کوئٹہ میں 13 ’نامعلوم لاشوں‘ کی تدفین: یہ لوگ کون تھے اور بی بی سی نے قبرستان میں کیا دیکھا؟

13 نامعلوم افراد کی لاشیں دو روز قبل رات کے وقت کوئٹہ کے کاسی قبرستان میں دفن کی گئی تھیں۔ جب ہم ان قبروں کو دیکھنے کے لیے قبرستان پہنچے تو ماسک لگائے کالی وردی میں دو پولیس اہلکار ان 13 قبروں کے پاس کھڑے تھے جبکہ تین سے چار اہلکار کچھ فاصلے پر دیوار کے ساتھ سائے میں کھڑے تھے۔
کاسی قبرستان
BBC
وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کے مطابق یہ عسکریت پسند تھے جو سکیورٹی فورسز کے ساتھ ضلع کچھی میں بولان کے علاقے مشکاف کے پاس آپریشن میں مارے گئے

کوئٹہ کے کاسی قبرستان میں جمعرات کے دن ایک بزرگ چند ایسی قبروں کی حالت بہتر کرنے میں مصروف تھے جو دور سے دیکھنے پر مٹی کا ایک ڈھیر دکھائی دیتی ہیں۔

یہ قبریں ان 13 افراد کی ہیں جن کی شناخت کے معاملے پر حال ہی میں اس وقت ایک تنازع پیدا ہوا جب سرکاری حکام کی جانب سے انھیں رات کی تاریکی میں لا کر دفن کر دیا گیا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ ’جس انداز سے لاشوں کی اندھیرے میں تدفین کی گئی وہ ان خدشات کو تقویت دیتا ہے کہ یہ لاپتہ افراد کی لاشیں تھیں جن کو مبینہ طور پر جعلی مقابلے میں مارا گیا۔‘

دوسری جانب وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ ’یہ لاشیں ان شدت پسندوں کی تھیں، جو سکیورٹی فورسز کے ساتھ ضلع کچھی میں بولان کے علاقے مشکاف کے پاس آپریشن میں مارے گئے۔‘ مشکاف وہی علاقہ ہے جہاں 11 مارچ کو شدت پسندوں نے ایک مسافر ٹرین پر حملہ کر کے اسے یرغمال بنا لیا تھا اور اس پر سوار 26 افراد، جن میں 18 فوجی اہلکار شامل تھے، کو ہلاک کر دیا تھا۔

تاہم حکام کا کہنا ہے کہ جن لاشوں کے بارے میں تنازع پیدا کیا جا رہا ہے وہ جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والے شدت پسندوں کی نہیں ہیں۔

یاد رہے کہ جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے کے بعد سکیورٹی اداروں کی جانب سے بلوچستان میں شدت پسند عناصر کے خلاف آپریشن میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

بی بی سی نے ان لاشوں کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازع کے بعد کاسی قبرستان کا دورہ کیا اورمتعلقہ حکام سے بات کر کے اس سارے معاملے کے بارے میں حقائق جاننے کی کوشش کی۔

کاسی قبرستان میں بی بی سی کی ٹیم نے کیا دیکھا؟

13 نامعلوم افراد کی لاشیں دو روز قبل رات کے وقت کوئٹہ کے کاسی قبرستان میں دفن کی گئیں۔

اس حوالے سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس میں قبروں کے ساتھ تابوتوں کے ٹکڑے بھی پڑے ہوئے تھے اور ویڈیو میں ایک شخص یہ کہہ رہا ہے کہ ان لاشوں کو سرکاری گاڑی میں لا کر ان کی تدفین کی گئی۔

ایک اور ویڈیو میں قبروں میں دفن میتوں کے کفن بھی دیکھے جا سکتے تھے تاہم ان دونوں ویڈیوز کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق نہیں ہوئی۔

جمعرات کو جب بی بی سی کی ٹیم قبرستان پہنچی تو وہاں 13 ایسی کچی قبریں موجود تھیں جو مٹی کا ڈھیر معلوم ہوتی تھیں۔ بلوچستان میں نامعلوم افراد کی قبروں پر جس طرح پلیٹیں اور نمبر لگائے جاتے ہیں وہ بھی موجود نہیں تھے۔

وردی میں ملبوس دو پولیس اہلکار ان قبروں کے پاس کھڑے تھے جبکہ قریب ہی مزید چند اہلکار موجود تھے۔

ہمیں ایک بزرگ ان قبروں کی مرمت کرتے دکھائی دیے جنھوں نے اپنا نام عبدالصمد بتایا اور کہا کہ وہ گورکُن نہیں، بلکہ مالی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ہر روز اس قبرستان میں آتے ہیں اور دو روز قبل جب وہ دوپہر کو یہاں پہنچے تو انھیں یہ نئی قبریں نظر آئیں۔

