی میں خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
  • سیاسی و مذہبی جماعتوں سمیت عسکریت پسند گروہوں کے عسکری و مسلح ونگز کا خاتمہ کیا جائے گا۔
  • نیکٹا کو مضبوط و موثر بنایا جائے گا۔
  • انتہاپسندی، فرقہ واریت اور عدم برداشت کی تشہیر کرنے والے نفرت انگیزتقاریر و مواد کے خلاف مکمل کارروائی کی جائے گی۔
  • دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظمیوں کی مالی امداد روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
  • کالعدم تنظیموں کوکسی دوسرے نام سے بھی کام کرنے سے روکا جائے گا۔
  • مذہبی منافرت پھیلانے کے خلاف سخت اقدامات اور اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔
  • خصوصی انسدادِ دہشت گردی فورس کا قیام اور تعیناتی عمل میں لائی جائے گی۔
  • دینی مدارس کی رجسٹریشن اورضابطہ بندی کا اہتمام کیا جائے گا۔
  • پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پردہشت گرد تنظیموں اوران کے نظریات کی تشہیر پر مکمل پابندی ہو گی۔
  • فاٹا میں انتظامی وترقیاتی اصلاحات کی جائیں گی،آئی ڈی پیز (بےگھر افراد) کی واپسی پر توجہ دی جائے گی۔
  • دہشت گردوں کے مواصلاتی نظام کو ختم کیا جائے گا۔
  • انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر دہشتگردوں اور اُن کے نظریات کے فروغ پر مکمل پابندی عائد کی جائے گی۔
  • پنجاب بھر میں عسکریت پسندی ناقابل برداشت ہو گی۔
  • 'کراچی آپریشن' کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔
  • بلوچستان حکومت کو تمام اسٹیک ہولڈرزسے سیاسی مفاہمت کا اختیار دیا جائے گا۔
  • فرقہ واریت پھیلانے والے عناصر کے ساتھ سختی کے ساتھ نمٹا جائے گا۔
  • افغان پناہ گزینوں کے معاملے سے نمٹنے کی لیے جامع پالیسی مرتب دی جائے گی اور اس کے لیے سب سے پہلے افغان پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کا عمل شروع کیا جائے گا۔
  • فوجداری نظام میں تبدیلیاں اور اصلاحات کا عمل تیزکیا جائے گا۔

ان نکات کے مطابق عسکریت پسندوں اور مسلح گروہوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس بات کو یقینی بنایا جائیگا کہ کالعدم تنظیمیں دوبارہ سرگرم نہ ہوں، دہشت گردوں کے مواصلاتی نیٹ ورک کو غیر فعال کیا جائیگا، پنجاب میں عسکریت پسندی کو برداشت نہیں کیا جائیگا، فرقہ وارنہ تنظیموں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائیگا۔

نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں ناکامی اور کالعدم تنظیموں کو چھوٹ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے نواز شریف دور کے وفاقی وزیر داخلہ چوپدرنثار علی خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل سات اپریل 2023 کو منعقد ہونے والے قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں ملک میں شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے ایک نیا جامع آپریشن شروع کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.