ان کے مطابق جمعرات کو جب وہ قبرستان آئے تو ایک پولیس اہلکار نے انھیں ان نئی قبروں پر مٹی ڈال کر انھیں مضبوط بنانے کا کہا۔ عبدالصمد کا کہنا تھا کہ ’قبروں کی حالت ٹھیک نہیں تھی اور مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے رات کو کتے ان سے میت نکال کر نوچ سکتے تھے۔ اس لیے اب میں ان پر مٹی ڈال رہا ہوں۔‘

’لاشیں مشکاف کے قریب مارے گئے شدت پسندوں کی تھیں‘

وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے جمعرات کو نہ صرف وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ میں وفاقی وزرا کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کی بلکہ بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بھی جعفر ایکسپریس پر حملے کے واقعے کے بعد مارے جانے والے ان افراد کے بارے میں بات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ لاشیں ان شدت پسندوں کی ہیں جو مشکاف کے پاس آپریشن میں مارے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اب ہمارے پاس دو آپشن تھے۔ ایک یہ کہ ہم ان لاشوں کو وہیں چھوڑ دیتے لیکن یہ ہماری قانونی ذمہ داری تھی کہ ہم ان لاشوں کو لے آئیں، ان کا ڈی این اے کروائیں تاکہ یہ پتہ چلے کہ یہ کون لوگ تھے جو ریاست پاکستان سے لڑ رہے تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ ان لاشوں کو ایدھی فاونڈیشن کے حوالے کیا گیا، جنھوں نے ان کے بقول ہر لاش کے ساتھ ایک پلیٹ اور ایک نمبر لگا کر ان کو امانتاً دفن کیا تاکہ ’اگر کسی کی شناخت ہوتی ہے اور اسے کوئی لے جانا چاہے تو لے جا سکے۔‘

’اب شناخت ممکن نہیں تھی تو ہم نے ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا اور پھر ایدھی فاونڈیشن کے ذریعے قانونی طریقے سے دفنایا۔‘

جعفر ایکسپریس حملہ
Getty Images
کوئٹہ سے پشاور جانے والی مسافر ٹرین جعفر ایکسپریس پر حملہ ضلع کچھی کے علاقے بولان میں 11 مارچ کو ہوا

سرفراز بگٹی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ان لاشوں کو وہاں چھوڑ دیں تو لاپتہ افراد کی فہرستوں میں مزید اضافہ ہو جانا ہے۔ وہ لوگ جو آج ریاست پاکستان سے لڑ رہے ہیں ان کی لاشوں کو لائیں تب بھی ایشو اور نہ لائیں تب بھی ایشو ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر کسی لاش کی شناخت ہوتی ہے تو قانونی طریقے سے اہلخانہ لے سکتے ہیں لیکن ریاست پاکستان کا آئین اور قانون ریاست پاکستان کے خلاف لڑنے والے دہشت گردوں کی تعریف کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔‘

اس بارے میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ ’اگر حکومت کے بقول یہ افراد شدت پسند تھے تو پھر ان کی تدفین کے حوالے سے قانونی طریقہ کیوں اختیار نہیں کیا گیا اورلاشوں کو اندھیرے میں دفن کیوں کیا گیا۔‘

بلوچ یکجہتی کمیٹی، ماہ رنگ بلوچ
BBC
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ان افراد کی لاشوں کو حوالے نہ کرنے اور لوگوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف یونیورسٹی آف بلوچستان کے سامنے احتجاج کیا گیا

انھوں نے کہا کہ ’اندھیرے میں ان لوگوں کی تدفین سے ہمارے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ افراد پہلے سے جبری طور لاپتہ کیے گئے تھے جن کو جعلی مقابلے میں مار دیا گیا۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’کاسی قبرستان یا دوسرے مقامات پر جن افراد کی لاشوں کو پولیس کی جانب سے دفنایا گیا، ہم ان کی قبر کشائی کر کے ان کی لاشیں نکلوائیں گے۔‘

23 لاشوں کا معمہ

بلوچ یکجہتی کمیٹی اور لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے بھی سوشل میڈیا پر دعویٰ بھی کیا گیا کہ 23 نامعلوم افراد کی لاشیں کوئٹہ لائی گئی ہیں اس لیے لاپتہ افراد کے رشتہ دار ان کی شناخت کے لیے سول ہسپتال پہنچیں۔

18 مارچ کو ایکس پر جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ ’فورسز نے آج 23 مسخ شدہ لاشیں سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کی ہیں۔ فورسز کا دعویٰ ہے کہ یہ مقابلے میں مارے گئے ہیں لیکن ہمیں خدشہ ہے کہ یہ لاشیں جبری لاپتہ افراد کی ہو سکتی ہیں اس لیے لاپتہ افراد کے لواحقین ان لاشوں کو دیکھنے کے لیے سول ہسپتال کوئٹہ ضرور جائیں۔‘

کوئٹہ قبرستان
BBC
عبدالصمد کے مطابق وہ کوئی گورکُن نہیں بلکہ قبرستان میں جو درخت لگے ہیں ان کو پانی دیتے ہیں

اس بیان اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر لوگوں کی بڑی تعداد سول ہسپتال کوئٹہ میں جمع ہوئی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ لاشوں کی شناخت کی اجازت دینے کے علاوہ انھیں ان کے حوالے بھی کیا جائے۔

بی بی سی کی ٹیم جب سول ہسپتال کوئٹہ پہنچی تو پولیس سرجن تو دفتر میں موجود نہیں تھیں تاہم وہاں ہسپتال کے دو اہلکار بیٹھے تھے جنھوں نے بتایا کہ ’جن 23 افراد کی لاشوں کی آپ بات کر رہے ہیں انھیں سول ہسپتال کوئٹہ کے مردہ خانہ میں لایا ہی نہیں گیا تھا۔‘

ایک اور اہلکار نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ’ دو، تین روز قبل 23 افراد کی لاشیں کوئٹہ ضرور لائی گئیں لیکن وہ سول ہسپتال نہیں لائی گئیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’یہ 23 لاشیں گرمی کی وجہ سے خراب ہو چکی تھیں۔ نہ صرف یہ ناقابل شناخت تھیں بلکہ زیادہ دیر گرمی میں پڑے رہنے کی وجہ سے ان میں کیڑے بھی پڑ گئے تھے۔‘

تاہم وہ یہ بتانے سے قاصر رہے کہ ان لاشوں میں سے 13 کی تدفین کاسی قبرستان میں ہوئی تو باقی 10 لاشیں کہاں گئیں۔

کاسی قبرستان
BBC

سول ہسپتال کوئٹہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جب احتجاج ہوا تو مردہ خانے میں صرف ان پانچ حملہ آوروں کی لاشیں موجود تھیں جنھیں جعفر ایکسپریس پر حملے میں مارے جانے والے مسافروں کے ساتھ سول ہسپتال کوئٹہ کے مردہ خانہ میں لایا گیا تھا۔

اہلکار کے مطابق موقع پر موجود پولیس اہلکاروں نے مظاہرین کے مطالبے کے باوجود انھیں یہ لاشیں دینے سے انکار کیا تو لوگ مشتعل ہو گئے اور دروازہ توڑ کر پانچوں لاشیں لے گئے۔

اہلکار کا کہنا تھا کہ ’لاشوں کی حوالگی کے مطالبے پر وہاں موجود پولیس اہلکاروں نے لوگوں کو بتایا کہ یہ کیس سی ٹی ڈی نصیرآباد کا ہے اور اگر آپ لوگ ان پانچ لاشوں کو لے جانا چاہتے ہیں تو نصیر آباد ڈویژن کے متعلقہ عدالت سے اجازت نامہ لے کر آئیں لیکن ایسا کرنے کے بجائے وہ مردہ خانے کے دروازے کا تالہ توڑ کر پانچوں لاشوں کو لے گئے۔‘

کوئٹہ پولیس کی جانب سے مظاہرین سے لاشیں بازیاب کروانے کا دعویٰ بھی سامنے آیا ہے لیکن سول ہسپتال کے اہلکار کے مطابق اگر انھیں بازیاب بھی کروایا گیا ہے تو انھیں واپس سول ہسپتال کے مردہ خانہ نہیں لایا گیا۔

اس بارے میں معلومات کے لیے ایس ایس پی آپریشنز کوئٹہ محمد بلوچ سے رابطے کی متعدد کوششیں کی گئی لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

اس بارے میں جب بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ’جب لوگوں نے یہ سنا کہ 23 سے زیادہ افراد کی لاشیں سول ہسپتال لائی گئی ہیں تو لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی ایک بڑی تعداد وہاں جمع ہو گئی تاکہ ان لاشوں کو دیکھیں کہ کہیں ان کے پیاروں کی لاشیں تو نہیں کیونکہ ان کے بقول ماضی میں مبینہ طور پر جعلی مقابلوں میں لاپتہ افراد کو ہلاک کر کے ان کی لاشیں پھینکی جاتی رہی ہیں۔‘

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ جب یہ لوگ ہسپتال پہنچے تو ان کے قانونی اور آئینی حق کو تسلیم کرنے کی بجائے ان پر تشدد کیا گیا جس پر لوگ مشتعل ہوئے اور مردہ خانے سے پانچ لاشیں لے گئے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.